5 جون ،ماحولیات کا عالمی دن

انسانی زندگی میں ماحولیات کی اتنی اہمیت ہے جتنی پانی کی ،انسان آج مختلف بیماریوںاور مختلف بیمارویوں اور مختلف مسائل و مصائب سے دوچار ہے تو اس کی اہم وجہ ان کا ماحول دوست نہ ہونا ہے ،اپنی بے جاضرورت اور ذاتی مفادات کے حصول کے لیے ماحولیات کو جس قدر نقصان پہنچایا ہے ،انسان آج اس کا خیمازہ بھگت رہاہے ،آج موسم میں غیر متوقع تبدیلیاں رونماہورہی ہیں،جہاں دور دور تک بارش کا امکان نہ تھاوہ روز روز بارش ہورہی ہیںاور جہاں اکثر بارشش ہوتی تھی وہاں پر خشک سالی کا دور دورہ ہے ،گلشیرکے تیزی کے ساتھ پگھلنے کی وجہ سے اکثر سیلاب آجاتے ہیںاسی طرح بڑی بڑی مٹی کے طوفان بھی تباہی مچارہے ہیں-

دنیا بھر میں ہر برس پانچ جون کو عالمی یوم ماحولیا ت منایاجاتاہے ،ماہرین ہر سال اس دنیا کو منانے کے لیے مختلف تھیم کا انتحاب کرتے ہیں تاکہ ماحولیات کے عالمی دن کو مناتے وقت پوری دنیا کے اندر اسی بھی تھیم کے بارے میں بات کی جائے اور ماحولیات سے متعلق اس مسلے کو زیر بحث لایا جائے،اس بار 2013 میں ماحولیات کے عالمی دن Think ,Eat,& Save ،یعنی "سوچو ،کھاو اور بچاو " کے عنوان سے منایا جاہا ہے اس موضوع کا انتخاب دنیابھر میںبدلتے موسموں کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات اور ان کے باعث بڑتی ہوئی غذائی قلت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر روز دیا گیا ہے -

پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر یہاں کے عوام کو دو وقت کی روٹی کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتاہے ،عالمی اداروں کے سروے یہ چیخ چیخ کے کہ رہے ہیں کہ پاکستان میں35فی صد گھرانے غذائی قلت کا شکار ہیں،ملک کے باقی صوبوں کی نسبت ہمارے بلوچستان کا کیا حال ہوگا اس کا اندازہ اب خود ہی لگا سکتے ہیں-

پاکستان جنوبی ایشاءکا اہم ملک ہے ،ان وقت دنیا کی معشیت جس طرح تباہی سے دوچار ہے،اس کے اثرات سے پاکستان محفوظ نہیں ہے ،کم روز معیشت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ،غربت و افلاس کی شرح بڑھ رہی ہے ،زراعت جو کہ ہماری معشیت کا بنیادی جزو ہے ،بہت زیادہ مشکلات سے دوچار ہے،ایک زرعی ملک ہونے کے ناطے زراعت اور اس کے لیے درکار پانی کے وسائل ہمارے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں، موسموں تبدیلیوں کے اثرات دنیا بھر کی طرح یقینا پاکستان کے آبی ذخائر پر بھی مرتب ہون گے،بارش کا کم ہونا یا نہ ہونا یا بہت ہی زیادہ ہونا ،یقینا ہماری زراعت کے لیے خطرے کا باعث ہے گوکہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہے جو براست موسمی تبدیلیوں کے اثرات کا شکار ہے -

موجودہ ماحولیا ت کے عالمی دن کی تھیم جوکہ سوچو، کھاواور بچاو پر مشتمل ہے اگر اس حوالے سے دیکھیں تو ہمارا ضلع لسبیلہ قدرتی وسائل کے حوالے سے مالامال ضلع ہے اور زرعی پیداور کے حوالے سے بلوچستان بلکہ ملک کا اہم ترین ضلع ہے ،بیلہ ،دریجی ،ساکران ،وندر،اوتھل،لاکھڑا کی زمین سونا اگلتی زمین کہلاتی ہے جہاں پر ہر قسم کی زراعت کی جاسکتی ہے لیکن موسمیاتی تبدیلیوں اور خود انسانی حوص نے بھی مستقبل میں زرعی پیداور کے بہتر عمل کو خطرے میں ڈال دیا ہے ۔

لسبیلہ میں گزشتہ پندرہ سال سے زرعی پیداور کے بارانی پانی کے بجائے مشینی پانی زیادہ استعمال کیا جارہاہے جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کا واٹر ٹیبل آہستہ آہستہ نیچے گرتاجارہاہے ،یہی وجہ ہے کہ زمین داروں کو ہر چار سال بعد اپنے بورنگ کو دوبارہ مذید گہراکرنا پڑ ا رہاہے دوسری طرف بیلہ،اوتھل ،وندر اور حب کی قریبی ندیوں سے بڑے پیمانے سے ریتی بجری اٹھانے کی وجہ سے ان شہری آبادی کا زیرزمین واٹرٹبیل مذید نیچے جارہاہے ،لاکھڑا کنراج بیلہ اور اوتھل کے علاقوں سے جنگلات کی کٹائی سے قدرتی وسائل کو بے پنا ہ ضیائع یہ پیغام دے رہاہے کہ مستقبل میں انسانی زندگی کو اجیران بنایا جارہاہے ،بیلہ اور اوتھل کے لالچی زمیندار زراعت کے مقاصد کے لیے ہر جگہ بورنگ کرکے زیر زمین پانی کو ختم کرنے پر طولے ہوئے ہیںاور زرعی ادویات کا پے پنا ہ استعمال کرکے نہ تو شہدکے مکھیوں کو زندہ چھوڑا ہے اور نہ ہی زمین کو دوبارہ کاشت کے قابل چھوڑ رہےے ہیں،ڈام اور گڈانی میں خطرناک جال لگاگر سینکڑوں کی تعداد میں" گنڈ" کے نام پر مچھلیوں کا شکار کر سمندری حیات کو بڑی بے دردی کے ساتھ ضائع کیا جارہا ہے جوکہ لمحہ فکریہ ہے -

انسان کس طرح کی حرکتیں کرتاہے اس پرہم سب نے اس شحض کی کہانی تو ضرورپڑھی ہوگی جو درخت کی ایک شاخ پر بیٹھا اسے کاٹ رہاتھا اور یہ سننے کو تیار نہ تھا کہ اس کا نتیجہ کیاہوگا ،ایک عالمی ادارے کی تازہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ آج کا انسان بھی کہانی کے اس مخص اس کرادار جیسا ہے اور مطلق پروانہیںہے کہ اپنے کیے پر مستقبل پر اسے کیا بیتنے والی ہے، جنگلی جیات کے تحفظ کے ادارے WWFکی حالیہ روپورٹ میں کہاگیا ہے کہ انسان ہر سال قدرتی وسائل کو کی اتنی مقدر استعمال کررہاہے جیسے دوبارہ پیدا کرنے میں زمین کو ڈیڑھ سال لگتاہے وسائل کے بے دریخ استعمال سے کراہ ارض کی شکل تبدیل ہورہی ہے جس کی وجہ سے زمین پر موجود نباتات حیات میں جو تنوع و رنگینی تھی اب اس میں تیس فی صد کم ہوچکی ہے ، فضائی آلودگی کی وجہ سے دنیا کے درجہ حرارت میں اضافہ ہورہاہے جس سے موسم تبدیل ہورہے ہیں غیر متوقع شدید بارشیں ہورہی ہیں گلیشیر پگھل رہے ہیں بھیانک سیلاب آرہے ہیں خشک سالی پیداہورہی ہے سمندر کی سطح بلند ہورہی اور زراعت تباہی کا شکار ہورہی ہے اس عوامل کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معاشی نقصان ہورہاہے -

ہمارے ہاں عوام میں علاقائی اور ملکی سطح پر ماحولیاتی مسائل کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے برابر ہیں عالمی حدت میں اضافہ یعنی درجہ حرارت کے بڑھنے سے موسم اور آب و ہوا میں تغیراور تبدیلی رونما ہورہی ہے یہ عمل بہت تیز ہے اور ہمارے ہاں لوگ براست متاثر ہورہے ہیں اس لیے لازمی ہوگا ہے کہ شعور اگاہی اور معلومات کو لوگوں تک پھیلانے کا دائرہ ہنگامی طور پر وسیع کیاجائے کیونکہ ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں آنے والی موسمیاتی شدتوں کو روکنا تو شائد آئندہ چندبرسوں میں ممکن نہ ہوسکے تاہم بروقت شعور و اگاہی اور حکمت عملی سے حیات انسانی پر ان تغیر ات کے مضر اور جان لیوا اثرات کو کو اگر مکمل طور پر ختم نہیں کیاتو کم کیا جاسکتاہے

Khalil Roonjah
About the Author: Khalil Roonjah Read More Articles by Khalil Roonjah: 12 Articles with 19097 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.