فن ِ شاعری کو دیگر فنونِ لطیفہ پر فوقیت عطا کرنے
کے معاملے میں مشرق .... گویا.... مغرب کو مات دیتا نظر آتا ہے،اگرچہ مغرب
کے ادب کا رعب و دبدبہ آج بھی برقرار ہے۔ خصوصاً فارسی شاعری نے جو روایتیں
قائم کیں اُن کی ٹکّر لینے سے دیگر زبانیں گویا ایک طرح کی گھبراہٹ محسوس
کرتی ہیں۔لیکن عجیب اتفاق ہے کہ ایک زبان ایسی بھی ہوئی کہ جب یہ خم ٹھونک
کر میدان میں اُتری تو بعض مبصّرین کو اِس کی جرات بڑی عجیب سی لگی ۔ کچھ
استعجاب بھی ہوا، لیکن ”اُردو“کی جراتِ رندانہ بے معنی نہ تھی۔ کیوں کہ اِس
کے عناصر ِ ترکیبی میںترسیل و ابلاغ کی جو زبردست قوّت پنہاں تھی اِس میں
بالآخراپنا رنگ دکھایا اور آج ساری دنیا میں اِس خوبصورت زبان کا غلغلہ ہے
تو اِس پر کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہئے۔
اُردوغزل کو اِس صورتحال کاکریڈٹ دینے میں نقاد اور تبصرہ نگار بڑی فراخدلی
کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اگرچہ غزل کو یہ مقام دینے کے سلسلے میں اِدھر اُدھر
کچھ بھنویں تن بھی جاتی ہیں،ممکن ہے اِس موقف کو اِختیار کرنے میں وہ حق
بجانب بھی ہوں، لیکن اِس حقیقت کا اعتراف سب کو ہے کہ غزل کی یہ روایت اپنے
کمالات و معجزات کے اعتبار سے کسی بھی عالمی زبان کی شاعری سے ٹکّر لینے کی
نہ صرف صلاحیت رکھتی ہے بلکہ بعض حیثیتوں سے یہ انفرادیت کی بھی حامل ہے او
ر اِس کی بعض حیثیتیں اِسے دیگر زبانوں کے مقابلے میں ممتاز بھی کرتی ہیں،
چنانچہ اِس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ غزل اب عالمی تناظر کو ساتھ لے کر چلنے
کے موقف میں ہے اور دوسرا پہلو یہ کہ غزل ہی کے حوالے سے بعض فنکار اب
مقامیت کی سطح سے اُبھر کر قومی اور اِس سے بھی آگے بین الاقوامی سطح تک
رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ بعض نے کسی حد تک کامیابی حاصل بھی
کر لی ہے۔ بعض کامیابی کی ابتدائی منزلوں میں ہیں۔ بعض اپنی آفاقیت منوانے
کی جدو جہد کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکے ہیں۔
علاّمہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ کی اسلامی شاعری ہو کہ فیض احمد فیض کی اشتراکیت
زدہ شاعری، بہر حال اِن میں ایک ایسی اپیل ضرور پائی گئی جو دنیا کی بیشتر
اقوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے قابل تھی۔ کیوں کہ مسائلِ حیات کے شعری
اظہار اور زندگی کی جلتی حقیقتوں کو فنکارانہ جہتوں سے برتنے اور دیکھنے
پراِنہیں جو قدرت حاصل تھی اُسی کا یہ اعجاز تھا۔چنانچہ اِن فنکاروں نے
اپنے شعری منصب کواپنے اُسلوب و تخلیقیت کے ذریعہ اس قدر اُونچا اُٹھایا کہ
اُنہیں بین الاقوامی شاعر کہنے میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں ہوتی۔
جدید غزل کے تجربات کے سحر میں کھوئے ہوئے فنکاروں سے وابستہ یہ اُمید اب
اس قدر مضبوط نہیں کہ اِن کی فن کی سطح اپنے آپ کو اُوپر اُٹھا سکے گی۔
تاہم کچھ آوازیں ایسی بھی کانوں کے پردوں سے ٹکراتی ہیںجن کو نظر انداز
کرتے ہوئے نقصان اُٹھانے کا خدشہ لاحق ہو جاتاہے کہ کہیں ہم جدید غزل کے
تخلیق کاروں کو ایک ہی لاٹھی نہیں ہانک رہے ہیں! کہیں ایسا تو نہیں کہ اِن
آوازوں میں، عالمِ انسانی کی ایک معتبر آواز بننے کی صلاحیت موجود ہو اور
ہم اُسے نظر انداز کرنے کے جرم کے مرتکب محض اِس لیے ہو رہے ہیں کہ ہمیں
جدید غزل سے کسی قسم کی الرجی ہے۔ذمہّ دار ی کے اِسی احساس نے پروین کمار
اشک کی طرف ہمیں متوجہ کیا۔
پروین کُمار اشک کے مجموعہ کلام”چاندنی کے خطوط“ میں کچھ ایسی باتیں نظر
آئیں جن کو عالمی ادب کے حوالے سے دیکھنے ،پڑھنے اور تجزیہ کرنے کا احساس
فطری طور پر بھی بڑی شدت سے اُبھرتا ہے۔اچھا ہوا کہ جنابِ اشکل نے اب فیس
بک پر بھی اپنی حاضری درج کی ہے ۔ پہلے تو ہمیں محمود ہاشمی صاحب کا یہ
خیال متاثر نہ کر سکاکہ ”پروین کمار اشک کی شاعری میں جستجو کا عنصر اِس
عہدِ خوں آشام میں جمالیات کی زندگی کا ثبوت ہے۔“
لیکن مذکورہ بالےٰ خطوط پر جب ہم سوچ رہے تھے تو دفعتاً چونک گئے کہ اشک کا
پہلا ہی شعر، جو اُن کی مناجات سے متعلق ہے، دکھی انسانیت کی طرف اشارہ ہی
نہیں کرتابلکہ اِس کے حل کی تجویز بھی سجھاتا ہے۔رفتہ رفتہ ہمیں اشک پر
مختلف آراءبشمول ہاشمی صاحب کی رائے، سے اتفاق کرنا پڑا، یہاں تک کہ خودہم
نے بھی ایک معتبر رائے قائم کی جو آئندہ پیراگراف میں ترتیب سے اُبھرے گی
اورہمیں اُمید ہے کہ اشک کے نکتہ چیں بھی اِس سے ضرور اتفاق کریں گے۔
چونکانے والا شعر ملاحظہ کیجیے
زمیں کو یا خدا وہ زلزلہ دے....نشاں تک سرحدوں کے جو مٹا دے
کیا اِس شعر میں ایک عالمی اپیل کا پہلو موجود نہیں؟ جغرافیائی سر حدوں نے
انسانی دلوں کے درمیان جو سرحدیں(یا دیواریں)کھڑی کر دی ہیں، کیا اُس سے
عالمی گیر سطح پر اقوام کے درمیان باہمی منافرت کا فتنہ نہیں پیدا ہوا ہے؟
اگر ایک فنکار قومی مفادات سے اُونچا اُٹھ کر سارے اِ نسانوں کو ایک کنبے
کی شکل عطا کرنے کی فنکارانہ کوشش کرتا ہے تو کیا اس سے ایک عالمی اپیل کا
پہلو نہیں ابھرتا؟ اس نظریہ کو مزید تفصیل کے ساتھ ان اشعار میں ملاحظہ
کیجئے
سو کنبے اور ایک ہی چولہا....کتنا پیارا گھر لگتا ہے
سرحد کے اس پار بسنے والوں کی کشش
اِس کودیکھوں سرحد پار....اور بے قابو ہو جاﺅں
اور ان کی زندگی کو اپنی زندگی کہنا
وہ اپنے زندگی سے کیسے ملتا....کہ سرحد پر کڑا پہرہ لگا تھا
اور ان کے خاندانوں سے خود کو وابستہ کرنا
بٹے ہوئے ہیں جہاں گھر ہزار کنبوں میں....اِسی نگر میں کوئی خاندان میرا
تھا
چونکا دینے والے یہ شعر مجھے ”چاندنی کے خطوط “کے سنجیدہ مطالعہ کی طرف
راغب کر گئے اور یوں لگا کہ اشک کے ہاں واقعتا انسانیت کی فلاح کا ایک
پروگرام موجود ہے ۔اِن کی تخلیقات میں بزرگوں کے اقدار و روایات کی پاسداری
نظر آئی۔امن و آشتی کی خواہش کا ایک بے پناہ جذبہ نظر آیا۔ انسانوں سے محبت
کا ایک سیلِ رواں ان کے سینے میں موجزن نظر آیا۔ عالمی انسانی معیشت کو عدل
و انصاف کی بنیادوں پر استوار کرنے کی خواہش نظر آئی۔خدمتِ خلق کے عزائم کا
ایک ٹھانٹیں مارتا ہوا سمندر نظر آیا۔ مادیت زدہMaterialisticسوسائٹی کی
نفاق زدگی پر طاقتور حملے نظر آئے۔ تعجب ہوتا ہے کہ امن و آتشی کا یہ سفیر
پنجاب کی دہشت انگیزیوں کے زمانے میں اپنی فکری انفرادیت کو بچانے میں کیوں
کر کامیاب گیا(جہاں ابھی دو دہے قبل دہشت گردی کا ایک نہایت ہی اذیت ناک
مظاہرہ ،پنجاب کے وزیرِ اعلےٰ کے ظالمانہ قتل کی صورت میں ہواتھا)اور کیسے
اُس کی شاعری پیار کی خوشبو سے مہکتی رہی؟ بات دراصل یہی نظر آتی ہے کہ اشک
فطرتاً ایک شریفُ النفس ہستی کا نام ہے۔اُن کی شرافت ِنفسی کی غمازی کرنے
والے شعر اس مقالے کے موزوں مقام پر درج کئے گئے ہیں۔آئیے اُن کی ہمہ جہت
فکر پر سے کچھ اور پر دے ہٹا تے چلیں
بزرگوں کا بس ایک کمرہ بچا کر....تو جب چاہے پُرانا گھر گرا دے
اِس شعر کو ایک جدید شعر کہہ کر گذر جانا میرے نزدیک جناب اشک سے نا انصافی
ہوگی۔ کچھ سادہ سی لفظیات کا سہارا لے کر اُنہوں نے معنی کی جو بساط بچھائی
ہے اس میں اپنے آباءکی روایتی میراث کو بر قرار رکھ کر پرانی اور دور ازکا
ر باتوں کو مٹانے کاقرینہ موجود ہے، جس میں عالمی سطح پر ضمیروں کو اپیل
کرنے کا پہلو جدیدیت زدگی کے ہی حوالے سے سامنے آ یا ہے، یعنی یہ کہ جدید
نسل کا فنکار اپنے رشتے کو ماضی کے اقدارValuesسے کاٹے بغیر اپنے احساس کی
آبیاری کر ے اور تخلیق کے عمل سے گزرے، اِس طرح کہ وہ اپنے آباءکے نظام
ہائے زندگی کی طرف مراجعت کرتے ہوئے تخلیقات وجود میں لائے گا، جہاں خلوص
اور پیار زندگی کے مترادفات میں شامل تھے۔ اشک کو اپنے قابلِ احترام بزرگوں
سے واقعتا بڑا پیار ہے۔حسرت ملاحظہ کیجئے
زندگی درد ترا کِس کو سنانے جاﺅں....اب کہاں ڈھونڈنے وہ لوگ پرانے جاﺅں
اشک بزرگ دعاﺅں والے چلے گئے....موسم ٹھنڈی چھاﺅں والے چلے گئے
لیکن بہر حال حضرتِ اشک روایاتِ آباءکے تخریب کار کو متنبہ ضرور کرتے ہیں
پرکھوں کی حویلی کو گرانا تھا تو پہلے....دیواروں کے زخموں کے نشاں دیکھ تو
لیتا
امن و آشتی کی بولتی خواہش کا یہ اظہار میں سمجھتا ہوں کہ اشک ہی کا حصہ ہے
میرے آنسو پینے شام کو اک چڑیا.... میری گود آ بیٹھے اُڑ کر چپ چاپ
چڑیا ایک ہلکی سی آہٹ میں سو سو خدشے دیکھتی ہے، کسی کے آنسو پینا تو کجا،
کسی کے دائرہ فریب کے قریب تک نہیں پھٹکتی۔لیکن داد دیجئے اشک کے پروازِ
تخیّل کی کہ اپنی خواہشِ امن و آشتی کو نہایت ہی نازک مگر تخلیقی پیرائے
میں پیش کرکے اقوامِ عالم کو دعوت دی ہے کہ ایک ایسی بستی بساﺅ جہاں چڑیا
کو بھی کسی کا خوف نہ رہے بلکہ خود چڑیا کا سینہ ہمدردی اور غم گساری کے
جذبات سے مالا مال ہو جائے، یہاں تک کہ وہ کسی کی گود میں بیٹھ کر دکھی
انسانیت کے آنسو پینا چاہے تواُسے غمزدوں کے آنسو پینے میں کوئی جھجک محسوس
نہ ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اشک انسانوں سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار بھی
کرتے ہیں اور فطری شرافتِ نفسی کا ثبوت ضرور فراہم کرتے ہیں
بہت رویا میں دیواروں سے مل کر.... مکاں خالی ہوا جب ساتھ والا
بے حس انسانوں کو دیکھ کر اُن کے تڑپنے کا انداز دیکھئے
اُٹھا لے اپنے چلتے پھرتے پتھر....کوئی انسان دے جذبات والا
کہاں سے آگئے چہروں کے جنگل....ہمارا شہر خالی ہو گیا ہے
معاشی نا ہمواری ہمیشہ اربابِ فن لطیف کی محفلوں کا ایک خشک موضوع رہا ہے۔
شعری تراوٹ کا پیرہن اِس خشک موضوع کو زیب بھی نہیں دیتا۔ لیکن ہمیں اشک کے
یہاں ایسے شعر بھی ملے جو معیشت سے جڑی مکروہات کا احاطہ کرتے دکھائی دیتے
ہیں، مگر پوری فنی آب و تاب کے ساتھ مثلاً
سوال کرتے ہیں صحرائے بے گناہ کب سے.... ہراک ندی ہے رواں کیوں سمندروں کی
طرف
انسانوں میں معاشی نا انصافیوں نے جو صورتحال پیدا کی ہے اُس کا بھر پور
اظہار اِس شعر میں ہے۔ موجودہ معاشی نظام دولت کے بہاﺅ کا رخ دولت مندوں ہی
کی طرف ہے، نتیجہ یہ ہے کہ غریب کے حصے میں غربت اور دولت مندوں کے حصے میں
سرمایہ ہی آرہا ہے یعنی ندیاں ،سمندروں ہی کی طرف بہہ رہی ہیں اور صحرا ہیں
کہ سراپا سوال بن کر اربابِ معیشت سے پوچھ رہے ہیں کہ وہ دنیا کب بساﺅ گے
جہاں ندیوں کو پیاسوں کا بھی خیال رہتا ہو اور سمندروں کی طرف بہنے کے
بجائے صحراﺅں کو بھی سر سبز و شاداب کرنے کی فکر رہتی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ
کہیں ندی کے کنارے سوکھے شجر نظر آنے لگیں
جو ندی کے کنارے سوکھ گیا....آتجھے وہ شجر دکھاﺅں میں
اِس طرح کے شعری پیکر تراشتے ہوئے غالباً خود اشک نے بھی نہ سوچا ہوگا کہ
اِن کے نوکِ قلم سے عالمی ادب کے فن پارے صفحہ قرطاس پر بکھرتے اور پھیلتے
جا رہے ہیں
سامنے آﺅ پانی میں چھُپنے والو....بستی بستی آگ لگاتے پھرتے ہو
اِس شعر کے دامن میں بڑی طاقتوں کی سازشوں کو تلاش کرنا کچھ مشکل نہیں،
یہاں بھی عالمی سطح کے مسائل زیرِ بحث آکر پروین کُمار اشک کی غیر معمولی
فکری صلاحیت کو مہمیز کرتے ہیں۔ آبدوزوں کی جنگ کا تصوّر اِس شعر میں نمایا
ں نظر آتا ہے جسے اِس وقت بڑی طاقتوں نے برپا کیا ہے۔لہجے کی کاٹ دیکھئے جو
اِس وقت کی بڑی طاقتوں کے عزائم پر ضرب لگاتی ہے
ایک دِن تُم خود بھی بے گھر ہو جاﺅ گے....گھر گھر میں دیوار اُٹھاتے پھرتے
ہو
ساری انسانیت کی پیاس بُجھانے کی دھُن اِس شعر میں صاف نظر آتی ہے
ہرے کپڑوں میں صحرا رقص کرتے ہیں....ذرا سا، گر سمندر پھیل جاتا
عالمی سیاسی منافقت کے مُنہ پر زناّ ٹے دار تھپّڑ ملاحظہ کیجئے
پُشت سے مجھ پہ وار کرتا ہے....ہاتھ اشک اِس سے کیا ملاﺅں میں
اِنسان بحیثیتِ کُل اشک کا موضوع بھی ہے، مخاطب بھی ہے اور قاری بھی ہے
اندھا کرکے زمین والوں کو....چاند سورج میں آسمان میں گُم
اِس شعر کی معنوی حیثیت سے قطع نظر، چاند اور سورج کو زمین والوں سے الگ کر
کے دیکھناثبوت ہے، اِس امر کا کہ اشک دھرتی کے باسیوں Inhabitants کو ایک
کُل کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔ یہاں اشک کا فکری کینواس کس قدر وسیع ہو جاتا
ہے۔ ظاہر ہے کہ شعور کی رَو یاVision پھیل جائے وہیں سے عالمی ادب کی تخلیق
کا آغاز ہوگا۔ اِس قبیل کے کئی شعر اشک کے ہاں ملتے ہیں جن کاموضوع، تمام
Parochialاور Fanaticalنظریات کو کچلتا دکھائی دیتا ہے۔ جیسے
تُو ہواﺅں کے زخم کیا جانے....ترے موسم ہیں سائبان میں گُم
میں تالاب کی قید میں منجمد ہوں....یہ پانی کسی سمت بہتا نہیں ہے
یا
سوچ کر اہلِ ذہن روتے ہیں....دل کے رشتے ہیں کس جہان میںگُم
مذکورہ دعوﺅں کے لئے دلیل کے طور پر میں اِن شعروں کو پیش کرونگا
دھرتیاں سب بے مروّت ،آدمی سب بے وفا....تُو وفاﺅں کا گھروندا کس نگر لے
جائے گا
اِس شعر کی تخلیق کسی محدود ذہن کے ذریعہ ہوتی تو شعر کی لفظیات کا رُخ کچھ
اِس طرح ہوتا
شہر سارے بے مروّت، آدمی سب بے وفا....تُو وفاﺅں کا گھروندا کس نگر لے جائے
گا
یہ شعر وجدان پر اثر انداز ہوتا ہے
اِس لئے دھرتی سے رشتے توڑ کر بیٹھا ہوں اشک ....اک فرشتہ آئے گا اور چاند
پر لے جائے گا
علامتی اظہار کی ساری پرتیں ہٹا دی جائیں تو یہاں بھی ایک شاعرِ امن وآشتی
کا دھڑکتا ہوا دل ہی ملے گا۔ایسا امن جو سارے کُرّہ ارضی کو اپنے سایہ رحمت
سے ڈھانپ دے اور پھر چاند کی طرف ہجرت کی خواہش بے سبب بھی نہیں، کیونکہ
زمین کا یہ منظر نامہ میں کوئی کیا کرے۔
جب دیوار اُٹھائی ہوگی ....روح بہت چلائی ہوگی
کتنے باغ اُجاڑے ہونگے....خوشبو ہاتھ نہ آئی ہوگی
سمندر چیختا اُس وقت پہنچا....مکاں پوری طرح جب جل چکا تھا
جانے دریا میں کیا اُسکا غرق ہوا....خالی کشتی پار لگایا کرتا ہے
آگ کے پیڑ سے نہ پھل توڑو....کیوں چلے آئے ہو جلانے ہاتھ
گھروندے تنکا تنکا اُڑ رہے ہیں....پرندے سفرِ آخر پر رواں تھے
میرے پاس دھڑکتا دل....اُس کی جیب میں چاقو ہے
گھر کے چراغ نے آگ لگا دی بستی میں....میں سورج دہلیز پہ لانے والا تھا
کبھی ہم جس کی چھت پر کھیلتے تھے....سنا ہے آج وہ گھر ڈھ گیا ہے
آگ و ہ برسی کہ تالاب سبھی سوکھ گئے....کون سے گھاٹ میں اب پیاس بُجھانے
جاﺅں
اِن ناگفتہ بہ حالات کے با وجود راہِ فرار اختیار کرنے والا شاعرِ اشک
نہیں۔پروفیسر شہریار نے ٹھیک ہی تو کہاکہ” پروین کمار اشک کی غزلیںحبس اور
گُھٹن کے ماحول میں ہواکے تازہ جھونکے کی طرح محسوس ہوتی ہیں۔“اشک کا عزم
ملاحظہ فرمائیے
نئے سرے سے میں قائم کروں گا سب رشتے....نیا لباس پہن کر میں جب بھی آﺅں گا
میں ایک پیڑ ہوں چندن کا تُو جلا مجھ کو....سبھی دشاﺅں میں خوشبو بکھیر
جاﺅں گا
جو چھاﺅں دیتے رہے دھوپ کے سفیروں کو....کچھ ایسے پیڑ بھی رستے میں ، میں
لگاﺅں گا
اِن عزائم کے ساتھ خدمتِ خلق کا جذبہ بھی اُنھیں سرشار کرتا ہے۔اُنہیں اپنے
جذبہ خیر خواہی ، انسانیت کی پیاس کو یوں بجھانے کی کوشش کرتے ہیں(بقول
مظہر اِمام”اشعار سے ان کا رشتہ رسمی علیک سلیک کا نہیں بلکہ اِس رشتے میں
ہمدمی اور ہمقدمی اور خلوص و نور بھی شامل ہے)
کہیں سیلاب کا اجگر نہ ننگل جائے اِسے....گاﺅں سویا ہے ندی پار جگانے جاﺅں
مادہّ پرستی نے جو بناوٹی پن دُنیا کو دیا ہے اُس کی عکاّسی کرنے والے کچھ
شعر ملاحظہ کیجئے
تتلی پیار کرنے کاغذ کے پھولوں سے....خوشبو صحراﺅں میں بھٹکتی رہتی ہے
اُس کا گھر بھی ہے، نیک بیوی ہے....جانے کیوں ہوٹلوں میں رہتا ہے
پروین کمار اشک کے کلام کی تازہ کاری،اُن کے لہجے کا تنوّع اور اُن کے تخیل
کی آفاقیت کو لے کر میں اُنہیں اس سطح تک لے جانے کا خواہش مند ہوںجہاں
عالمی ادب کے اِجارہ دار ابھی تک تجربے کرنے میںہی مصروف نظر آتے ہیں اور
نئی نسل کی انقلابی سوچ کے لئے جگہ خالی کرنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔
پروین کُمار اشک کے شعر ڈاکٹر بشیر بدر کے بقول ”دل میں چھُپا کر رکھنے“ سے
زیادہ اِس قابل ہیں کہ بقول ڈاکٹروزیر آغا”آئینے کی طرح آئینہ مزاج قاری کے
روبرو اُنہیں رکھ کر “۔عکسوں کے ایک لامتناہی سلسلے کو بیدار کیا جائے۔
اُردو کے اِس وفا شعار شاعر سے بڑی اُمیدیں وابستہ ہیں
اللہ کرے زور ِ قلم اور زیادہ |