میرا وطن سنوار دو
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
کبھی آپ نے دیکھا ہے کہ لوگ بھکاریوں کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرتے ہیں؟ ان
کی کوئی عزت نہیں ہوتی ہے۔ ان کو کہیں بھی اچھا نہیں سمجھا جاتا ہے۔ ان کے
ساتھ تعلق رکھنا عیب سمجھا جاتا ہے۔ ان پر حقارت کی نظر ڈالی جاتی ہے۔ ان
کی ناراضگی اور غصے کو کوئی خاطر میں نہیں لاتا ہے کہ ایک بھکاری کی اوقات
ہی کیا ہے کہ وہ کسی کو آنکھیں دکھا سکے، وہ کسی سے ناراض ہوسکے۔ یہ وہ
عمومی رویہ ہے جو کہ بھکاریوں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے ( اس میں مستثنیات
بھی ہیں لیکن عام رویہ یہی ہے )
یہ تو وہ رویہ ہے جو کہ لوگ بھکاریوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں لیکن خود
بھکاریوں کا کیا حال ہوتا ہے کبھی آپ نے اس پر غور کیا ہے؟ لوگ تو اس کو
دھتکارتے ہی ہیں لیکن خود اس کو بھی اپنی عزت نفس کا کوئی خیال نہیں ہوتا
ہے۔ اس کو اس بات کا کوئی احساس نہیں ہوتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ کس طرح پیش
آرہے ہیں۔ لوگوں کی نظر میں اس کے لیے کتنی حقارت ہے اور لوگ کس طرح اس کا
مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں اس کے لیے بے معنی ہوتی ہیں، اس کو کسی
بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے اس کا مطمع نظر صرف یہ ہوتا ہے کہ چاہے مجھے
گالیاں دیدو، چاہے مذاق اڑا لو، چاہے حقارت کی نظر سے دیکھو لیکن مجھے چند
ٹکے، چند سکے بھیک میں دیدو، یہی ایک بھکاری کی سوچ کی معراج ہوتی ہے۔
بھیک مانگنے والے کی نفسیات اور بھیک مانگنے والے کے ساتھ لوگوں کے رویے کا
آپ کے سامنے ایک جائزہ رکھا ہے اس بات کو سامنے رکھیں اور پھر سوچیں کہ کیا
آج بحیثیت قوم ہمارے حکمرانوں نے ہمیں اسی منزل پر نہیں پہنچا دیا ہے؟ پورے
ملک میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف ڈورن حملے، دوسری طرف فوج اپنی ہی قوم کے
اوپر حملہ آور ہے، ملک میں ایک جنگ برپا ہے، اس کے ساتھ ساتھ لاکھوں لوگوں
کی نقل مکانی نے الگ ایک بحرانی کیفیت پیدا کردی ہے۔ بجلی کا بحران اس سے
پر مستزاد ہے اور صدر محترم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صدر محترم کو بیرونی ممالک کے
دوروں سے فرصت نہیں ہے۔ دورے کرنا کوئی بری بات نہیں ہے اگر اس میں کوئی
کام کی بات کی جائے لیکن یہاں تو لگتا ہے کہ صدر محترم “بھیک مشن “ پر نکلے
ہوئے ہیں۔ جہاں جاتے ہیں وہاں صرف امداد کی بات کرتے ہیں، ڈالرز اور پونڈز
کی بات کرتے ہیں، کیا چین، کیا امریکہ،کیا فرانس اور کیا فرینڈز آف پاکستان
ہر جگہ ۔ صدر محترم کی گفتگو امداد سے شروع ہو کر امداد پر ختم ہوتی ہے۔ ان
کو کوئی غرض نہیں ہے کہ اہل وطن کس اذیت میں ہیں اور نہ ہی اس بات سے غرض
ہے کہ لوگ کیا سوچ رہے ہیں۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جب حکومتی ارکان سے
نفاذ شریعت کی بات کی جاتی ہے تو ان کا مؤقف ہوتا ہے کہ ہمیں نفاذ شریعت کا
مینڈیٹ نہیں ملا ہے اور یہی بات ججز کی بحالی کے وقت بھی کہی جاتی تھی۔ میں
ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ان کو پوری دنیا میں بھیک مانگنے کا، اپنے
ہی لوگوں سے جنگ کرنے کا اور پاکستان کا نام بدنام کرنے کا مینڈیٹ ملا ہے؟
لوگوں نے اس لیے تو ان کو ووٹ نہیں دیے تھے بلکہ اگر تھوڑا سے پیچھے جائیں
تو بات سامنے آتی ہے کہ لوگوں نے ان کو ووٹ دیے تھے کہ یہ مشرف کی باقیات
کا اور اس کی جاری پالیسیوں کو ختم کریں، اس کے دور کے کالے قوانین ختم کیے
جائیں گے اور شہید بی بی کی قاتلوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ
نہیں ہوا خود ان کا دعویٰ ہے کہ عوام نے ان کو روٹی کپڑا اور مکان کا
مینڈیٹ دیا ہے لیکن اس حوالے سے بھی ان کا دامن خالی نظر آتا ہے۔ نوکریاں
تو دی گئیں لیکن صرف جیالوں کو اور وہ بھی پچھلی نو دس سال کی تنخواہ سمیت،
رہے عام لوگ تو وہ اسی طرح مہنگائی کے عذاب میں گرفتار ہیں اسی طرح نان
شبینہ کے لیے محتاج ہیں۔ عوام بھوکے مر رہے ہیں، ان لے لیے جسم و جان کا
رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے اور اس دوران ایک خبر نظر سے گزری کہ
اراکین پارلیمنٹ کی مراعات میں اضافہ کیا جائے گا۔ کیا یہ بات غریبوں کے
لیے ایک تازیانہ نہیں ہے؟
بات کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے بات ہورہی تھی بھیک کی اور بھکاریوں کی، مشرف
کے دور میں ہم نے بردہ فروشی کی، ہم نے اپنے ہی شہریوں کو پکڑ پکڑ کر
امریکی بھیڑیے کے ہاتھوں پانچ ہزار ڈالر میں بیچا،اور تو اور جو کام کسی نے
نہیں کیا وہ کام ہم نے کیا- ہم نے ایک ہمسائے اسلامی ملک کے سفیر کو خود
پکڑ کر بیچا، یہ ایک قابل مذمت حرکت تھی لیکن سابقہ حکمران اس پر خوش تھے،
ہماری اس بے حسی کا فائدہ اٹھا کر مغربی ممالک نے ہمارا مذاق اڑایا اور
ہمیں کتے سے تشبیہ دی۔( یہ کارٹون شائع ہوا تھا جس میں پاکستان کو کتا
دکھایا گیا ) غیرت مند حکمران ہوتے تو اس ملک سے تعلقات ختم کرتے یا کم از
کم بھرپور احتجاج کرتے لیکن بات وہی ہے کہ بھکاریوں کی عزت نفس نہیں ہوتی
اور بھکاری حکمرانوں نے اس پر ایک کمزور سا احتجاج کیا اور بس، اسی دور میں
شمالی علاقہ جات میں امریکی میزائل حملے کیے جاتے رہے۔ غصہ دکھایا گیا تو
اس کی کوئی اہمیت نہیں؟ بھلا کسی بھکاری کا کیا غصہ کیا ناراضگی اور اسکی
ناراضگی کی کیا ویلیو؟ یہ سابقہ حکومت تھی اور موجودہ حکومت تو ان سے بھی
ایک ہاتھ بڑھ کر ہے۔ ہمارے وزیر اعظم امریکہ میں صدر بش کے ساتھ پریس
کانفرنس کرتے ہیں اور صدر بش “معزز“ مہمان کی باتوں پر ہنستے ہیں اور
صحافیوں کو آنکھیں مارتے ہیں۔ غلاموں اور بھکاریوں کی کیا عزت؟ مسلسل ڈرون
حملوں ہو رہے ہیں، اپنی فوج کے ساتھ ساتھ امریکی حملے بھی جاری ہیں لیکن
پاکستان کے احتجاج کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی کیوں کہ کسی بھکاری کی کوئی
عزت نہیں ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا تھا کہ خود بھکاری کی اپنی بھی کوئی
عزت نفس نہیں ہوتی ہے اس کو صرف چند ٹکوں سے غرض ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمارے
حکمرانوں کو بھی کسی معاملے سے کوئی غرض نہیں ہے بس پیسہ آنا چاہیے۔ ہمیں
یہ بتایا جائے کہ کسی بھی دورے میں کیا کشمیر کی کوئی بات کی گئی؟ کیا
بھارت جو افغانستان کے راستے پاکستان میں دہشت گردی کررہا ہے اس پر کوئی
بات کی گئی۔ ( یہ بات واضح رہے کہ بھارت کی بات ہم خود سے نہیں کہہ رہے
بلکہ یہ بات خود رحمان ملک صاحب نے بتائی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کی
وارداتوں میں بھارت کا ہاتھ ہے۔) کیا امریکی ڈرون حملوں پر کئی بات کی گئی؟
نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ صرف امداد اور رقم کی بات کی گئی۔ ہمیں اس پر
بھی کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر ہمیں یقین ہو کہ یہ ساری رقم یہ امداد جو دنیا
بھر سے مانگی جارہی ہے واقعی پاکستان پر ہی خرچ ہوگی۔ لیکن ہمارے حکمرانوں
کا سابقہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ایسی تمام امداد چند لوگوں
کی جیبوں میں چلی جاتی ہے اور خمیازہ ہم عوام کو بھگتنا پڑتا ہے بالکل اسی
طرح جس طرح عوام میاں نواز شریف کی اپیل پر قرض اتارو ملک سنوارو میں دل
کھول کر پیسہ دیا لیکن آج تک اس رقم کا معلوم نہیں ہوا کہ کہاں گئی۔ ہماری
ان تمام حکمرانوں سے یہی گزارش ہے کہ پاکستان پر رحم کریں اس کو مزید قرضوں
یا امداد کے بوجھ تلے نہ دبائیں، ہر جگہ کاسہ گدائی پھیلا کر اہل وطن کا
امیج خراب نہ کریں۔ چند اشعار پر ہم اپنی بات ختم کریں گے۔
حیات جس کا نام ہے بہادروں کا جام ہے
یہ جام جھوم کر پیو جیو تو بے دھڑک جیو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
سجی ہیں افراتفریوں کی جھالروں سے مسندیں
نہ کچھ اصول سلطنت نہ اقتدار کی حدیں
نظام سب الٹ گیا ،غبار سے جو اٹ گیا
وہ آئینہ نکھار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
کسی کی کمتری کو عزت و وقار کا نشہ
کسی کو زور و زر کسی کو اختیار کا نشہ
نشے میں دھت تمام ہیں،نشے تو سب حرام ہیں
یہ سب نشے اتار دو،میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
چُنے گئے تو جو گلاب خار خار ہوگئے
بُنے گئے تھے جتنے خواب تار تار ہوگئے
گلاب ہیں نہ خواب ہیں عذاب ہی عذاب ہیں
چمن کو پھر بہار دو میرا وطن سنوار دو
یہ دل یہ جان وار دو میرا وطن سنوار دو
|
|