فرنگی کافرانہ نظام کے تحت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں حکومت سازی کے لیئے الیکشن
کمیشن کے زیر سایہ فرشتوں کا نزول کیا ہوا کہ محلوں میں مٹھائیوں کے ٹوکرے نہیں
شہزوریں بھری ہوئی آئیں۔ جشن فتح منائے گئے۔ ڈھول بجے شہنائیاں گونجیں، رقص و سرود
کی محفلیں بھی سجیں ۔ پھولوں کا کاروبار کرنے والوں کی چاندی ہوئی۔ کچھ اہل بصیرت
اس عمل پر تڑپ اٹھے کہ کیااس قوم اور ملک کا مقدر کبھی نہ بدلے گا؟ الیکشن کمیشن کے
دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور۔ سفید ہاتھی
کالے ہاتھیوں میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ تشبیہات اور استعاروں میں اسی کا نام
استعمال ہوتا ہے۔ کچھ تبیین سے قبل یہ کہنا چاہوں گا کہ کیا پاکستانی روح افزا کی
بوتل میں فرنگی شراب ڈال کر روح افزا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ گرجا گھر کے اوپر
گنبداور ایک مینار بنا کر مسجد کیسے بن جائے گی اس کا قبلہ تو بیت الحم کی طرف ہے۔
حرام سے حلال کبھی حاصل نہیں ہوگا۔ انگریز کا نوآبادیاتی نظام تو جوں کا توں ہے۔اگر
سبھی کچھ انگریز کا دیا برقرار رکھنا تھا تو پاکستان کی کیا ضرورت تھی؟ جنہوں نے
بنایا اور قربانیاں دیں انکی سوچ افلاکی تھی اورسفید ہاتھیوں کی سوچ افرنگی ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس ملک کے عوام کا خون چوسا جارہا ہے۔ اگر آج یہ
کافرانہ نظام بدلتا ہے توظالموں اور لٹیروں کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو نناوے ہجری میں
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے امیہ خاندان کے لٹیروں کے ساتھ کیا تھا کہ
عوام کے لوٹے گئے تمام اثاثے اور ناجائز ذرائع سے جمع شدہ دولت بیت المال میں جمع
کردی گئی۔ دولت اور اقتدار کی حرص نے ایمان کا جنازہ نکال کر رکھدیا۔ ظالم اور
مظلوم کی جنگ جاری ہے۔ اب ذرا جائزہ لیں کہ جو لوگ منتخب ہوکر آئے ہیں ان کاظاہر
کیا ہے اور باطن کیا ہے؟الیکشن کمیشن کے فراہم کردہ ان افراد میں کچھ ایسے بھی ہیں
کہ جو نظام کی تبدیلی اور دشمنان اسلام امریکہ وغیرہ کی مخالفت کا عوامی مینڈیت لے
کر آئے ہیںاور انہیں ہوس اقتدار نہیں ۔نہ ہی وہ قومی خزانہ لوٹنے کے ارادوں سے آئے
ہیں انہیں فرشتے کہا جاسکتا ہے لیکن جہاں فرشتے ہوتے ہیں وہاں شیاطین بھی انکے
لبادے میں ہوتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض سے انتخابات میں دھاندلی اور انتظامیہ کی
مداخلت کی خبروں سے انتخابات کی شفافیت شدید مجروح ہوئی ہے۔ بعض مقامات پر انتظامیہ
کے منظور نظر امیدواروں کو غیر معمولی پرٹوکول دینا، بعض مقامات پر ایک سے زائد
بیلٹ پیپر ڈالنے والے افراد کوگرفتار کرنے کی بجائے پولیس اہلکاروں کا انہیں
بھگادینا، گنتی کے وقت مخصوص امیدواروں کو ریٹرننگ افسران کا بلانا اور مخالف
امیدوار پر دروازے بند کرنا، نتائج کا غیر ضروری التوا جو بعض مقامات پر ایک ہفتہ
سے زائدبھی ہوا۔ کئی مقامات پر دھاندلی کی وجہ سے دوبارہ پولنگ، کئی دوسرے مقامات
پر از سر نوگنتی سے مخالف امیدوار کی کامیابی جیسے امور سے انتخابات کے بارے الیکشن
کمیشن کا دعوی شفافیت غلط ثابت ہوا۔ حکومت سازی کے لیئے قطعی اکثریت تو کسی پارٹی
کو حاصل نہیں ہوئی۔ آزاد امیدواروں کی مارکیٹ ویلیو بڑھ گئی۔ منہ مانگے دام ملے۔
آزاد امید واروں کا ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے کہ تیل دیکھو تیل کی دھار۔ اقتدار کے
جھولے میں سوارہونے کے لیئے بھاری مینڈیٹ والی پارٹی میں شامل ہوگئے۔ الیکشن پر
فراخدلانہ اخراجات کی ریکوری کے لیئے اقتدار میں جانا نہائت ضروری ہے اور اسی مقصد
کے لیئے حضرت فضل الرحمن نے کوشش کی مگر میاں برادران کچھ زیادہ ہی ہوشیار نکلے کہ
مولوی صاحب اپنے پیادے کو آگے نہ بڑھا سکے۔ حضرت کے والد گرامی جناب ذوالفقار علی
بھٹو شہید کے شریک اقتدارہوئے اور صوبہ سرحد کی وزارت اعلی پر براجماں ہوئے ۔ توقع
تھی کہ صوبے میں شرعی قوانین کا نفاذ کریں گے مگر اتنے بڑے مفتی نے عوام کو مایوس
کیا اور اسلام سے دوری والوں نے طعنے دیئے کہ مولویوں نے اقتدار میں اسلام کی کیا
خدمت کی؟ ۔
حضرت ہر حکومت میں شامل رہتے ہیں اور اپنے مقاصد میں کامیاب رہتے ہیں۔ بعض انکے
مخالفین نے انکی شناخت مولانا ڈیزل جیسے الفاظ سے کر رکھی ہے۔ کس قدر نا مناسب ہے
لیکن اس میں قصور کس کا ہے؟ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔تاریخی حقیقت ہے کہ فضل
الرحمن صاحب کے مسلکی اکابرین نے تو قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور برصغیر میں
بسنے والے سبھی لوگوں کو ایک قوم قرار دیا تھا۔ وہ دو قومی نظریہ کے مخالف تھے اور
حضرت قائد اعظم کو نازیبا الفاظ سے مخاطب کرتے تھے۔ دارالعلوم دیو بند کی تقسیم
اسناد کی تقریب میں بتوں کی پوجا کرنے والی اندرا گاندھی چیف گیسٹ ہوا کرتی تھی۔
فضل صاحب کو نظریہ پاکستان سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے۔ ہمارے ملک میں اسلام کے
دعویدارکبھی بھی اپنے آپکو عوام کے سامنے ماڈل کے طور پر پیش نہ کرسکے لٹیروں اور
ڈاکوﺅں کی اصلاح تو نہ کرسکے خود انکے رنگ میں رنگے گئے بلکہ ان سے چند قدم آگے نکل
گئے۔ حکومتیں تشکیل پارہی ہیں۔ سعی بسیار کے باوجود فضل الرحمن صاحب تحریک انصاف کے
اقتدار کا راستہ نہ روک سکے۔ تحریک انصاف کو پہلی سیڑھی صوبہ خیبر پختون خواہ کی
حکومت کی صورت میں مل گئی۔ اگر انہیں ایک وقت کے کھانے پر گذارا کرنا پڑے تو کریں
لیکن ایک حقیقی فلاحی اسلامی حکومت کا ماڈل پیش کریں۔مرکز میں اگرچہ پرانے آزمائے
ہوئے چہرے آئے ہیں ممکن ہے کہ وہ اپنی سابقہ غلطیوں کا اعادہ نہ کریںاور ملک کو
حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے میں تاریخ ساز کردار ادا کریں۔ میاں نواز شریف صاحب
نے اپنے سابقہ آخری دور میں شریعت بل پاس کرایا تھا جو تا حال طاق نسیاں کی نذر ہے
۔میاں صاحب شریعت بل کو سینیٹ میں بلاتاخیر بھجوائیں۔حدیث شریف میں ہے کہ اچھا
مشورہ دینا بھی صدقہ ہے۔قوم کی خستہ حالی کے اس پرآشوب دور میں اقتدار میں آنے
والوں کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ کابینہ مختصر رکھیں،اہل افراد کو لیں،کابینہ میں ان
لوگوں کو لائیں جن کی سوچ عوام سے ہم آہنگ ہو۔ شومئی قسمت مسلم لیگ کے جناب شیخ
رشید احمد جیسے قابل لوگوں سے میاں صاحب دور ہیں۔ یوں بھی جناب پیر پگاڑو صاحب اور
میاں شہباز شریف کہ چکے ہیں کہ تمام مسلم لیگوں کو متحدکریں گے۔ تو اسکی ابتداء شیخ
رشید احمد سے کردیں اور انہیں داخلہ و خارجہ امور سے متعلق کوئی وزارت سونپ دیں۔خوش
قسمتی سے اس دفعہ مسلم لیگ میں چند ایک مخلص علماءدین بھی منتخب ہوگئے ہیں۔ انہیں
میں اعلی حسب و نسب سے تعلق رکھنے والے ضیائے امت حضرت پیر محمد کرم شاہ الازہری
ہاشمی رحمة اللہ علیہ کے فرزند اور جان نشین پیر سید امین الحسنات شاہ ہاشمی بھی
ہیں جن کے تعلیمی ادارے ملک بھر میں بورڈز اور یونیورسٹیز میں اعلیٰ نتائج دکھا رہے
ہیں۔ آپ علوم دینیہ اور مروجہ پر کامل دسترس رکھتے ہیں۔ وزارت مذہبی امور اور تعلیم
آپ کو دی جائیں تو قوم آپکے وسیع تجربہ سے مستفیذ ہوگی اور نصاب تعلیم کا مسئلہ
نہائت احسن طریقہ سے حل ہو گا۔ مزید برآں انکے صادق اور امین ہونے میں کوئی شک نہیں۔
چیک اینڈبیلنس ،اراکین کی بے ضابطگیوں پر گرفت کے لیئے چوہدری نثار علی خان موزوں
ہیں۔ احسن اقبال ایک دیانتدار با اصول شخص ہیں۔نیز تمام اراکین اسمبلی قومی خزانے
سے منظور شدہ مراعات سے دستبردار ہو جائیں ۔کیونکہ سبھی متمول لوگ ہیں ۔ عوام میں
انکی پذیرائی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ منتخب لوگوں کو اپنا قرب اور یوم آخرت کے خوف کا
شعور دے آمین۔ |