وزیر اعظم مسٹر فضل الرحمٰن

لوکل اخبار میرے سامنے تھا اور یہ اخبار اردو زبان میں تھا۔ پہلے صفحے پر مشہور نجومیوں، عاملوں ، دست شناسوں اور ستارہ شناسوں کے اشتہار تھے۔ اسی صفحہ پر جو جگہ باقی بچی تھی اسپر وکیلوں ، ٹریول ایجنٹوں ، رقوم کی ترسیل کرنیوالی کمپنیوں اور برطانیہ سمیت مختلف مغربی ممالک اور آسٹریلیا وغیرہ میں یو نیورسٹی داخلوں کی تاریخیں اور طریقہ کار درج تھے۔ اندر کے صفحات پر کچھ پاکستانیوں ، افغانوں اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے قانون شکنوں کے متعلق خبریں تھیں ۔ ایسی خبریں ذیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہوتیں چونکہ یہ ایک روٹین میٹر ہے۔ یہ خبریں گھر یلوتشدد ، برطانیہ میں غیر قانونی داخلے ، ویزہ کی مدت کے اختتام پر قیام کرنے، ڈرگ بیچنے ، ٹیکس چوری ، غیر قانونی کام اور چوری چکاری کے متعلق ہوتی ہیں۔ کچھ خبریں پاکستانی سیاسی جماعتوں کی برطانیہ سمیت دیگر یورپین شاخوں کے عہدیداروں کی طرف سے ہوتی ہیں جو یورپ میں مقیم ان سیاسی عہدیداروں کا وقت گزاری کا مشغلہ اورذاتی تشہیر کا ذریعہ ہے۔

اردو اخبار ات میں پاکستان اور بھارت میں ہونے والی عرس کی تقریبات ، مختلف دینی مجالس اور مشاعروں کے علاوہ شاعر وں اور ادیبوں کے یورپ آمد اور تقریبات کے اوقات کار بھی شائع ہوتے ہیں۔ یورپ ، خاصکر برطانیہ میں پاکستان ور بھارت میں جتنے مزارات ، گدیاں اور آستانے ہیں ان کی شاخیں بھی قائم ہیں جو اپنی اپنی مساجد اور مدارس چلاتی ہیں اور اپنے اپنے نظریات ، عقائد اور مسالک کی تشہیر کرتی ہیں ۔ ان مزارات کے متولین جنھیں صاحبزادگان، شہزادگان اور مشایئخ عظام کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے موسم کے مطابق یورپ میں قیام اور مریدین کی روحانی تربیت کرتے ہیں۔ صاحبزادگان ، متولیان اور مخدومین کی ان روحانی محافل کو مزید دوام بخشنے اور پر رونق بنانے کے لیے پاکستان اور بھارت سے مشہور نعت خوان اور قاری حضرات بھاری معاوضوں کے عوض تشریف لاتے ہیں اور مریدین کی جیبوں کا بوجھ ہلکا کرتے رہتے ہیں ۔ آج کا روزنامہ بھی ایسا ہی حکائت نامہ تھا جسے جلدی جلدی دیکھتے ہوئے میری نظر ایک دو کالمی خبر پر ٹھہر گئی۔

خبر تھی کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن امریکہ اور کنیڈا کا دورہ کرنے کے بعد اچانک برطانیہ پہنچ گئے ۔ ائیرپورٹ پر سابق وزیر داخلہ عبدالرحمٰن ملک نے انکا استقبال کیا اور دونوں اہم شخصیات نے لندن میں مقیم ایم کیوایم کے سربراہ الطاف حسین کی قیام گاہ پر تشریف لے گئیں جہاں تینوں رہنماؤں نے طویل ملاقات کی۔ غیر مصدقہ اطلاعت کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن اپنے قیام کے داران سابق سفیر واجدشمس الحسن کے علاوہ بلاول بھٹو اور برطانیہ کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سے بھی ملیں گئے ۔ ان ملاقاتوں کے بعد وہ فرانس میں مقیم سابق صدر آصف علی زرداری سے ملنے کے بعدعمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب تشریف لے جائینگے جہاں وہ دینی فریضے کی ادائیگی کے بعد اہم سعودی شخصیات سے بھی ملنیگے۔ یاد رہے کہ کنیڈا ، امریکہ اور یورپ کے اچانک دورے پر رخصت سے پہلے مولانا نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل خان ذبردست خان ، اسلام آباد میں مقیم یورپی یونین کے سفیر کے علاوہ سعودی ، امریکی سفیر اور برطانوی ہائی کمشنر سے بھی ملاقاتیں کیں اور پاکستان میں جمہوریت کو تقویت پہنچانے پر ان کے ممالک اور سربراہان مملکت کا شکریہ ادا کیا۔ خبرمیں یہ بھی لکھا ہے کہ دوماہ پہلے مولانا نے مشہور صحا فی، دانشور اور اینکر سلیم صافی کو اپنا ترجمان مقرر کیا ہے جنھیں وہ پچھلے ماہ اپنے دورہ بھارت اور بنگلہ دیش کے دوران ساتھ لے گئے جہاں ڈھاکہ اور دہلی میں موصوف نے ایک نئے انداز میں پروگرام جرگہ کی ریکاڈنگ کی اور امن کی آشا کو مزید تقویت دینے پر زور دیا ۔ ان پروگراموں کے دوران حسینہ واجد اور من موھن سنگھ کے علاوہ فاروق عبداﷲاور سونیا گاندھی نے بھی شرکت کی اور پاکستان مخالف زہراگلنے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔بھارت اور بنگلہ دیش میں اس پروگرام کو انگریزی ، بنگا لی، ہندی ،تامل ترجمے کے ساتھ نشر کیا گیاجسے پاکستان کے سوا سبھی جمہوریت پسند اور روشن خیال اقوام نے پسند کیا۔ شنید ہے کہ سلیم صافی کے اس پروگرام کو بھارت کے سبھی چینلوں پر بار بار دیکھایا جارہا ہے جبکہ افغان صدر حامد کرزائی جو سلیم صافی کے قریبی دوست ہیں نے افغانستان کا سب سے بڑا ادبی ایواڈ برائے امن دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے بھی سلیم صافی کو دوستی اور امن کا تمغہ دینے کا اعلان کیا ہے جو اگلے سال یوم آذادی کی خصوصی تقریب میں پیش کیا جائے گا۔

میں یہ خبر پڑ ھ ہی رہا تھا کہ میرے دوست طوفان کیانی اور ہلچل خان کا فون آگیا ۔ طوفان کیانی نے حال ہی میں جہلم اور راولپنڈی کا طوفانی دورہ کیا ہے اور الیکشن 2013 ء پر ایک جامع تبصرہ لکھنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہلچل خان کا تعلق تحریک انصاف سے ہے اور میانوالی کے قصبہ واں بچراں کا رہنے والا ہے ۔ ہلچل اور طوفان نے بتایا کہ فوراً ٹیلیویژن آن کرو چونکہ مولانا فضلالرحمٰن ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کر رہے ہیں جسکا ترجمہ دنیا کے سبھی زبانوں میں نشر ہوگا۔ میں نے ٹیلیویژن آن کیا تو واقع ہی ایک ہجوم ہی دیکھائی دیا۔ ماربل آرچ کے علاقہ میں واقع ایک فایؤ سٹار ہوٹل کا کانفرنس حال دنیا بھر کے رپوٹروں ، کیمرہ مینوں اور سینئر صحافیوں سے بھرا پڑا تھا۔کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ مغربی میڈیا کے بعد بھارتی اور افغان میڈیا والوں کو بٹھایا گیا تھا اور سب سے آخر ی اور کونوں والی نشستوں پر پاکستانی میڈیا کو پھنسا کر رکھا گیاتھا ۔ مولانا اور ان کے ترجمان جناب سیلم صافی کرسیوں پر تشریف فرما ہوئے تو جناب صافی افغانستان کے مرحوم بادشاہ ظاہر شاہ کے چیف آف سٹاف جنرل صافی کی طرح مصنوعی گرجدار آواز میں کہا کہ میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ اس پریس کانفرنس میں تشریف لائے۔مولانا نے صرف سوالوں کے جواب دینے ہیں چونکہ جو کچھ انہوں نے کہنا تھا وہ ایک پمفلٹ کی صورت میں آپ کے ہا تھوں میں موجود ہے اور امید ہے کہ آپ نے اسے اچھی طرح پڑھ لیا ہوگا۔ پہلا سوال بی بی سی کے نمائیندے نے کیا اور پوچھا کہ کیا مولانا اگلے چند دنوں میں وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے والے ہیں اور وزیراعظم بننے کے بعد ان کی خارجہ پولیسی کے خدوخال کیا ہوں گے ۔

صافی نے مولا نا کی طرف دیکھا اور پھر خود ہی جواب دیا کہ تمام امور کتابی شکل میں آپ کے پاس موجود ہیں ۔ خارجہ پالیسی کے سلسلے میں ہم برطانیہ ، بھارت ، امریکہ اور افغانستان سے مشاورت کر چکے ہیں اور مزید مشاورت کے لیے موزوں وقت کا تعین حلف برداری کے بعد ہوگا ۔ تاہم ہماری خارجہ پالیسی افغانستان ، بھوٹان اور نیپال کی طرز پرہوگی جسے آپ معتدل ، متوازن اور مقبول عام پالیسی کہہ سکتے ہیں ۔ جہاں تک داخلہ پالیسی کا تعلق ہے تو ہم ملک سے وزارت داخلہ کا محکمہ ہی ختم کر دینگے ۔ وزارت داخلہ کے ماتحت ادارے صوبوں کو منتقل کر دینگے جہاں علمائے کرام کی ایک کمیٹی ان اداروں کو احسن طریقے سے چلائے گی ۔ کسٹم ، ایف آئی اے اور آئی بی جیسے غیر شرعی ادارے ختم کر دیے جایئگے جو کہ عوام الناس کے لیے تکلیف کا باعث ہیں ۔ آپ نے اکثر پڑھا اور سنا ہوگا کہ آئی بی والے لوگوں کے فون ٹیپ کرتے ہیں ، سکینڈل بناتے ہیں اور ہمارے مسلمان بھائیوں کو بلیک میل وغیرہ کرتے ہیں اسلیے ایسے عوام دشمن ادارے کا خاتمہ قوم اور ملک کے وسیع ترمفاد میں ہے۔ اسی طرح کسٹم والے ہیں جو سمگلر وں کو تحفظ اور عام آدمی کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہماری جو خواتین بیرون ملک سے اندرون ملک آتی ہیں یہ لوگ ان کے ذاتی کپڑے بھی چھین لیتے ہیں ۔ مک مکا کے لیے پاسپورٹ کا استعمال کرتے ہیں یعنی مسافر وغیرہ اپنے پاسپورٹوں میں ڈالر ، پاؤنڈ اور ریال وغیرہ رکھ کر انہیں دیتے ہیں جو کہ ہمارے اور آپ سب کے پاسپورٹوں کی توھین ہے۔جو محکمہ رشوت کی وصولی کے لیے پاسپورٹ جیسی معمولی اور سفری کتاب کا استعمال کرے اسے ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ہم نے بھی الیکشنوں میں کتاب کا استعمال انتہائی جمہوری طریقے سے کیا اور ہر ووٹر کو اسکے عقیدے ، مزاج اور مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے کتاب کا نام ، کام اور انعام بتایا ہے۔ پختون بھائیوں نے اسے دینی کتاب سمجھ کر ووٹ ڈالا ہے چونکہ الیکشن مہم کے دوران ہمارے مسلک کے بھاری بھرکم علماء نے ہمارے اشارہ ابرو پر دوعدد فتوے جاری کر کے اپنا دینی فریضہ سرانجام دیا تھا۔ پہلا فتویٰ یہ تھا کہ ووٹ ڈالنا دینی تعلیم کے عین مطابق ہے اور جو شخص ووٹ نہیں ڈالے گا وہ خائن ہوگا۔ دوسرا فتویٰ بھی ہماری خواہش پر تھا کہ عمران خان کو ووٹ دینا گناہ ہے ۔ان دوفتوؤں نے کتاب کی اہمیت کو بڑھا دیااور عوام الناس نے کتاب کو ووٹ دیکر ہمیں کامیاب کروایا۔ ہم لوگ جمہوریت پسند ہیں اور ہر معاملے کو آئین کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور اپنے نظریا ت کو دوسروں پرمسلط نہیں کرتے ۔ ہم اپنی ذاتی اور پارٹی ضروریات کی حدتک نظریہ ضرورت کے بھی قائل ہیں جس سے دوسروں کو نقصان نہیں پہنچتا۔

وزارت داخلہ سے کسٹم کے محکمے کو ختم کرنے کا مقصد آذاد تجارت کو فروغ دینا بھی ہے۔ سرحدوں اور بندرگاہوں پر مقامی قبائلی سردار وئیر ہاؤس تعمیر کرینگے جہاں دنیا بھر کے تاجر اپنا سامان لا کر فرخت کرینگے اور مقامی سامان خرید کر لے جایئگے۔ غیر ملکی تجارتی کمپنیوں کو بھی اجازت ہوگی کہ وہ ہماری سرحدوں کے اندر اپنے تجارتی مراکز قائم کریں اور ہمارے عوام کو سستی اور معیاری اشیاء فراہم کریں۔ ان وئیر ہاؤسوں اور تجارتی مراکز پر حکومت ٹیکس لگائے گی جو علماء کی ایک کمیٹی ہر ماہ وصول کرکے خزانے میں جمع کروادے گی۔ مجھے یقین ہے کہ ٹیکس رقوم کی وصولی سے نہ صرف خزانہ بھر جائے گا بلکہ غیر ملکی قرضے بھی ختم ہو جایئنگے ۔ کسٹم ، ایف آئی اے اور آئی بی ہر سال اربوں روپے سرکاری خزانے سے لیتے ہیں اور عیش و عشرت پر خرچ کرتے ہیں جبکہ رشوت کی مد میں یہ لوگ کھربوں کما کر بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں ۔ اسطرح ان محکموں کے خاتمے سے خزانے پر بوجھ اور عوام پر ظلم کا خاتمہ ہو گا۔

پولیس کا محکمہ بھی ختم کیا جائیگااور ضلعی عدالتوں کی جگہ گاؤ ں اور قصبات میں شرعی عدالتیں قائم ہونگی جو چوبیس گھنٹوں کے اندر عوام کو انصاف مہیا کرینگی ۔ نظام عدل کا طریقہ کتابچے میں درج ہے آپ پڑھ سکتے ہیں ۔ صوبہ سرحد میں اسلامی حکومت کے دور میں ہمارے کچھ دوستوں نے یہ نظام خیبر ایجنسی میں نافذ کیا تھا جسے عوام نے سراہا اور فائدہ بھی اٹھایا ۔ ہمارے ایک دوست جناب حاجی منگل باغ آفریدی سپہ خیل نے تحصیل باڑہ میں یہ نظام بخوبی چلا یا جسے آج بھی باڑہ اور وادی تیرہ کے عوام یاد کرتے ہیں ۔باڑہ ہی میں ہمارے ایک بزرگ دینی رہنما جناب مولا نا چمنی کو جنرل فضل حق نے قاضی مقرر کیا تھا جن کے عدل و انصاف کی آج بھی قبائلی علاقوں میں مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے پوچھا کہ جناب حاجی منگل باغ پر دھشت گردی کا الزام ہے اور مولانا چمنی نے باڑہ میں جنرل فضل حق کے مخالفین کو سرعام پھانسیاں دیں جو کہ انسانی حقوق کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ سوال پشتو میں کیا گیا اسلیے مولا نا نے اردو میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی اطلاعات غلط ہیں ۔منگل باغ نے ہماری اسلامی حکومت کی خدمت کی تو مخالفین نے اسے دھشت گرد قرار دیا۔ اس نے قبائلی علاقوں سے پیری مریدی کا خاتمہ کیا تو بد عیتوں نے اسکے خلاف پراپیگنڈہ کیا۔
ایک پاکستانی صحافی نے پوچھا کہ آپ پر ڈیزل سمگلنگ کے علاوہ مال مویشی افغانستان بھجواکرکر وڑوں ڈالر کمانے کا الزام ہے۔

مولانا نے ببر شیر کی طرح بپھرتے ہوئے کہا کہ یہ محض الزام ہے ۔ ہم نے ڈیزل کے پر مٹ لیے جو ہمارا آئینی اور قانونی استحقاق تھا۔ ہم نے ڈیزل سستے داموں قبائلی عوام کو دیا جو ان کا حق تھا۔ اب اگر ڈیزل کے کچھ پیبے افغانستان کے سرحدی علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے۔ اسی طرح گندم کا معاملہ ہوا اور مال مویشی سمگل کر نے کا الزام تھوپا گیا ۔ دیکھئے! جناب کرزائی اور ہم خود ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے چونکہ افغان سرحد پر قبائل آذاد ہیں اور دونوں جانب ایک ہی قبیلے کے لوگ رہتے ہیں۔ سردیوں گرمیوں کے علاوہ بیاہ شادیوں اور موت مرگ کی صورت میں آرپارجانا لگا رہتا ہے ا س لیے لوگ اپنا راشن اور مال مویشی بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔

ایک انگریز صحافی نے پوچھا کہ آپ بھارت کیساتھ مسائل کیسے حل کر ینگے اور آپ کی افغان پالیسی کیا ہے۔ سلیم صافی نے مولانا کی طرف سے جواب دیا کہ افغانستان کا کوئی مسلۂ نہیں افغان ہمارے بھائی ہیں ۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان اور امریکہ ایک دوسرے کو تسلیم کر لیں تاکہ افغانستان میں امن قائم ہو۔ ہم بھارت کو بھی افغانستان کی ترقی میں شامل کرنا چاہتے ہیں اور جو افغان بھائی پاکستان آئے اور مہاجرت کا کارڈ حاصل کیا انھیں اور ان کے خاندانوں کو ہم پاکستانی شہریت اور شناختی کارڈ جاری کرینگے ۔ ہماری خارجہ پالیسی میں یہ شامل ہے کہ افغان باشندوں کے لیے پاکستان آنے کے لیے پاسپورٹ اور پاکستان میں قیام اور کاروبار کے لیے اجازت نامے کی ضرورت نہ ہو۔

پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے ہم نے جمعیت علمائے اسلام ھندو پاکستان پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی ہے جسکے سربراہ مولانا مدنی اور مولانا غفور حیدری ہونگے جو چند ماہ میں سارے مسائل حل کر دینگے ۔ ہمارے نظریات کے مطابق مسلۂ کشمیر شملہ سمجھوتے کی روشنی میں بھٹو صاحب نے حل کر دیا تھا۔ یہ بھٹو صاحب کا دوسرا "ادھر ہم ادھر تم "تھا۔ کشمیر پر ہزارسالہ جنگ ایک جذباتی بیان اور سیاسی شوشہ تھا جس کی کوئی حقیقت نہیں ۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو شملہ معائدے میں کشمیر کا ذکر نہ ہوتا بلکہ یہ معائدہ یواین او کی قراردادوں کی روشنی میں حل کیا جاتا۔ بھٹو صاحب صرف جنگی قیدیوں کی واپسی اور جنگ کے دوران قبضہ شدہ علاقوں کی واپسی تک محدود رہتے مگر انہوں نے جان کر مسلۂ کشمیر کو اس معائدے کا حصہ بنا کر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا۔

آپ خود سوچیں کہ بھارت سوالاکھ سے ذیادہ قیدی کیسے پنجروں میں بند کر کے رکھ سکتا تھا اور پاکستان کے علاقوں پر کیسے قابض رہ سکتا تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں قیدیوں پر چارگنا ذیادہ فوج لگانی پڑتی اور قبضہ شدہ علاقوں پر بھی فوج تعینات رہتی جو بھارت کے لیے ممکن نہ تھا۔ شملہ معائدہ ہوتا یا نہ ہوتا ، بھارت انٹرنیشنل پریشر اوراپنی فوجی اور معاشی بدحالی کے پیش نظر فوجی بھی چھوڑدیتااور علاقے بھی خالی کر دیتا چونکہ جنگ بندی کے بعد بین الاقوامی قوانین کے تحت یہی ہونا تھا۔اگر بھارت افغانستان میں قیام امن کا خواہشمند ہے تو اسے کشمیر کے علاوہ دیگر مسائل بھی حل کرناہونگے ورنہ افغانستان میں ٹھہرنا مشکل ہو جائیگا اور بھارت کا سنٹرل ایشیا ء اور روس کیساتھ زمینی رابطے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

ایک پاکستانی صحافی نے پوچھا کہ آپ کشمیر کو قصہ ماضی کہہ رہے ہیں جبکہ آپ زرداری دور میں کشمیر کمیٹی کے چیئر مین رہے ہیں اورآپ نے نوازشریف سے بھی یہ عہدہ مانگ کر لیا۔ اسکا مطلب یہ کہ آپ نے کشمیر کمیٹی کی چیئرمینی ذاتی مفاد اور عیش و آرام کے لیے حاصل کی ۔ مولانا نے کہا آپ کی جو مرضی سمجھیں مجھے اسکا جواب دینے کی ضرورت نہیں۔

ایک اور صحافی نے پوچھا کہ جمعیت علمائے اسلام ھند پاکستان مخالف جماعت ہے اور آپ جنھیں علماء کہتے ہیں وہ بھارت کی خوشنودی کے لیے پاکستان مخالف بیانات کی تنخواہ لیتے ہیں ۔ آپ کے والد نے کہا تھا کہ شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے جبکہ آپ اپنے بیانات اور تقریروں میں کبھی بانی پاکستان کو قائداعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ کو مصور پاکستان نہیں کہتے۔آپ کی جماعت کا ایک رسالہ فیصل آباد سے جاری ہوتا تھا جس میں تحریک آذادی اور تخلیق پاکستان پر ہمیشہ تنقید ہوتی تھی۔ اگر یہ گناہ تھا تو آپ کو اخلاقی ، دینی اور اصولی طور پر کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ پاکستان میں سیاسی دکانداری کریں ، مفاداتی سیاست سے ملکی نظام تباہ کریں اور کبھی ایدھر اور کبھی ادھر پھدکتے پھریں ۔ کبھی آپ مارشل لاء والوں کے ساتھ ، کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی مسلم لیگ کے ساتھ ہوتے ہیں اورمال کماکر پینترا بدل لیتے ہیں۔

اس سوال پر مولانا کو جیسے سانپ سونگ گیا۔ انکا چہرہ پہلے سرخ اور پھر پیلا پڑگیا۔لمبی خاموشی کے بعد بولے کہ مجھے لگتا ہے کہ تمہارا تعلق نوائے وقت سے ہے اور تم نے اثر چوہان کا کالم "مذہبی امور کا شہزادہ فتورا"اور ڈاکٹر مقصود جعفری کاکالم "کشمیر پارلیمانی کمیٹی کی چئیرمین شپ"پڑھا ہے۔اثرچوہان نے پہلے بھی ایک کالم میں حضرت مولانا مفتی محمود ؒ جوکہ میرے والد گرامی ہیں کے متعلق لکھا ہے کہ اگر انھیں مسٹر محمودلکھا جائے تو کیسا رہیگا۔دیکھئے ہم نے بہت برداشت کیا ہے اب اگر ایسا کالم آیا تو ہم جناب سیلم صافی سے درخواست کرینگے کہ جب بھی انکا رابطہ ٹی ٹی پی کے ترجمان جناب احسان اﷲاحسان سے ہوتو ان سے درخواست کریں کہ وہ اس مسلے کو اپنی شوریٰ میں اٹھائیں ۔ جہاں تک اقبال، جناح اور پاکستان کا تعلق ہے تو یہ ہمارے نظریات کی بات جس میں تبدیلی ممکن نہیں ۔

ایک صحافی نے سوال کیا کہ مولانا آپ کے متعلق محترمہ کلثوم سیف اﷲنے اپنی کتاب "میری تنہا پرواز"میں "مولانا فضلالرحمٰن سے ٹاکرہ"کے عنوان سے ایک باب لکھا ہے جس میں انہوں نے آپ کو خواتین کیساتھ احترام سے پیش آنے کی نصیحت کی تو آپ نے پشتو میں جواب دیا کہ بہر حال میں ایک جوان آدمی ہوں ۔ میرا سوال ہے کہہ کیا جوان سیاستدان اور عالم دین کی نظروں میں حیاء نہیں ہونی چایئے ۔ مولانا نے ہنس کر جواب دیا کہ میں اب بھی جوان ہوں ۔

ایک صحافی نے پوچھا کہ مولانا آپ نہ نظریہ پاکستان کو مانتے ہیں ، نہ بانی پاکستان اور مصور پاکستان کی عزت و احترام کے قائل ہیں مگر رہتے اور کھاتے اسی ملک کا ہیں ۔کیا یہ سب آپ کو زیب دیتا ہے۔ مولانا نے کہا میں جواب دے چکا ہوں۔

ایک صحافی نے کہا کہ آپ نے سلیم صافی کو اپنا ترجمان چنا ہے جبکہ آپ نے پچھلا الیکشن ایک گریجویٹ کی حیثیت سے لڑا اور پانچ سال لیڈر آف اپوزیشن اور پھر زرداری حکومت کا حصہ رہے۔ جب طالبان نے آپ کا مکوٹھپنے کا ارادہ کیاتو آپ حکومت سے نکل آئے ۔ اگر آپ گریجویٹ ہیں تو مدرسے کی تعلیم کیساتھ آپ نے بی اے انگلش کا شرطیہ مضمون بھی پاس کیا ہوا ہے۔ جو شخص انگلش کا پرچہ پاس کر سکتا ہے اسے انگریزی بھی آنی چایئے ۔ آپ نے ترجمان رکھ کر ثابت کیا ہے کہ آپ کی ڈگری اصلی نہیں۔ مولانا نے تھوڑی سی خفگی سے جواب دیا کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور یہ بیرسٹر افتخار گیلانی کی کار ستانی ہے لہذا میں جواب نہیں دونگا۔

ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ نے میاں نواز شریف سے اتحاد کیا اور پھر ایک سال کے اندر ہی آپ نے میاں صاحب کے خلاف بغاوت کردی اور اب مخالف پارٹیوں کی آشیرباد حاصل کر کے آپ نے میاں صاحب کے لیے مشکلات پیدا کر دیں ہیں ۔ سنا ہے کہ آپ نے ایم کیوا یم ، پی پی پی ، ق لیگ کے علاوہ ن لیگ کے اراکین بھی توڑ لیے ہیں جو میاں صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی صورت میں آپ کیساتھ مل جائینگے اور میاں صاحب نے ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے جو کام شروع کیئے ہیں وہ ٹھپ ہو جائینگے ۔ کیا یہ ملک دشمنی نہیں ہے۔

مولانا نے کہا کہ بہرحال یہ سیاست ہے۔ آپ اسکا جواب شیخ رشید سے لیں کہ انکے مطابق ہم سیاست کا بحری بیڑہ ہیں۔ اگر ہم بحری بیڑہ ہیں تو باقی سب کشتیاں ہیں جو ہماری معاونت کے بغیر نہیں چل سکتیں ۔ ہم ملکی ترقی پر یقین نہیں رکھتے بلکہ شخصی ترقی کو ترجیح دیتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ میں مولانا کی پریس کانفرنس سے مزید دل برداشتہ ہوتا گھڑی نے آلارم بجا کر مجھے اس اذیت ناک خواب سے بیدار کردیا۔ میں نے سب سے پہلے ہلچل خان نیازی اور پھر طوفان خان کیانی کو فون کیا اور پوچھا کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن یورپ کے دورے پر ہیں تو دونوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں ہیں اور سلیم صافی بھی وہی ہے ۔ سلیم صافی کا پاکستان میں رہنا ضروری ہوتا ہے چونکہ جناب احسان ااﷲاحسان اسی کے ذریعے پیغام رسانی کرتے ہیں اور دونوں ہی ماضی قریب میں مولانا کے بالکے رہ چکے ہیں ۔ سلیم صافی کی صحافت کے پیچھے اکرم درانی اورجنرل افتخار شاہ کا ہاتھ رہا ہے اور اب حامدکرزائی اور امن کی آشا بھی ساتھ ہے ۔ میں نے طوفان کیانی سے پوچھا کہ پاک فوج میں خان زبردست خان نامی کوئی جرنیل ہے تو طوفان کیانی نے کہا کہ ہر جرنیل زبردست خان ہی ہوتا ہے چاہے وہ خان ہو یا اعوان۔ جنرل ضیاالحق ارائیں تھے ، ایوب خان ترین پٹھان ، یحیحٰی خان ایرانی قزلباش اور پرویز مشرف بقول شیخ رشید کے دہلی کا سیدذادہ اور شہزادہ ہے۔ میں نے دونوں دوستوں سے اپنے ڈراؤنے اور بھیانک خواب کا ذکر کیا تو کہنے لگے کہ میاں صاحب کو چوہدری نثار اور مولانا فضل الرحمٰن سے محتاط رہنا ہوگا اور عبدالرحمٰن ملک کیساتھ انصاف کرنا ہوگا۔ عبدالرحمٰن ملک اگر انصاف کے شکنجے سے بچ گیا تو میاں صاحبان ضرورپھنس جائیگے ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ پوچھتا طوفان کیانی نے حسب عادت ایک شعر سنا کر فون بند کردیا۔
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے
Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 71275 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More