یہ اکیسویں صدی کا ایٹمی پاکستان
ہے جس کے شہریوں کو روزانہ بیس بیس گھنٹے تک لووڈشیڈنگ کا عذاب جھیلنا پڑتا
ہے۔اس ملک کے حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے لیے شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے
جن کے پاس ایٹم بم تو ہے مگر بجلی نہ ہونے سے گلیوں اور گھروں میں اندھیروں
کا راج ہے۔توانائی کے بحران سے فیکٹریاں و کاروبار بند،معیشت روبہ زوال اور
قوم نفسیاتی مریض ہوچکی۔یہ وہی قوم ہے جس کوماضی میں سول اور فوجی اشرافیہ
گھاس کھاکر ایٹم بم کی حفاظت کرنے کا درس دیتی رہی ہے۔ایٹم دھماکے کرنے اور
اس کا کریڈٹ لینے والے تو ٹھنڈے ٹھارکمروں میں بیٹھے ہیں ، قومی ترجیحات
اور وسائل کے تعین میں مجرمانہ غفلت کے نتائج قوم بھگت رہی ہے۔اب گھاس تو
حلق سے نہیں گزر سکتی ، اندھیروں میں بیٹھ کر صبر اور شکر کے کڑوے گھونٹ پی
لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
سیکورٹی کے جائز اور ناجائز خدشات اور خطرات میں گھری قوم میں ایٹم بم کی
حمایت میں دلائل کے انبار تو بہت لگائے جاسکتے ہیں مگر جب اسی ایٹمی ملک کی
آبادی کا نصف سے بھی زائد حصہ غربت کی لیکر سے نیچے زندگی گزار رہا
ہوتوایٹم بموں اور میزائلوں کے بارے میں سوچنا پرلے درجے کی حماقت ہی نہیں
انسانیت کی بدترین تذلیل ہے۔قوم پرستی ، مذہبی جنون اور قومی غیرت کی
عینکیں اشرافیہ اور پالیسی سازوں کو بھی اندھا اور بہرا کر دیتی ہیں ورنہ
ایٹمی ھندوستان جس کی نصف آبادی کو ٹوائلٹ کی سہولت تک میسر نہیں کے
حکمرانوں کی ترحیح بم اور میزائل نہیں، بنیادی انسانی ضرورتوں کا پورا کرنا
ہوتا۔
قومی ترجیحات کوجذباتی وقتی ضرورتوں کے بجائے حقیقی مسائل کی طرف موڑنا
حکمران طبقے کی ذمہ داری ہوتی ہے۔جس کا کام ہے کہ معمول کے امور حکومت میں
طویل المعیاد منصوبہ بندی کرے اوراگر کوئی قومی آزمائش آئے تو جذبات کی رو
میں بہنے کے بجائے انسانی اور مادی اسباب کا دھارا تخریب کے بجائے تعمیر کی
طرف موڑے۔اس کی واضح مثال دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان میں نظر آتی ہے ۔
امریکی استعمار نے ایٹم بم گرا کر جاپانی شہر وں ناگا ساکی اور ہیرو شیما
کو آنا فانا ملیامیٹ کر دیا تو مغموم اور مضمعل جاپانی قوم کا امریکہ کے
خلاف جذبہ نفرت دیدنی تھا۔ اس موقع پر جاپان کے حکمران طبقے نے عقل و دانش
اور ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔جاپانیوں نے جارح ا مریکیوں سے بدلہ لینے
کے لیے خودکش بمباروں کی ٹولیاں تیار کیں،نہ نیو یارک کے مجسمہ آزادی (
Statue of Liberty )پر جاپانی پھریرا لہرانے کا اعلان کیا اور نہ ہی
جاپانیوں نے پاکستان اور ہندوستان کی طرح ایٹمی دھماکے کے مقابلے میں
مزیددھماکے اور میزائل کے مقابل میزائل خلامیں بھیجے۔
جاپانی حکومت نے اپنے سائنس دانو ں اور ماہرین کو ایٹم برائے امن کا سلوگن
دیا یعنی تباہی کے بجائے تعمیرایٹم کی ترجیح بنا دی گئی۔ ۔ جاپان نے مرحلہ
وار منصوبے کے تحت ملک میں ایٹمی بجلی گھروں کا جال بچھا یا ۔ملبے کے
ڈھیرسے ایک ایسی عالی شان قوم کی اٹھان ہوئی ، دنیا میں جاپان ایک
بھرپوراقتصادی قوت بن کر ابھرا، ہنڈا ، ہٹاچی، سونی جیسی جاپانی کمپنیاں
امریکہ ہی نہیں تمام دنیا کے گھروں کے برانڈ نام بن گئیں۔توانائی اور ترقی
کا چولی دامن کاساتھ ہوتا ہے ۔جاپان اپنی بجلی کی پیداوار میں سے چالیس فی
صد سے زاید ایٹمی ری ایکٹروں سے حاصل کرتا ہے۔ایٹمی بجلی گھروں کے طفیل آج
جاپان کاشمار دنیا میں سستی ترین بجلی پیدا کرنے والے ملکوں میں ہوتا
ہے۔جاپان آج دنیا کی چوتھی بڑی معاشی قوت ہے۔
جاپان کی طرح بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں ایٹمی اور نیوکلیر بجلی گھر
توانائی کی ملکی پیداوار کا اہم حصہ ہیں۔فرانس اپنی بجلی کا ۷۸ فی صد
نیوکلئیر پلانٹ سے حاصل کرتا ہے۔امریکہ اپنی بجلی کی انیس فی صد اور کینیڈا
سولہ فی صد ضروریات ایٹمی ری ایکٹر سے پورا کرتے ہیں۔بھارت تین فی صدبجلی
نیوکلیئر پلانٹس سے حاصل کرتا ہے اس نے ۲۰۲۲ ء تک دس فی صد اور ۲۰۵۶ء تک
چھبیس فی صد تک لے جانے کا ہدف رکھا ہے۔چین نیوکلیئر ذرائع سے بجلی کی
پیداوار ۲۰۲۰ء تک دو فی صد سے بڑھا کر پانچ گنا اضافہ کرنا چاہتا ہے۔اس وقت
پوری دنیا میں پیدا ہونے والی مجموعی پیداوار میں سے سولہ فی صد بجلی
نیوکلئیر بجلی گھروں سے حاصل ہوتی ہے۔ نیوکلئیر توانائی کے عالمی ادارے آئی
اے ای اے کے مطابق آنے والے سالوں میں یہ حصہ پچیس فی صد تک پہنچ جائے گا۔
توانائی بحران صرف پاکستان یا تیسری دنیا کا ہی مسئلہ نہیں ہے۔بجلی کی
عالمی کھپت میں اضافے سے ۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۷ء کے درمیان بجلی کی اوسط قیمت میں
انتیس فی صد اضافہ ہوا ہے مگر جاپان میں یہ اضافہ صرف ایک فی صد اور امریکہ
میں ُٓ پانچ فی صد ہوا ہے۔ماہرین کے مطابق دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے
میں ان دونوں ملکوں میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی کم شرح کی بڑی وجہ
ایٹمی بجلی گھروں کی بجلی کا زیادہ حصہ ہے۔ایٹمی توانائی کے پرامن مقاصد کے
استعمال کا یہ عالمی منظرنامہ اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستانی اشرافیہ
دفاعی ریاست کے مائنڈسیٹ سے باہر نکلے اور نیو کلیئر ٹیکنالوجی کو دشمنوں
کے ڈرواے کے استعما ل کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی بھلائی اور توانائی کے
پرامن مقاصد کے طور پر بھی استعمال کیا جائے۔عالمی معاشی پابندیوں اور آئی
اے ای اے کی تیکنکی بندشوں کے باوجود اگر ایران دو ہزار میگا واٹ کی
نیوکلیر بجلی کی صلاحیت حاصل کرسکتا ہے تو پاکستان کے انگریزی دان بابو ؤ ں
کو بھی اپنی دماغ کی گرہوں کو کھولنا ہو گااور توانائی کے وہ جدید متبادل
ذرائع ڈھونڈے ہوں گے جوترقی پذیر اور ترقی یافتہ دنیا نے کامیابی سے
استعمال کیے ہیں۔۔تھر میں کوئلے کے وافر ذخا ئر اپنی جگہ مگر کیوٹو پروٹو
کول اور گرین ھاؤس گیسو ں کی کمی کے دیگر عالمی معائدے اس پر عمل درآمد میں
رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ایسے میں پاکستان کی توانائی ضروریات کا حل روایتی
ہائیڈرو الیکٹرک کے ساتھ ساتھ نیوکلیئر انرجی، بائیوگیس، ونڈ انرجی ، سولر
انرجی اور کچرے سے توانائی جیسے ماحول دوست ذرائع سے ہی ممکن ہے۔
( ظفراقبال برطانیہ میں مقیم ایک فری لانس صحافی اور بلاگر ہیں ۔ https://www.zafaronline.net/
) |