مسلم لیگ-ق کی کُکڑیاں

ایک سکھ کی میت پر اس کی بیوی اپنے چھوٹے بیٹے کیساتھ کھڑی بین کر رہی تھی۔ وے توں اوتھے ٹر گیاں ایں جتھے دیوا ناں بتی ۔وے توں اوتھے ٹر گیا ایں جتھے منجھی ناں پیڑھی۔ وے توں اوتھے ٹر گیا ایں جتھے آٹا ناں روٹی
عورت کا بیٹا بولا “ماں، ابا کہیں پاکستان تو نہیں چلا گیا”۔

خیر یہ توتھا ایک لطیفہ، لیکن پاکستان کے حالات کچھ مختلف بھی نہیں ہیں اور خاص طور پر توانائی کا بحران جو عفریت کی طرح منہ کھولے کھڑا ہے ۔ جس کی زد میں نہ صرف عوام بلکہ سیاستدان بھی ہیں ۔ کیونکہ اب نومنتخب اراکین کو بھی ڈیلیور کرنا ہے ورنہ جیسا کہ میں گزشتہ کالم میں عرض کر چکا ہوں کہ جو جتنے بڑے رتبے پر فائز ہے وہ اتنے ہی بڑے اندیشے میں بھی مبتلا ہے ۔

پاکستان کو توانائی بحران سے نکلنے کیلئے فوراََ اور ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ یہ بحران نہ صرف پاکستان کی economyکوتباہ کردے گا بلکہ عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر بھی اثرانداز ہوسکتی ہے ۔ماضی میں وہی ہوا کہ بجلی کے بدترین بحران کا نوٹس آخر کار خود صدرزرداری کولینا پڑا اور اور ان کی زیر صدارت اجاس میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے اعلانات کے باوجود اس پرتاحال قابو نہیں پایا جا سکا جس کے بعد ہی پاکستان مسلم لیگ ق نے پیپلزپارٹی پر واضح کیا وہ عوام کواس حال میں نہیں دیکھ سکتے کل ہم کس منہ سے عوام کے پاس جائیں گے اگرجلدہی لوڈشیڈنگ پر قابو نہ پایا گیا تو وہ حکومتی اتحاد سے باہر نکل آئیں گے۔ہم سمجھتے ہیں کہ توانائی بحران کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ق کا موقف درست اور عوامی امنگوں کے عین مطابق تھا۔ چوہدری شجاعت کی طرف سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کیلئے پیش کیا جانیوالافارمولے پر عمل کرکے اس بحران پر باآسانی قابو پایا جاسکتا تھا جس میں کہاگیا کہ اگر تمام صوبے تین ماہ تک این ایف سی ایوارڈ کی رقم آئی پی پیز کوادا کردیں تو اس سے لوڈ شیڈنگ پر فوری قابو پایاجاسکتا ہے لیکن افسوس اس فوری طور پر قابل عمل منصوبے کو نظرانداز کردیاگیا اس کے علاوہ ترکی، کرغیزستان، اور تاجکستان سے سستی بجلی فراہم کئے جانے کی پیشکشوں کے باوجود ا ±ن پر غور نہیں کیا گیااورسب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے مایہ ناز سائنسدان ڈاکٹر ثمرمند مبارک یہ واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ اگر انہیں وسائل فراہم کئے جائیں تو وہ توانائی بحران کو نہ صرف ہمیشہ کیلئے ختم کرسکتے ہیں بلکہ تھر کول ذخائر سے پیدا ہونیوالی یہ بجلی تین سے چار روپے یونٹ میں دستیاب ہوگی لیکن حکومت اس قابل ترین سائنسدان پر بھی عدم اعتماد کرتے ہوئے انہیں فقط ایک ارب روپے کی رقم فراہم نہیں کرسکی جس سے وہ تیس سال تک روزانہ دس ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا دعوٰی کررہے ہیں حالانکہ بجلی پیدا کرنیوالی کمپنیوں سے خریدی جانیوالی بجلی پر اس سے کہیں زیادہ رقم خرچ کی جارہی ہے اس ضمن میں ڈاکٹر ثمرمند مبارک کا یہ بیان بھی کافی اہم ہے کہ جن لوگوں کو پرائیویٹ پروڈیوسرز سے بجلی خریدنے میں فائدہ نظر آتا ہے وہی اس منصوبے کی مخالفت کرکے اس کیلئے فنڈز فراہم کرنے میں رکاوٹ ہیں۔توانائی بحران کے حل کا ایک اور اہم منصوبہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر بھی ہے لیکن بدقسمتی سے یہ انقلابی منصوبہ بھی سیاست کی نذرہوگیا ہے حالاں کہ اس منصوبے کی تکمیل سے نہ صرف یہ کہ عوام کو ایک روپے یونٹ کی سستی ترین بجلی ملتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ 70لاکھ ایکڑ بنجر زمین قابل کاشت بناکر اس سے اربوں روپے کمائے جاسکتے تھے اور تقریباََ تیس ہزارافراد کو فوری روزگار بھی مل جاتا لیکن باوجود قوت ہونے کے پیپلزپارٹی نے اس ڈیم کو بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ سابق وفاقی وزیر پانی و بجلی نے تو آتے ہی یہ بیان دیاکہ کالاباغ ڈیم اب ہمیشہ کیلئے دفن کردیاگیا ہے ایک اندازے کے مطابق کالا باغ ڈیم کے تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کو ہرسال550ارب روپے کا نقصان ہورہا ہے ۔ توانائی بحران کے حل کیلئے ق لیگ کا مضبوط موقف اور کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیلئے عوامی رابطہ مہم بہت اچھے فیصلے تھے۔

چوہدری شجاعت حسین ایک زیرک آدمی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ پنجاب میں سستی روٹی سکیم نہ چلی لیکن سستے ایم پی اے تو دوروپے کی روٹی سے بھی زیادہ سستے نکلے۔ہم تو یہ سوچ رہے کہ خدانخواستہ یہ بھاری مینڈیٹ یعنی قوت کا ذخیرہ عوام کیلئے سوہانِ روح نہ بن جائے کیونکہ طاقت اور اقتدار کے حوالے سے ہم بہت ہلکے لوگ ہیں۔میں سوچ رہا ہوں کہ اگر مسلم لیگ - ق بھی تیسری قوت کے طور پر موجود ہوتی تو شاید اس منہ زور طاقت میں توازن پیدا ہوتا۔

لیکن کیا کریں چوہدری صاحب آپکی روٹی شوٹی میں شاید نمک زیادہ تھا ۔ یا پھر اقتدار کے کھابے کھانے والوں کو ابھی تک اپھارہ نہیں ہوا تھاکہ ایک مرتبہ پھرسب کے سب چڑھتے سورج کو سلامی دینے نکل پڑے۔

ایک اور لطیفہ یاد آگیا

ایک دوست؛ "میں روزانہ مرغی کے ساتھ روٹی کھاتا ہوں۔" دوسرا دوست؛ "اس مہنگائی کے دور میں، وہ کیسے؟" پہلا دوست؛ "ایک لقمہ میں لیتا ہوں، دوسرا مرغی کو دیتا ہوں۔"

جناب چوہدری شجاعت حسین کی مرغیوں نے ”کُڑکُڑ“ تو اپنے صحن میں کی لیکن ”آنڈا“ دینے پڑوسیوں کے ہاں چلی گئیں۔

Chaudhry Tahir Ubaid Taj
About the Author: Chaudhry Tahir Ubaid Taj Read More Articles by Chaudhry Tahir Ubaid Taj: 38 Articles with 61946 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.