ملک محمد پرویز
نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی کے مطابق بلوچستان پر پہلے
گورا انگریز مسلط تھا اب کالا انگریز قابض ہے، بلوچستان کا مسئلہ حل ہو گیا
تو بہت سوں کی روٹی روزی بند ہو جائیگی۔ چند عناصر کی خواہش تھی کہ
انتخابات میں گڑبڑ کی جائے۔ نیشنل پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے
مزید انکشاف کیا کہ بعض طاقتوں نے الیکشن میں حصہ لینے والوں کو کفن تک
بھجوائے مگر اس کے باوجود بلوچستان میں انتخابات ہوئے۔ بعض مقامات پر
دھاندلی کے الزامات بھی لگے جبکہ ان میں کچھ الزامات درست ہوسکتے ہیں مگر
نگران حکومت مکمل طور پر غیر جانبدار تھی اور کسی کو ارادتاً جتوانے کی
کوشش نہیں کی۔
سچ تو یہ ہے کہ بلوچستان کے محب وطن عوام نے انتخابات 2013ءمیں بھرپور شرکت
کرکے ملک دشمن عناصر کا منفی پروپیگنڈہ مکمل طور پر رد کردیا ہے اور یہ بات
ثابت کردی ہے کہ پاکستان میں قانون کی بالادستی اور جمہوری نظام ہی تمام
درپیش مسائل کا حل ہے۔ اگرچہ چند سازشی لوگوں نے بیرونی ممالک کے اشاروں پر
چل کر قومی مفاد کو بالائے طاق رکھ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کی اور
بلوچ روایتوں کے خلاف گھٹیا خیالات اور تضادات کو پروان چڑھا کر بلوچستان
کے سادہ لوح اور معصوم لوگوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہاں
تک کہ بلوچ عوام کی اُمنگوں کے برخلاف انہیں الیکشن 2013ءمیں حصہ نہ لینے
پر اکسایا۔ چند لکھاریوں بشمول ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ وغیرہ نے اپنی ذہنی
بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلوچستان کے حوالے سے پاکستان کو نو آبادیاتی
ملک ظاہر کیا۔ پاکستان کی تخلیق کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کرتے ہوئے
تاریخی حقائق کو مسخ کرکے پیش کرنے کی کوشش کی جبکہ بلوچ عوام کی وہ قابل
قدر کاوشیں نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان سے بلوچستان کا رشتہ توڑنے کا درس
دینے کی کوششوں میں لگ گئے۔ پاکستانی افواج اور ایجنسیوں کو مقبوضہ طاقتوں
کا الزام دیتے ہوئے انہیں بلوچستان میں تمام برائیوں کا ذمہ دار ٹھہرایا
مگر اللہ بھلا کرے نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب غوث بخش باروزئی کا
جنہوں نے دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں
بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ ہمارے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاک ایران گیس
پائپ لائن اچھا منصوبہ اور ملکی مفاد میں ہے۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد
قلات کے علاوہ باقی ریاستوں نے پاکستان میں شمولیت اختیار کرلی جبکہ قلات
نے 1948ءمیں شمولیت کی جبکہ خان آف قلات احمد یار خان 1974ءسے 1977ءتک
بلوچستان کے گورنر رہے۔
بہرحال غیر ملکی طاقتوں کے وظیفہ خوار چند گمراہ سرداروں نے نہ صرف بیرون
ملک پناہ لے رکھی ہے بلکہ بلوچ عوام کو یہ تاثر دیا کہ بلوچستان کے زیر
زمین وسائل کو حکومت پاکستان اور فوج ہڑپ کررہی ہے۔ اس طرح کچھ بلوچ عوام
کو ریاست پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھانے پر آمادہ کیا۔ امن و امان کو خراب
کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی اور عوام کے ذہن میں یہ خیال پیدا کیا کہ
آزاد بلوچستان ان کی خوشحالی اور خطے کی بہتری کے لئے موزوں ہے۔ یہی وجہ
تھی کہ ان ملک دشمن عناصر نے اپنے زہریلے پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو
انتخابات 2013ءمیں حصہ نہ لینے سے روکا اور تشدد کی دھمکیاں دیتے ہوئے عوام
کو نتائج کا خود ذمہ دار ٹھہرایا۔ مگر بلوچ عوام نے انتخابات میں حصہ لیتے
وقت تمام دھمکیوں اور پروپیگنڈے کو رد کردیا اور انتخابات میں حصہ لیکر یہ
ثابت کیا کہ وہ پاکستان کا حصہ رہ کر ہی خوشحال اور امن و امان کی فضاءپیدا
کرسکتے ہیں۔ بلوچ عوام کو معلوم ہے کہ ان کا استحصال حکومت پاکستان افواج
پاکستان نہیں کررہی بلکہ غیر ملکی عناصر اور سازشی سردار ان کو غلط راستے
پر چلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ آج افواج پاکستان بلوچستان کی ترقی اور
خوشحالی کے لئے قیمتی خدمات سرانجام دی ہیں جو قابل ستائش ہیں۔ بلوچستان کے
غیور اور بہادر عوام اپنے فائدے اور نقصان کو اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور
اس امر سے کماحقہ آگاہ ہیں کہ بلوچستان کی خوشحالی اور عوام کی بہتری صرف
آزادانہ انتخابات اور عوامی حکومت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بلوچستان کی ترقی
اور کامرانی وفاقی حکومت اور دوسرے صوبوں کے تعاون ہی سے ممکن ہے اور غیر
ملکی امداد کے بل بوتے پر علیحدگی پسندی کا نعرہ لگانے والے گمراہ سرداران
کے دکھوں اور مسائل کا مداوہ نہیں کرسکتے۔ وہ پاکستان افواج کے ترقیاتی
پراجیکٹ اور ان کی بلوچوں کے لئے خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور
دل سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ متحدہ پاکستان ہی ان کو خوشحالی امن کی بحالی
اور صوبے کی ترقی کا ضامن ہے۔ پاکستان میں پُرامن انتقال اقتدار اور قومی و
صوبائی سیاسی جماعتوں کی طرف سے انتخاب مہم نے بھی بلوچستان کے عوام کی سوچ
پر مثبت اثرات چھوڑے ہیں۔ |