پاکستان کے انتخابات پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں
بہت سے مبصرین تو آخر وقت تک یہ کہتے رہے کہ شائدانتخابات ہوں ہی نہ لیکن
جنرل کیانی کے انتخابات کے حوالے سے دوٹوک بیان کے بعد تمام شکوک و شبہات
ختم ہوگئے اور گیارہ مئی کو عام انتخابات ہوگئے اس بار انتخابات کی ایک خاص
بات یہ تھی کہ چیف الیکشن کمیشن تمام جماعتوں کی مشاورت سے بنایاگیا اور سب
نے فخرالدین جی ابراہیم کی شخصیت پراعتمادکااظہارکیا لیکن اس کے باوجود
انتخابات کے بعد ایک دوسرے پردھاندلی کے ذریعے نتائج تبدیل کرنے کی الزام
تراشی تاحال جاری ہے جوکہ غیرمناسب ہے کیوںکہ اس بات کی تصدیق عالمی میڈیا
بھی کرچکاہے کہ 90%انتخابات شفاف ہوئے ہیں ۔بہرحال قوم کو مبارک ہو کہ
انہوں نے ووٹ کے حق کے ذریعے ایک بار پھر اپنی نمائندہ پارلیمنٹ منتخب کرلی
جس کے مطابق نوازشریف کی مسلم لیگ ن کو سب سے بڑی پارٹی ہونے کا اعزازحاصل
ہوگیا ہے اس کے علاوہ ایک بڑی تبدیلی جو دیکھنے میں آئی ہے وہ یہ کہ
پیپلزپارٹی کا گراف بہت ڈاؤن نظرآیا اور اس کی بجائے تحریک انصاف سے عوام
زیادہ متاثرنظرآئی اور 2002ءمیں صرف ایک سیٹ حاصل کرنے والی تحریک انصاف اب
ایک بڑی سیاسی قوت بن چکی ہے اور اب کی بار وہ خیبرپختونخواہ میں اپنی
حکومت بھی بنارہی ہے اگرچہ مولانا فضل الرحمان نے بھی اپنا وزیراعلیٰ لانے
کی کوشش کی لیکن میاں نوازشریف نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے اورعمران خان
کے مینیڈیٹ کو تسلیم کرنے اور خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کو حکومت
بنانے کی دعوت دے کر مولاناکی امیدوں پر پانی پھیردیا ۔اسی طرح سندھ میں
ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کی حکومت بننے جارہی ہے جس سے ان دونوں پارٹیوں
کو ماضی کی غلطیوںسے سبق سیکھنے کاموقع سمجھنا چاہئے اور یہ دونوں پارٹیاں
سندھ میں گڈگورننس قائم کرکے ایک بار پھرعوام کے دلوں میں جگہ بناسکتی
ہیںاور ان کوتاہیوں کو دور کرسکتی ہیں جس کی وجہ سے عوام انتخابات میں ان
سے دور ہوئی اور جس کا آغاز ایم کیوایم نے کربھی دیا ہے اور حالیہ اطلاعات
کے مطابق الطاف حسین نے ایم کیو ایم کی باڈیاں توڑکر نئے عہدیداراں کو ذمہ
داریاں سونپ دی ہیں ان انتخابات کی ایک خاص بات پاکستان مسلم لیگ ق کی شکست
بھی ہے جس کی ایک بڑی وجہ ان کا پیپلزپارٹی کیساتھ اتحاد بھی ہے۔ مسلم لیگ
ق چوہدری پرویزالٰہی صاحب کی اپنے حلقہ 105کی سیٹ احمدمختارکو ہرانے سمیت
قومی اسمبلی کی دو سیٹیںجیت پائی یہ نتائج مسلم لیگ ق کیلئے یقیناََ ایک
دھچکے سے کم نہیں لیکن یہ عوام کا فیصلہ ہے جس کو تسلیم کرتے ہوئے مسلم لیگ
ق کو اپنی جماعت میں موجود خامیوں کو دور کرتے ہوئے عوام کے دلوں میں اپنی
جگہ بنانے کیلئے محنت کرنا ہوگی ۔ مسلم لیگ ن انتخابات کا معرکہ مارکر وفاق
اور پنجاب میں مضبوط حکومت بنانے جارہی ہے لیکن یہاں صورتحال اس کیلئے بھی
کوئی زیادہ اچھی نہیں جسے اس وقت حکومت کرنے کو ملی ہے جب ملک کو توانائی
بحران،بدترین معاشی صورتحال اورکرپشن نے بری طرح گھیررکھا ہے نئی حکومت کو
ان بحرانوں سے قوم کو نکالنے کیلئے ہنگامی اور طویل المدتی منصوبے بنانا
ہوں گے ان میں سب سے اہم مسئلہ جس نے عوام کو ناراض کیا وہ لوڈشیڈنگ ہے
اوراب جب کہ ملک میں شدید گرمی کی لہر اور اوپر سے بدترین لوڈ شیڈنگ روزانہ
درجنوں قیمتی جانیںلے رہی ہے ایسے میں حکومت کو سب سے پہلے تو لوڈشیڈنگ کے
بڑے ذمہ داران اداروں اور شخصیات کے گردگھیراتنگ کرنا ہوگا جو قومی خزانے
کے اربوں روپے بقایاجات کی مدمیں دباکر بیٹھے ہیں اس کے بعد کوئلے،گنے کے
پھوک اور کوڑے سے بجلی بھی مختصر مدت میں پیداکی جاسکتی ہے ۔تیسرااس سلسلے
میں حکومت اگر اوورسیز پاکستانیوں سے بھی مدد طلب کرے تو وہ بھی یقیناََ
ماضی کی طرح اس موقع پر بھی پاکستانی حکومت کو مایوس نہیں کریں گے اور اپنے
ملک پاکستان کو اندھیروں سے نکالنے کیلئے خاطرخواہ مددکریں گے چوتھے اقدام
کے طورپر دوست ممالک کیساتھ توانائی بحران کے خاتمے کیلئے معاہدے کر کے بھی
اس عذاب سے ہمیشہ کیلئے نجات حاصل کی جاسکتی ہے ۔توانائی بحران کے بعد
کرپشن کا خاتمہ حکومت کی ترجیح ہونی چاہئے کیوں کہ یہ کرپشن ہی تھی جس نے
پی آئی اے،ریلوے،سٹیل ملز اور اس جیسے پاکستان کے کئی انتہائی منافع بخش
اداروں کو کنگال کرکے رکھ دیا میاں صاحب کو اس سلسلے میں خاص طور پر خیال
رکھتے ہوئے تمام اداروں میں ایماندار لوگوں کو بھرتی کرنا ہوگا تاکہ آئندہ
کوئی توقیر صادق جیسا شخص اداروں میں نہ گھس جائے جواوگرا میں 83ارب کی
کرپشن کرکے دوبئی فرارہوگیا اور افسوس یہ کہ سپریم کورٹ یہاں تک کہہ چکی ہے
کہ سی این جی بحران کا ذمہ دار توقیر صادق ہے اگر یہ کرپشن نہ ہوتی تو سی
این جی بحران پیدانہ ہوتا لیکن اس کے باوجود اس قومی مجرم کو گرفتارنہیں
کیا گیا نوازحکومت کو اس پر بھی ایکشن لیتے ہوئے اسے گرفتارکرکے واپس ملک
میں لانا چاہئے اور اسے کڑی سزا بھی دینی چاہئے تاکہ آئندہ کوئی ملکی خزانے
کو لوٹنے کی کوشش نہ کرے۔ |