چند دن پہلے اخباروں میں ایک خبر نظر سے گزری کہ ایرانی عہدیدار کے مطابق
ایران کے قوانین خواتین کو صدارتی انتخابات میں امیدوار بننے کی اجازت نہیں
دیتے۔لہذا اس بیان پر سب نے شور و غوغا کیا کہ یہ خواتین کی آزادی کے خلاف
ہے اور مختلف حکومتوں اور تنظیموں اور عہدیداروں کی جانب سے مذمتی بیان بھی
آئے ہونگے۔آئیے اس کا سبب جانتے ہیں کہ کیوں خواتین کو ایران کے صدارتی
انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے؟
کسی بھی ملک میں عہدہ صدارت کو خاص اہمیت حاصل ہے قانونی اور سماجی دونوں
لحاظ سے خاص اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ملک کا دارومدا ر اسی عہدے پر ہی ہوتا
ہے پس اگر کسی ملک کا صدر کمزور ہوتو وہ ملک ہی صحیح طریقے سے نہیں چلا
پاتا دوسرا اس ملک کے دوست و دشمن ممالک سب اس پر اپنا سیاسی ،سماجی،اقتصادی
اور دفاعی پریشر اور دباؤ بڑھا دیتے ہیں تاکہ اس ملک میں جو بھی پالیسی بنے
وہ انکی منشا کے مطابق ہو یا اس میں اس قسم کا کوئی سقم رہ جائے تاکہ وہ
اپنا مقصد حاصل کر سکیں یا کسی مشکل میں اپنا دامن چھڑا سکیں۔اسکی مثال ایک
گھر جیسی ہے جس میں اگر گھر کا سربراہ کمزور ہو تو اس گھر میں غیروں کی بات
مانی اور سنی جاتی ہے اور وہی اس گھر پر حکومت کرتے ہیں ،گھر کے مالک اور
سربراہ کی حیثیت ایک کٹھ پتلی جیسی ہو جاتی ہے ،گھر کے تمام چھوٹے سے لیکر
بڑے فیصلوں تک دوسروں کی مرضی اور رائے شام حال رہتی ہے ،لہذا ہر ملک کی
غیرت مند عوام بھی یہی چاہتی ہے کہ اسکا صدر ایسا ہو جو ملکی ترقی اور اپنی
رائے پر عملدرآمد کیساتھ ساتھ غیروں اور دشمنوں کو بھی للکار سکے اور انکی
چالوں کو بھانپ کر ان سے بچ سکے اور ویسے بھی کسی ملک کی غیرت اور اجتماعی
عزت کا اندازہ بھی ملک کے صدر کی عادات واطوار اور فیصلوں کی طاقت سے بھی
لگایا جا سکتا ہے۔
اسلامی نقطہ نظر سے بھی صحیح ہے کیونکہ احادیث میں عورت کی حکمرانی سے منع
کیا گیا ہے ،ویسے ایک نہایت اہم بات جس کی طرف اشارہ کررہا ہوں اس سے اسلام
دشمنوں اور روشن فکروں کا جواب بھی دیا جاسکتاہے کہ وہ کہتے کہ اسلام کیسا
دین ہے جس نے عورت کی آزادی کو سلب کر لیا ہے!!جبکہ ایسا نہیں ہے اگر آپ
احادیث کے الفاظ دیکھیں تو ان میں ہے(لیس علی المرئۃ)یعنی عورت پر حکومت کی
ذمہ داری نہیں ہے یہ نہیں فرمایا(لیس للمرئۃ)عورت کیلئے جائز نہیں ہے پس ان
دونوں باتوں میں فرق ہے کہ ایک مرتبہ عورت کو حکومت کے حق سے محروم کرنا ہے
،دوسری مرتبہ یہ ہے کہ عورت کیلئے یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ اسکے ناتوان
کندھے اس کا بوجھ اٹھا سکیں یعنی اسے یہ ذمہ داری دی ہی نہیں گئی کہ اسے
دیکر اسے محروم کردیا گیا ہو۔ممکن ہے کہ کوئی یہ کہے کہ دنیا میں ایسی
خواتین ہیں جو ملک چلا رہی ہیں اور چلاتی رہی ہیں اسکا جواب یہ ہے کہ اسلام
اپنا اجتماعی حکم ہر ہر فرد کے حوالے سے نہیں بلکہ صنف کے لحاظ سے لگاتا
ہےکہ جو بھی اس صنف میں ہے اس پر حکم لاگو ہے لیکن اگر کوئی اس سے ہٹ کر اس
کام اور ذمہ داری انجام دے تو اس سے حکم ختم نہیں ہوتا یہ ایسے ہی ہے جیسے
روزہ سب پر واجب ہے لیکن اگر کوئی بیمار ہو بوڑھا ہو وغیرہ اس پر روزہ
رکھنا واجب نہیں ہے۔پھر یہ مثال دو تین ملکوں کے علاوہ نہیں دکھائی جا سکتی۔
اب ایران کی موجودہ صورتحال دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران عالمی
پابندیوں کے باوجودبہت زیادہ ترقی کرچکا ہے ۔ایران قوم تعلیم ،صحت ،سائنس ،ایٹمی
ٹیکنالوجی،نانو ٹیکنالوجی اور اسی طرح دوسرے میدانوں میں بھی خطے اور
اسلامی ممالک سے بہت آگے ہے ،اس کیلئے ایک ایسا صدر چاہیئے جو اپنے فیصلوں
میں بھرپور قدرت کا مالک ہو اور دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرسکے
اسکا ترکی بہ ترکی جواب دے سکے لیکن اگر کوئی صنف نازک سے صدر بن جائے تو
اس کے فیصلوں میں ایک قسم کا جھول ضرور رہے گااور اس طرح اسکی کامیابی کے
امکانات بھی کم ہونگے اور کسی ملک کو گمانوں اور خیالوں پر نہیں چلایا
جاسکتا۔دوسرا حالیہ انتخابات میں تو بہت سارے ایسے ہیں جو صرف "ہم بھی ہیں
اس محفل میں"کے مصداق ہیں صرف شہیدوں میں نام لکھوانے اور فلم بنوانے کیلئے
آئے ہیں اور انکے پاس ملک چلانے کا کوئی پروگرام بھی نہیں ہے،ایسے نہیں ایک
مرتبہ ایک شخص کو 12 سال چور کہا جائے، مسٹر ٹین پرسنٹ کہا جائےیا کوئی چور
اچکا جاہل اجڈہو پھر ایک ہی مرتبہ سیدھا سے ملک کا صدر بنا دیا جائے کیا
کہنے ہیں؟؟پھر اس بات پر شور مچانے والوں سے پوچھا جائے کہ تمہارے اندر تو
اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ اپنے ہی گھر کے کسی معاملے میں اپنی بیوی کی بات مان
سکو وہاں تمہاری غیرت آڑے آجاتی ہے کہ میں کیوں مانوں میں کوئی رن مرید ہوں
لوگ کیا کہیں گے؟ وغیرہ وغیرہ وہی خواتین کے حقوق کی آزادی کی بات کرتا ہے
پہلے اپنے گھر میں اپنی بیوی کے حقوق پورے کرلو یہی کافی ہے۔
البتہ ایران وہ واحد ملک ہے جہاں خواتین کے حقوق کا پورا خیال رکھا جاتا ہے
انہیں وراثت سے لیکر اسلامی اور قانونی سب حقوق مکمل طور پر حاصل ہوتے ہیں
ہمارے ملکوں میں تو بیٹیوں اور بیویوں کو وراثت تو کیا حق مہر تک ادا نہیں
کرتے،پھر بھی حقوق کی بات کرتے ہیں صدارت کا عہدہ کوئی کھلواڑ نہیں ہے کہ
ہر ایرے غیرے کو دے دیا جائے یہ ملک کی کروڑوں کی تعداد میں عوام کی قسمت
کا فیصلہ ہوتا ہے اور کسی کو ان حقوق سے کھیلنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے
اور اس معاملے میں جتنی زیادہ احتیاط برتی جائے کم ہے ۔اس سے خواتین کے
حقوق کی آزادی کا بھی کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ |