نمازاچھی ،زکواة اچھی، روزہ اچھا، حج اچھا
مگرباوجود اس کے کہ میں مسلمان ہو نہیں سکتا
نہ کٹ مروں میں جب تک خواجہءبطحہ ﷺ کی حرمت پر
خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
اور یہی حقیقت ہے ۔”کی محمدسے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں ....یہ جہاں چیز ہے
کیا لوح وقلم تیرے ہیں“ڈاکٹر محمد علامہ اقبال ؒ نے اپنے اِس فیصلہ کن شعر
میں واضع کر دیا ہے کہ چاہتِ رسول ﷺ میں زندگی بسر کرنے والوں کیلئے اِس
نام اور ذات پاک کی حرمت کِس قدراہمیت کی حامل ہے۔ تخلیقِ آدم وکائینات سے
بھی قبل خدا تعالیٰ نے اپنے نامِ پاک کے ساتھ عرش کی بلندی پر اپنے پیارے
محبوب ﷺ کا اسمِ مبارک لکھ رکھا تھا۔بلاشبہ یہ نام عظمتوں کی بلندیوں پر ہے
۔ویسے کچھ نقطے ایسے ہوتے ہیں جہاں عربی نام لکھے بنا تحریر میں مٹھاس پیدا
ہو ہی نہیں سکتی مگر قارئین کو اِن ناموں کی حرمت کا خیال رکھنا چاہیے۔ہم
جہاں کِسی اخبار،رسائل وغیرہ میں پاکیزہ نام دیکھیں تو ہمارا فرض بنتا ہے
کہ احترام و ادب کے ساتھ کِسی محفوظ مقام پر پہنچا دیں۔
اب راقم اپنے مقصد کی جانب آنا چاہیے گا ۔گزشتہ دِنوں 11مئی2013کی شام
الیکشن کا رنگین میلا اُجڑنا شروع ہوااِس سے قبل پورا ملک سیاسی اشتہارات
کی بدولت شوخ و شنگ رنگینیوں میں دوبا ہو ا تیر رہا تھا۔دیواریں ،گلی
محلے،سڑکیں، گاڑیاں ،اخبارات یہاں تک کے گھروں کے باہر بھی رنگین
اسٹیکر،اور فلیکسیں قو سِ قزاح کے رنگ بکھیر رہی تھیںہر جانب رنگ و نور کا
اک طوفان تھا۔کامیاب اُمیدواروں سے الیکشن کمیشن نے صوبائی اور قومی
اسمبلیوں کی پبلسٹی پر ہونے والے اخراجات کی تفصیل طلب کی تو تمام ملک جسے
دلہن کی سیج کی مانند سجایاگیا تھااُس کی مانگ اُجاڑ دی گئی ۔عین ممکن تھا
الیکشن کمیشن والے دیہاڑی داروں سے پوسٹروں ، بینروں اور فلیکسوں کی چوری
چھپے گنتی شروع کروادیتے اور بہت سے قبر بند راز آشکارہ ہوتے۔اب بچے’‘
ہارنے والے“ تو انہوں کے سپورٹروں نے شکست کی شرمندگی محسوس کرتے ہوئے کِسی
حساب کتاب کے خوف کے بنا ہی اپنی انویسمنٹ ضائع کر دی۔جیتنے اور ہارنے
والوں کے کپڑے کے بنے بینر ضائع نہیں ہوئے بلکہ انہیں سپورٹروں نے انتہائی
ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے استعمال میں لانا شروع کر دیا ہے ۔رکشے اور
چھوٹی موٹی گاڑیوں ،موٹر سائیکلوں والوں نے انہیں لپیٹ سمیٹ کر بیٹھنے
کیلئے گدی بنا لیا اور کچھ نے صفائی ستھرائی کا کام لینا شروع کیا تو کِسی
نے استر بنا لیے۔فلیکسوں کو بھی خوب استعمال میں لایا گیا۔استعمال شدہ
فیکسوں کے فرشی قالین عام ہیں۔راقم نے الیکشن 2013کی استعمال شدہ فلیکسوں
کو اپنی آنکھوں سے ٹھنڈی زمین پر بچھائے بزرگوں ،بچوں اور جوانوں کو آرام
کرتے دیکھا ہے۔کچھ خاتونِ خانہ اِن سے دستر خوان کا کام بھی لے رہی ہیں ۔
پاکٹ پر لگانے والے چھوٹے اور دوسرے بڑے اسٹیکر یا اشتہار تو آج بھی گلی ،محلوںکے
کونے کھانچے سے مِل جائیں گے۔کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ کیا ہمیں کِسی کو
بھی اِن فلیکسوں یا بینروں پر نامِ پاک ”محمد “ لکھا نظر نہیں آیا؟حالانکہ
تقریبا سیاستدانوںنے اپنے نام کے شروع میں ”محمد“ لکھا ہوتا ہے ۔ میں بات
نامِ ”محمد“کے تحریری خاتمے کی نہیں کر رہا بلکہ میرے کہنے کا مقصد تو یہ
ہے کہ اِس پاک نام کاادب و احترام ہر کلمہ پڑھنے والے پرفرض ہے۔ایک تجویز
ہے اگر کِسی اشتہار ،فلیکس یا بینر وغیرہ پر نامِِ ”محمد“ کی بے حرمتی کا
ڈر ہو تو نامِ ”محمد“ کی جگہ”ایم“ لکھا اور ”محمد“پڑھا جائے اور اگر بے
حرمتی کا خوف نہ ہوتو نامِ ”محمد“ کو بالکل بھی نظر انداز نہ کیا جائے ۔
کرسچن برادری اپنے نبی پاک کی ایک عظیم نشانی صرف کراس کے نشان کا کتنا
احترام کرتی ہے اور ہم....
گزشتہ روز کِسی کام سے ایک جگہ جانے کا اتفاق ہوا ۔میں جہاں گیا تھا وہاں
الیکشن 2013کی ریٹائرڈ شدہ پلاسٹک کی کئی کرسیاں بکھری پڑی تھیں ۔مجھے
احترام اور عزت دیتے ہوئے ایک نوجوان نے کِسی بڑی سی چادر سے ایک کرسی صاف
کرکے میری پشت کی جانب لا کر رکھی اور ساتھ ہی یہ کہتے ہوئے کہ” اُف گرمی
کی شدت کی وجہ سے یہ پلاسٹک کی کرسی کِس قدر گرم ہوئی پڑی ہے“ ہاتھ میں
پکڑی اُسی چادر کو گدی بنا کر کرسی پر رکھ دیا اور میں فون سنتا سنتا
خیالوں میں گم ریٹائرڈ الیکشن کرسی پر گدی نشین ہوگیا۔فون بند ہوتے ہی
قدرتی بجلی کی سی پھرتی نے مجھے کرسی سے مینڈک کی طرح اُچھال کر پرے پھینک
دیا کیونکہ مجھے کرسی صاف ہوتے ہوئے احساس ہوچکا تھا کہ میں جِس گدی پر
بیٹھا ہوں اُس پر عبارت تحریر ہے ۔میں نے جب وہ گدی کھول کر دیکھی تو وہ
چادر نہیں کِسی انتخابی حلقے کا کپڑے کا بینر تھا جِس پر دیگر تحریر کے
ساتھ واضع لکھا تھا (آف ”محمد‘ ‘ پورہ علاقہ۔۔۔۔۔)خدا تعالیٰ نے مجھ سیاہ
گار کو پاکیزہ نام ” محمد “ کی بے حرمتی سے بچا لیا تھا۔ یہ ہم سب کا فرض
بنتا ہے کہ اِس قسم کی نشاندہی کریں اور پاکیزہ نام کٹ کر کے کِسی خاص مقام
پر محفوظ کر دیے جائیں ۔آج کل تقریبا ہر مسجد کے باہر پاکیزہ ناموں اور
اوراق کو محفوظ کرنے کیلئے بکس نصب کیے ہوتے ہیں۔جب ایک نقطہ کی غفلت سے
”خدا“ سے ”جدا“ ہوسکتا ہے تو ذرا سی غفلت اور بے احتیاطی کہا سے کہا پہنچا
سکتی ہے ۔اور ہمیشہ کی احتیاط ”محرم“ سے ”مجرم “ کبھی نہیں بننے دیتی۔ہمیشہ
حق اور سچ کی آواز کو بلند کرو سچ کو سچ اور غلط کو غلط نہ صرف مانو بلکہ
زبان سے اظہار بھی کرو....
شاعرِ مشرق حضرت ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے زمانہِ طالبِ علمی کا ایک واقعہ کہی
پڑھا تھا کہ ایک روز اُستاد نے علامہ صاحب کو ایک اِملا لکھنے کیلئے دیا ۔کچھ
دیر میں چھوٹے علامہ اقبال ؒ صاحب نے اِملا لکھ کر اُستادِ محترم کے حوالے
کر دیا ۔اُستاد نے کہا ”بیٹا آپ نے لفظ ”غلط “ کو ”غلت “ لکھا ہے جو کہ غلط
ہے ۔حاضر دماغ علامہ اقبالؒ صاحب نے باآدب طریقے سے اُستاد کے تقدس کو
پامال کیے بنا نظریں جھکائے کہا ”اُستادِ محترم ”غلط“ کو ”غلت“ ہی ہونا
چاہیے۔ |