بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے ۔۔؟

انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں اور حکومت سازی کے بارے بھی سبھی علم رکھتے ہیں ۔متوقع حکمرانوں بارے بہت کچھ لکھا گیا اور حالات کی ہر کروٹ پر ان کے بارے لکھاری اپنی قلم کو زیر جنبش رکھے ہوئے ہیں ۔وزیراعظم میاں نواز شریف اپنی تیسری بار (ہٹ ٹریک )اس اہم منصب پر براجماں ہونے والے ہیں ۔ان کی آمد پر قوم بے شمار امیدیں ،توقعات اور ملک کو خوشحال دیکھنے کے خواب پورے ہونے کی تمنا رکھتے ہیں ۔

یہ ہماری بحیثیت قوم خوش قسمتی ہے کہ جمہوری نظام ماضی سے کافی حد تک مستحکم ہو رہا ہے اگر یہ کہا جائے کہ جمہوری پودے کو ابھی 5سال گذرے ہیں غلط نہ ہو گا ۔پہلی جمہوری حکومت جس نے تاریخ پاکستان میں پہلی بار منتخب جمہوری قوت کو اقتدار منتقل کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے ۔جانے والے جیسے عبرت ناک مثال بنے ،آنے والوں کے لئے بہت سارا سبق آموز ورثہ بھی چھوڑگئے۔یہ ساری صورت حال کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ماضی کے حکمران کیوں ”کارکردگی “ کے باوجود ہارے ۔ملک کے بزرگ سیاستدان اور آذادکشمیر کے سابق وزیر اعظم جناب سردار عبدالقیوم خان نے زرداری دور کی شروعات میں ایک ملاقات کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کا کس قدر فہم و فراست سے لبریز جواب دیا ۔”ملک اس وقت قائد اعظم کی تلاش میں ہے اور یہ موقع انتہائی اہم ہے کہ اب زرداری ہیرو بن سکتے ہیں لیکن ان کے اردگرد ایسا حصار ہے کہ وہ یہ اہم موقع گنوا دیں گے “۔لگتا ہے کہ زرداری صاحب نے موقع گنوایا بھی بلکہ اس بیش قیمت موقع کو طشتری میں رکھ کر حوالے کر دیا۔اب یہ آخری موقع میاں صاحب کے گلے کی ہڈی بھی بن سکتا ہے ۔

ملک گذشتہ سات دہائیوں میں جس نظام کو پروان چڑھاتا گیا وہ اس قدر رچ بس چکا ہے کہ اسے توڑنے کے لئے کسی کی عقل و شکل کام نہ آئی ۔جس قوم میںپیدائشی طور پر خائن ،بد دیانت ،چرب زبان ،خوشامدی ،کاسہ لیس ،نفس پرست ،داداگیر،شعبدہ باز ،فرائض سے غافل ، عوام کو اچھوت تصور کر نے والے ایک مخصوص فاصلے” سٹیٹس کو“کی لاعلاج بیماری میں مبتلا ایک نہ ٹوٹنے والی زنجیر میں پروے ہوئے ہوں تو پھر یہ کہنا کہ کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملیں گے کتنی ”سادگی“ کا اظہار ہے ۔کارکردگی اگر ہوتی تو پنجاب پی پی کے صدر میاں منظور وٹو ہٹ ٹریک شکست نہ کھاتے ،سابق وزیر اطلاعات قمر زمان کاہرہ ،سابق وزیر احمد مختار ،سابق وزیر ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ،سابق اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی راجہ ریاض ،سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور ،سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے والد جمشید دستی سے نہ ہارتے ۔ایسے بہت سے نام ہیں جنہیں شکست قبول کرنا پڑی ۔5برس عوام ہر صبح یہ سوچ کر خاموش رہے کہ شائد کل ان کا اچھا ہو جائے ،مگر اقتدار میں بد مست ہاتھیوں نے ”اچھائی نہ کرنے کی قسم اٹھا رکھی تھی “جس کا آپریشن گیارہ مئی کو اٹھارہ کروڑ عوام نے پوری قومی ذمہ داری سے کر دکھایا۔مہنگائی کا نہ رکنے والا جن ایسا بے قابو کر دیا کہ گلی کوچوں تک حکومت کے بد اثرات کو مختلف حیلوں اور دلیلوں سے بھی نہ ٹالا جا سکا۔بجلی کا بحران روز بروز بڑھتا رہا ،عوام تاریکی میں ڈوبی رہی ،حکمران نیرو کی ”بانسری“ بجاتے رہے ۔بے روز گاری شدت سے بڑھی اگر روزگار کے کہیں مواقع میسر آئے تو وہاں بھی اقربا پروری ،سفارش و رشوت سے حقداروں کو زندہ در گور کیا گیا۔پیٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کو عالمی منڈی کے ساتھ ہفتہ اور ماہوار جوڑ کر عوام کی کھال اتاری گئی۔بتایا جاتا ہے کہ چند پٹرول پمپس کے مالکان کی خواہش پر انہیں فائدہ پہنچانے کی غرض سے ایسا فارمولا لایا گیا بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جب شوگر کا بحران پیدا ہوا تھا تو اس کے پس منظر میں شوگر مافیا سرگرم رہا ۔کس کس ”کارکردگی “ کا ذکر کیا جائے ۔۔؟؟؟ملک کے منافع بخش اداروں کی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھ کر رونا تک نہ آنا بے حسی کی آخری سطح ہے۔دنیا کا منافع بخش ادارہ ریلوے بد ستور کرپٹ مافیا کی ذد میں رہتے ہوئے اب نیلامی کے قابل بھی نہیں رہا،اسی طرح واپڈا جو اربوں روپے عوام کے جیبوں سے نکال رہا ہے اس کا خسارہ اپنی جگہ عوام روشنی کے لئے ترس گے ہیں ۔ہمارے بیورکریٹ مزاجاً بادشاہ ،حکمرانوں کو آنکھوں میں اتارنے کے ماہر ،عوام کو خوار کرنے میں با اختیار،وطن کے یہ ٹھیکیدار جب تک زندہ ہیں ہر جانے والا اور آنے والے انہی کے اسیر بن کر کھجل و خوار ہوتے رہیں گے۔ ڈاکٹرطاہر القادری سے شدید اختلاف اپنی جگہ مگر انہوں نے عوام کو نیا شعور دیکر زندہ کر دیا ،ورنہ پلاسٹک سرجری کر کے پرانے چہروں نے پھرمیدان مارنے کے خواب دیکھ رکھے تھے ۔

حالات پر گہری نظر رکھنے والے بعض دانشوروں کا استدلال یہ ہے کہ جو پی پی پی نے جو بویا تھا وہ انہوں نے کاٹ لیا بلکہ اخلاقی طور پر اپنی شکست بھی تسلیم کر لی ،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ میاں نواز شریف کیا اس موقع سے استفادہ اٹھا سکیں گے ،ضرور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک نادر موقع عطا کیا ہے ۔انہیں ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے جذبات کو ایک طرف رکھ کر قوم کی ترجمانی کرنا پڑے گی۔اب رونے دھونے سے کام نہیں چلے گا عوام کا صبر حلق تک پہنچ چکا ہے ۔اگر ”واری“ کا نظام چلانا ہے تو”جناب “پی پی سے بھی بھیانک انجام کی تیاری شروع کر لیں ۔ہاں اگر تبدیلی لانی ہے تو پھر سخت گیر اقدامات کرنا ہونگے ۔عوام سوچ رہی ہے کہ میاں نواز شریف اپنی پہلی تقریر میں عوام کو کہاں کھڑا دیکھ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟جب یہ کہا جاتا ہے کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ نے ہماری معیشت زوال کا شکار کردی ہے ،کسی حد تک ٹھیک سہی مگر غور طلب بات یہ ہے کہ کیا دہشتگردوں نے کہا تھا کہ وہ مہنگائی بڑھاتے جائیں ،منافع بخش اداروں کو تباہ کریں ،کیا دہشگردوں نے دباﺅ ڈالا تھا کہ رشوت خوری کر کے من پسند فیصلے کئے جائیں ،فرضی بہانے ،بے کار دلیلیں اور خوشنما تقریروں سے عوام پھر غلطی کریں گے۔اندرونی اور بیرونی سازشوں کی بات درست سہی مگر ووٹ تو عوام نے دینے تھے ۔سازشیں تب کامیاب ہوتی ہیں جب آوے کا آوا بگڑا تگڑا ہو،یہی ہوا کہ بیوروکریسی نے دل لگا کر عوام کے زندہ رہنے کی ہر سانس کو مغلوب کیا۔

میاں صاحب !!! اب آپ کی گردن شکنجے میں عوام نے دے رکھی ہے ۔بجلی بحران پر قابو پانا پہلی ترجیج ہونا ضروری ہے جبکہ مہنگائی ،بے روزگاری تعلیم و صحت کی سہولیات ثانوی ترجیحات رکھی جائیں ،ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے صاف ستھری بیوروکریسی کا ہونا ضروری ہے ،اس وقت ہر ادارے میں لوٹ سیل لگی ہوئی ہے ۔جس کسی کے پاس جتنے اختیارات ہوتے ہیں وہ اس سے دوگنا فائدہ اپنی ذات کی حد تک کرتا ہے،جب تک بیماری کادرست سی ٹی سکین نہیں کیا جاتا تب تک سارے دعوے سراب لگتے ہیں ۔سیانے کہتے ہیں کہ اگر موجودہ بیوروکریسی کی تطہیر کر دی جائے تو کسی حد تک کامیابی کا سفر شروع ہو سکتا ہے ۔جب ہر بیماری کے روٹس بیوروکریسی تک پہنچ رہے ہوں تو پھر دیر کیسی،میاں صاحب !! تنخواہ مراعات کم زیادہ کرنے سے جھونپٹری والے کی تقدیر نہیں بدل سکتی ،با صلاحیت ،جرات مند اور عوام دوست شخصیات کو کابینہ میں لایا بجائے تاکہ بہتر ریفارمز سے عوام تک اس کے ثمرات پہنچ پائیں ۔عوام اب کسی شعبدہ بازکے نرغے میں آنے سے رہے ،لہذا تمام اداروں کا گرینڈ آپریشن کے لئے ہاتھ اٹھانا پڑے گا،جس کی کارکردگی عوامی خوشحالی سے تعلق نہ رکھتی ہو ایسے بد نما بچھو ﺅں کو کنارے کرنا پڑے گا ،ورنہ جیسے چل رہا ہے ایسے ہی چلتے چلتے قوم کو داغ مفارقت دینا نصیب ہو گا۔66برس پر محیط اتنی گند ہماری معیشت کو زیر غلام کئے ہوئے ہے کہ اس کا صاف کرنا بڑا تاریخی اقدام ہو گا۔
Bashir Ahmed Mir
About the Author: Bashir Ahmed Mir Read More Articles by Bashir Ahmed Mir: 32 Articles with 23121 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.