مشروب مفاہمت

سیانے کہتے ہیں، آزمائے ہوﺅں کو آزمانا نہیں چاہیے مگر ہم سیانے ہونے کے غم میں مبتلا ہیں سو، آزمائے ہوﺅں کو ہی آزماتے رہتے ہیں اور پرانے کے سو دن دیکھنے کے لیے ایک نئے دن سے محروم رہتے ہیں۔انتخابات سے قبل تبدیلی کا شور بپا تھا۔ ہم نے انہی کالموں میں کہا تھا کہ انتخابات کے نتیجے میں اس کے سوا کوئی تبدیلی ممکن نہیں کہ پیپلز پارٹی کی جگہ مسلم لیگ ن لے لے گی اور ہوا بھی یہی کچھ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کہتے تھے کہ باری کا کھیل ختم ہونے والا ہے اب باریاں نہیں لگیں گیا مگر دوسرے ہی سانس میں میاں نواز شریف سے یہ التجا کرتے دکھائی دیتے تھے کہ میاں صاحب! جانے دو، ہماری باری بھی آنے دو۔کرکٹ اور سیاست دو مختلف میدان ہیں کرکٹ میں چانس کی بہت گنجائش ہوتی ہے۔ کوئی بھی ٹیم بائی چانس کرکٹ کی عالمی چیمپئن بن سکتی ہے۔ مگر سیاست میں ایسے اتفاقات نہیں ہوتے، کھلاڑی اپنی صلاحیت اور اہلیت کی بنیاد پر ہی عالمی چیمپئن بنتا ہے اگر عمران خان نے خیبر پختونخوا میں بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور اچھی حکومت کی بنیاد رکھی تو وہ آئندہ الیکشن میں وزارت عظمی کے لیے فیورٹ ہوں گے ورنہ مولانا فضل الرحمان تو بن ہی جائیں گے۔صدر مملکت جناب آصف علی زرداری اور وزارت عظمی کی منہ پر متمکن ہونے والے میاں نواز شریف کے درمیان ون آن ون ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنماﺅں نے اس بات پر اتفاق رائے کیا کہ قومی مسائل کے حل اور جمہوریت کے استحکام کے لیے شانہ بشانہ کام کریں گے اور ملک وقوم کے بہتر مفاد کے لیے تمام اسٹک ہولڈرز کو بھی ساتھ ملا کر کام کریں گے، ہر ادارہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرے گا۔ ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ مفاہمت کی پالیسی کو فروغ دیا جائے گا گویا پرانی تنخواہ پر ہی کام ہوگا۔ بوتل بھی وہی ہوگی۔ لیبل بھی وہی ہوگا، مشروب بھی وہی ہوگا مشروب مفاہمت جسے پی کر ٹائم پاس پالیسی پر عمل درآمد ہوگا اور قوم مزید پانچ سال تک اسی اذیت میں مبتلا رہے گی۔ وہی لوڈشیڈنگ، وہی مہنگائی وہی بے روزگاری کا عذاب کچھ بھی نہیں بدلے گا، صرف ایوان اقتدار میں ہونے والا رنگ روغن بدلے گا۔ دروازوں اور دریچوں کے پردے بدلے جائیں گے۔میاں نواز شریف کا ارشاد گرامی ہے کہ ملکی مسائل اور قومی مشکلات سے نبردآزماکار ہونے کے لیے میثاق جمہوریت کو آگے بڑھانا ہوگا۔ یہ بڑی تلخ حقیقت ہے کہ میثاق جمہوریت کو آگے بڑھائے بغیر ہم ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔ محترم چودھری افتخار احمد کا چیف جسٹس آف پاکستان بننا میثاق جمہوریت سے آگے بڑھنے کا ثمر ہے ورنہ وہ چیف جسٹس آف پاکستان نہیں بن سکتے تھے۔ اسی فارمولے کے تحت سابق جنرل پرویز مشرف کے مقدمات بھی نمٹائے جاسکتے ہیں درگزر کا مظاہرہ کیا جائے تو ور آمزگان کو فرار واقعی سبزا دینے کے عمل کو یقینی بنایا جائے تو عوام اور حکومت کو ذہنی اذیت سے نجات مل سکتی ہے۔ سابق جنرل پرویز مشرف کا معاملہ عوام کے شعور پر چھوڑ دیا تو آل پاکستان مسلم لیگ، مسلم لیگ ن کے لیے ایک ایسا پشتہ ثابت ہوسکتی ہے جو تحریک انصاف کے سونامی کا زور توڑ سکتی ہے۔ صلح صفائی سے کام نہ لیا گیا تو تحریک انصاف کا سونامی مسلم لیگ ن کا بھی صفایا کردے گا پھر تمام سیاسی جماعتیں مل کر بھی اپنی صفائی پیش نہیں کرسکیں گی۔

Rana Muhammad Bilal
About the Author: Rana Muhammad Bilal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.