جب تک اللہ کی رحمت اور اس کے کرم سے ہمارے سر پر والد بزرگوار کا سایہ
سلامت تھا یتیم کے صحیح معنی سے نا آشنائی تھی۔ دنیا جہان کے غم بھی ہوتے
تھے، قدم قدم پر پریشانیاں بھی ہوتی تھیں، خواب ٹوٹتے بھی تھے اور بکھرتے
بھی تھے، لڑائی جھگڑا بھی ہوتا تھا، مسئلے مسائل بھی تھے لیکن کبھی بھی
ٹینشن نہ ہوئی تھی کہ سر پر ایک آسرا موجود تھا، ایک سائبان رحمت کی طرح
چھایا رہتا تھا، امید اور حوصلہ رہتا تھا کہ کوئی بات نہیں، والد صاحب کی
ہستی موجود ہے، دعائیں کرنے کو بھی اور ہمارے دکھ اپنے دامن میں سمونے کو
بھی، لیکن ان کے اس دار فانی سے کوچ کرنے کے بعد جیسے ہر طرف سے طبل جنگ
بجا دیا گیا، جیسے آسمان ٹوٹ پڑا، جیسے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور جیسے قدم
قدم پر مصائب، دکھ اور تکلیفیں ہمارا ہی انتظار کر رہی ہوں! گھر کا بڑا
بننے کو تو ہر کوئی تیار ہے، اسے اس بڑے پن کا پروٹوکول درکار ہے لیکن بڑا
بننے کے لئے جن قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے، جس بڑے دل کی ضرورت ہوتی ہے جن
ذمہ داریوں کے احساس کی ضرورت ہوتی ہے وہ کسی میں بھی نہیں، یہی حال قائد
اعظم کی رحلت کے بعد سے پاکستان کا ہے، سر کا والی کوئی نہیں ہے، سہارا
دینے والا کوئی نہیں ہے، گھر کا سربراہ وفات پاگیا، اب ذمہ داریاں کون لے؟
اب دکھوں اور مصیبتوں کو اپنی جھولی میں کون ڈالے؟ کیونکہ اپنے آپ کو
پاکستان کا بڑا، پاکستان کا قائد منوانے کو اور نعرے لگوانے کو سب بے تاب
اور بے چین ہوتے ہیں لیکن ذمہ داری محسوس کرنے اور اٹھانے کو کوئی بھی تیار
نہیں!
1947 میں پاکستان کے معرض وجود میں آتے ہی سازشیوں کا ایک ٹولہ جو انگریز
کا وفادار تھا، جس کو غلامی کے بدلے جاگیریں عطا کی گئی تھیں، پاکستان کے
خلاف سرگرم عمل ہوگیا۔ قائد اعظم، کہ جس کی ولولہ انگیز قیادت میں پاکستان
کو حاصل کیا گیا، جو نہ سنی تھا نہ شیعہ، نہ وہابی تھا نہ دیوبندی، وہ صرف
مسلمان تھا، ایسا مسلمان جس کے بارے میں اغیار کیا اپنے بھی یہ کہتے تھے کہ
وہ تو کبھی مسجد بھی نہیں گیا، اس نے تو کبھی نماز بھی نہیں پڑھی، وہ تو
اردو بھی ٹھیک نہیں بول سکتا پھر وہ مسلمانوں کا قائد کیسے ہو سکتا ہے؟،
لیکن اسی محمد علی جناح کی قیادت میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء نے حصول
پاکستان کی جدوجہد کی اور ایک کامیابی بھی حاصل کی! اسی قائد اعظم کو ایک
سازش کے تحت کسمپرسی کی حالت میں موت کی ابدی نیند سلا دیا گیا اور
پاکستانی قوم اسی دن یتیم ہوگئی۔ لیاقت علی خان کی راولپنڈی میں شہادت بھی
اسی سازش کا نتیجہ تھی کہ اس قوم کو سکھ کی سانس لینا نصیب نہ ہو، کوئی
ہمدرد و غمگسار نہ رہے، کوئی بڑا نہ رہے، سازش کامیاب ہوگئی، لیاقت علی خان
کے بعد پاکستان کو کوئی بھی ڈھنگ کا راہبر اور قائد نہ مل سکا بلکہ جو بھی
راہبر کے لبادے میں آیا، راہزن ثابت ہوا۔ تب سے آج تک، ایک سے ایک بڑا
”فنکار“ آیا اور اپنے ”فن“ کا جادو جگا کے، اپنی جھولی زر و جواہرات اور
قوم کا دامن آہوں اور سسکیوں سے بھر کے چلتا بنا۔ قوم سے قربانی مانگنے
والے اس وقت منظر سے غائب ہوتے گئے جب ان سے قربانی طلب کی گئی۔ ماضی قریب
اور موجودہ حالات پر ایک طائرانہ سی نظر ڈالیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ قوم
ہمہ وقت قربانی دینے کو تیار ہے لیکن اس کا اعتماد رہبران قوم سے اٹھ چکا
ہے۔
وکلاء کی عدلیہ بحالی تحریک اس کی ایک زندہ مثال ہے کہ جب قوم نے دیکھا کہ
وکلاء ایمانداری سے ایک نیک مقصد لے کر چل رہے ہیں تو پوری قوم نے ان کا نہ
صرف ساتھ دیا بلکہ کسی بھی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا یہاں تک کراچی میں
12 مئی کو پچاس سے زائد انسانوں نے اپنی جان کی قربانی پیش کر کے اپنے آپ
کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر کرلیا۔ وکلاء تحریک کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کو
بھی اللہ تعالیٰ نے ایک اور موقع عطا کیا کہ اس کے قائد نواز شریف ایک بار
پھر اس قوم کے بڑے کے ”روپ“ میں سامنے آئے جنہوں نے ایک اصولی مؤقف پر ڈٹ
کر لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا، لیکن اس وقت قوم ان سے بھی مایوس ہوتی
جارہی ہے کیونکہ عدلیہ کی بحالی ایک سنگ میل تو یقیناً ہے لیکن منزل ہرگز
نہیں۔ نواز شریف کو اس دھرتی اور یہاں کے عوام سے تعلق کو مضبوط کرنا چاہئے
نہ کہ اپنے آپ کو امریکہ کی جھولی میں ڈالنا چاہئے، شائد میری بات کسی کو
بری لگے لیکن عوام میں اب نواز شریف کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا
ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ نواز شریف کو بلا شبہ قدرت نے ایک انمول موقع عطا کیا
ہے کہ وہ یا کوئی بھی اور رہنما اس بکھری ہوئی قوم کو ایک تسبیح میں پرو دے
اور اگر ایسا نہ ہوسکا تو یہ قوم حقیقی معنوں میں یتیموں والی زندگی بسر
کرنے پر مجبور رہے گی، وہ یتیم جس کا کوئی آسرا نہیں ہوتا، وہ یتیم جس کے
سر پر سائبان نہیں ہوتا، وہ یتیم جس کا مال سبھی کھانے کے چکر میں ہوتے ہیں،
حتیٰ کہ وہ مولوی بھی اس کا مال ختم شریف، قل اور چالیسویں کے نام پر نا حق
کھاتا ہے جو منبر رسول پر بیٹھ کر یتیم کا مال نہ کھانے کا درس دیتا ہے،
کوئی ہے جو اس گھر کا بڑا بن سکے؟ کوئی ہے جو اس قوم کی ذمہ داری اٹھا سکے؟
کوئی ہے جو اس قوم کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہے کہ ”کوئی غم، کوئی مصیبت، کوئی
دکھ اور پریشانی اس وقت تک تمہیں چھو بھی نہیں سکتی، جب تک میں زندہ ہوں“....! |