الیکشن 2013 کے نتیجے کے بعد میں جب بھی سوچتا ہوں
کہ اِس بار پورے مُلک میں کچھ نہ کچھ بدلاﺅ آیا ہے،لیکن صوبہ سندھ میں پھر
وہی پُرانی گورنمنٹ کیوں بنی ؟تو ایک دم مجھے غازی ڈنو اورنوید احمد جیسے
نوجوان یاد آجاتے ہیں۔
غازی ڈنوکے والدکانام لطیف ڈنو ہے ،چچا لطیف ڈنوکا تعلق صوبہ سندھ کے اُس
علائقے سے ہے جسے سندھ میں اُتر سندھ کا علائقہ کہا جاتا ہے،جہاں پہ مغرب
کے بعدگاﺅں سے باہر نکلنے اور سفر کرنے کا مقصدیہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو اپنی
مرضی سے کسی مشکل میں ڈالنا چاہتے ہیں،جہاں ڈکیتی ، اغوا برائے تاوان،لوٹ
مار،چھوٹی چھوٹی باتوں پہ قتل اور کارو کاری جیسے عوامل عام ہیں۔
چچالطیف ڈنو جو کے بُنیادی طور پر ایک شریف النفس آدمی ہے،جب کے اُس کے
برعکس اُن کے رشتیدار ،دوست احباب اور اُس علائقے کا ماحول اِس قابل نہیں
تھا کہ چچا لطیف ڈنوجیسا شریف آدمی وہاں اُس ماحول میں اُن لوگوں کے ساتھ
زندگی بسر کر سکے،بلا آخروہ دن آ گیا کہ چچا لطیف ڈنو ہجرت کر کے سندھ کے
اُس علاقے میں آ بساکہ جہاں اُسے لگتا تھا کہ یہ علاقہ کم سے کم چھوڑ کے
آنے والے علاقے سے بہتر ہے،ویسے توہمارے مُلک کا شایدہی کوئی علاقہ ایساہو
جو کہ چور اُچکّوں ، جاہلوں،غُنڈوں ،منشیات فروشوں اور دو نمبری کر کے
زندگی گُذارنے والے لوگوں کے پنجے میں نہ ہو، لیکن پھر بھی اُنکے دل کی
تسّلی کے لیئے یہ خیال اچھا تھا کہ جس علاقے میں وہ آ بسا ہے وہ علاقہ اُس
کے گاﺅں سے بہترہے۔
بحرحال قّصہ مختصریہ کہ چچا لطیف ڈنو نے یہاں آتے ہی محنت مزدوری شروع
کردی،اور کوئی ایسا جائز کام نہیں چھوڑا کہ جس کے کرنے سے وہ اپنا اور اپنے
بچوں کا پیٹ پال سکے،اُس کی زندگی گاﺅں کی نسبت یہاں کافی بہتر گُزر رہی
تھی ،اوردن رات ایک کر کے محنت مزدوری سے اُس نے یہاں سستے وقتوں میں دو
پلاٹ خریدے ،جن کی موجودہ وقت میں مالیت لگ بھگ آٹھ آٹھ لاکھ روپے
ہوگی۔لیکن چچا لطیف ڈنو یہ بات بھول گئے تھے کہ” کُتا کہیں کا بھی ہو کُتا
ہی ہوتا ہے“اور پھر یہ ہُوا کے پچھلی گورنمنٹ کے اِقتدار میں موجودلوگوں کی
طاقت کے بلبوتے پراُن ہی کے پالے ہوئے کچھ برساتی مینڈک ٹائپ غنڈوں نے چچا
لطیف ڈنو کی دن رات کی محنت سے حاصل کیئے ہوئے دو پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ
پر قبضہ کر لیا ،ایک پلاٹ بچ گیا وہ اِسلیئے کہ اُس میں چچا لطیف ڈنو خُد
اپنے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔چچا لطیف ڈنو نے سب سے پہلے توہمارے ریجنل سسٹم
کے تحت علاقے کا کوئی ایسا نام نہاد وڈیرہ اپنی فریا د پیش کرنے کے حوالے
سے نہیں چھوڑا کہ جہاں سے اُسے رَتی برابر بھی انصاف ملنے کی اُمید تھی،
کبھی یہاں فیصلے کی تاریخ دے دی جائے تو کبھی وہاں۔۔،لیکن بیسوں وڈیروں کی
اَوطاقوں پر اپنا حق مانگنے کی نسبت سے ڈھکے کھانے والے ایک غریب مزدور
لطیف ڈنو کو کچھ حاصل نہیں ہُوا ،کسی نے اُس غریب کی ایک نہ سُنی،بلاآخر
اُس نے کورٹ میں کیس داخل کر دیا،اور پھر وہی کورٹ کے دھکے ،پیشیاں ، اور
وکیل کی فیس۔۔۔ اور اِس سارے پراسیس کے دوران اُس نے چیف جسٹس صاحب کو بھی
کئی لیٹر لکھے ،لیکن اُس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔۔،اور پھر اُپر سے
اِتنی تو اُس بچارے کی اِنکم ہی نہیں تھی کہ جتنا اُسے اِس سارے سلسلے کی
بھاگ دور میں خرچ کرنا پڑ گیا۔۔وکیل کی فیس اور اِس بھاگ دور نے چچا لطیف
ڈنوکوآخر ِکارقرضی بنا دیا ۔
ہزار بھاگ دور کے بعد اُسکی ایک نہ سُنی گئی،اور وہ ڈھکے کھاتا رہا،ابھی یہ
سارا سلسلہ چل ہی رہا تھا کے الیکشن 2013 کی تیاریاں شروع ہوگئیں،اور سارے
مُلک کی بیوقوف قوم کی طرح اُسے بھی بدلاﺅ کی اُمید دِکھائی دینے لگی،وہ
کچھ کچھ بے فکر دِکھائی دینے لگا،اُس کا خیال تھا کہ اب کی بار ہمارے
علائقے سے کسی اور کی گورنمنٹ آجائے گی اور یہ ہمیشہ کے برساتی مینڈک خُد
بہ خُد تتر بتر ہوجائیں گے ،اِنکی طاقت ٹوٹ جائے گی اور پھر اُس کے بعد اِن
ظالموں سے کسی نہ کسی طریقے سے قبضہ چُھڑانا قدرے آسان ہو جائے گا۔چچا لطیف
ڈنو کے دل میں اُمید کی کرن روشن ہوچُکی تھی، جس کا عکس اُس کے چہرے سے صاف
ظاہر تھا،اور اب وہ اپنی جمع پونجی اپنے پلاٹ کے حوالے سے کچھ کچھ مُطمعین
رہنے لگا تھا۔
چچا لطیف ڈنوکا بیٹا غازی ڈنواِس سارے معاجرے سے اور اپنے والد پہ گُذرنے
والی اذیّتوں سے واقف ہے ،اور اپنے والدکے ساتھ ساتھ وڈیروں کی اَوطاقوں
اور کورٹ کی راہوں میں دھکے کھاتا رہا ہے۔
الیکشن کے دن رات کے وقت میری مُلاقات غازی ڈنو سے ہوئی،اور میں نے یونہی
باتوں باتوں میں اُس سے احوال لِیا کے جناب ووٹ کس کو دے کر آئے ہیں؟اُس کے
جواب میں ا ُس نے کہا کہ جناب بس ووٹ کیا دینا تھا،یونہی چلے گئے تھے کسی
دوست کے اِصرار پر اور جہاں اُس نے کہا تھا وہیں مُہر لگا آئے،مجھے اُس کا
جواب سُن کے بڑی حیرت ہوئی،اور میرے ا ندر کی حیرت اب تجسّس کی شکل اِختیار
کر گئی ،میں نے کہا جناب میں نے پوچھا کہ ووٹ کسے دیا ہے آپ نے؟ اُس کے بعد
اُس نے کُھل کے بات شروع کی، ارے جناب میں تو ووٹ دینے جا ہی نہیں رہا
تھا،کافی سارے دوست آئے لیکن میں کسی کے ساتھ نہیں گیا،اور پھر اُس نے
چُھپے چُھپے لہجے میں اپنی ایک پُرانی محبوبہ کا نام لِیااور کہا کہ اُس کا
بھائی آگیا تھا لینے ،تو پھر میں چلا گیا،میری ہنسی نِکل گئی ۔۔۔۔،وہ جیسے
پہیلیاں بُجھوا رہا تھا، میرے تجسّس اورحیرت میں اِضافہ ہوگیا، کیونکہ میرے
سوال کا جواب ابھی تک نہیں مل پایا تھا،لیکن پھر وہ خُود ہی مُخاطب
ہُوا،اور پھر اُس کے بعد اُس نے میرے سوال کا جو جواب دِیا، وہ سُن کے پہلے
تو جیسے مجھے کوئی کرنٹ سا لگا،اور پھر اُس کے بعد مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا
کہ اِس شخص سے آگے اور کیا بات کی جائے ،آپ یقین جانیئے مجھے بلکل سمجھ
نہیں آ رہا تھا کہ میں اِسے کیا کہوں ؟غازی ڈنو صاحب ووٹ اُس ہی پارٹی کو
دے کے آئے تھے کہ جن کی سندھ میں پچھلی گورنمنٹ کی طاقت کے بل بوتے پر اُس
کے والد کی زندگی بھر کی جمع پونجی پر قبضہ کیا گیا تھا۔
اِس ہی قسم کی بے ضمیری کا مُظاہرہ اُس ہی علاقے کے ایک اور نوجوان نوید
احمد نے بھی کچھ اِس طرح کِیا کہ سندھ میں جس پارٹی کے پاور میں ہونے اور
سپورٹ کی وجہ سے پچھلے پانچ سالوں میں اُس کی بائیک اُسکے گھر کے آگے سے دو
بار چوری کر لی گئی ،اور اِس ہی پاور اور سپورٹ کی وجہ سے علائقے کے لوفر
قسم کے لوگوں کے ہاتھوں نوید احمد صاحب کے والد کی تین بار بیچ مُحلے میں
بغیر کسی وجہ کے ٹھیک ٹھاک پٹائی کی گئی،اور بات پھر تھانے اور پھر اُس کے
بعد اُنہی کم ظرف وڈیروں کی اَوطاقوں تک گئی کہ جن کے پیٹھ پیچھے ہونے کی
وجہ سے یہ سب ہُوا۔لیکن عجیب اور حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ وہ ہی
نوید احمد اِس الیکشن میں اُس ہی پارٹی کے لیئے بڑی بڑی گاڑیوں کے پیچھے
نعرے لگاتا ہُوااور کارنر میٹنگیں ارینج کرواتا ہُوا نظر آیا۔
میرا خیال ہے کہ شاید جناب غازی ڈنو صاحب آگے بھی اپنے والد کو اِس ہی طرح
دھکے کھاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، اورا پنے پلاٹ کے علاوہ اپنے ذاتی گھر
کو بھی اُن ہی لوگوں کے قبضے میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں،اور شاید جناب
نوید احمد صاحب بھی یہ چاہتے ہیں کے آئندہ وقتوں میں اُسکی بائیک کے ساتھ
ساتھ اُس کے گھر کی ایک اِک اینٹ چوری کر لی جائے ،اور آگے چل کے بھی بار
بار اُس کے والدکی عزت کویونہی سرِعام تار تار کِیا جائے۔
میرے خیال میں اِس ہی قسم کے لوگوں کی کثرت ہونے کی وجہ سے سارے مُلک میں
چھوٹا یا بڑا بدلاﺅآنے کے باوجودبھی صوبہ سندھ میں الیکشن 2013 کے نتیجے
میں کوئی بدلاﺅ نہیں آیا۔
لیکن یہ ایک غازی ڈنو یا نوید احمد نہیں، بلکہ سندھ میں آپ کو ایسے کئی
غازی ڈنو اور نوید احمد ملیں گے،جو کے اِس بارپھر سندھ میں بدلاﺅ نہ آنے کی
سب سے بڑی وجہ ہیں۔
اور جب جب میں اِس قسم کے لوگوں کے بارے میں سوچتا ہوں تومُجھے حسن نثار
صاحب کا کہاہُوایہ جُملہ شدّت سے یاد آتا ہے۔”پاکستان کے سسٹم کو تیزاب سے
دُھلواناپڑے گا“۔
لیکن مجھے لگتا ہے کہ اگر یہی حال رہاتو سندھ کے لوگوں کو تیزاب سے
دُھلوانے کی نہیں ،بلکہ تیزاب سے غُسل کروانے کی ضرورت ہوگی۔ |