اس دنیائے رنگ و بو میں زندگی اتنی شکلوں میں بکھری ہوئی
ہے کہ ان کا شمار بھی مشکل ہے لیکن ان تمام زندہ چیزوں میں انسان یوں بھی
افضل ہے کہ وہ اپنے جذبات و خیالات کے اظہار پر ہی قادر نہیں بلکہ نت نئے
طریقوں سے وہ اپنی صلاحیتوں کو نئے نئے اسالیب میں تبدیل کر کے پیش کرنے کا
ہنر بھی جانتا ہے۔
شاعری قوتِ اظہار کا ایک ایسا ہی موثر اسلوب ہے جس کی تاریخ حیاتِ انسانی
کی تاریخ سے کسی بھی طرح کم نہیں۔ہم سب اس سے بخوبی واقف ہیں کہ انسانی
زندگی کسی جامد شئے کا نام نہیں ہر دور میں زندگی نئے جوڑے زیبِ تن کرتی ہے
۔ہر عہد میں اس کی خواہشات کا آسمان نیا ہوتا ہے، اس کے تجربات نئے ہوتے
ہیں۔ اس کے کرب و الم نئے ہوتے ہیں، سکون و راحت کے وسیلے نئے ہوتے ہیں اس
کے فکری ٹرانسمیٹر کی فریکوینسی تبدیل ہو جاتی ہے۔ انسانی زندگی کے اس
بدلتے ہوئے منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے مخصوص عہد کے مخصوص ادیب و
شاعر جب اپنے افکار و تجربات کی روشنی میں اپنے رائج ادبی سرمائے کا جائزہ
لیتے ہیں اور ان میں گراں قدر تبدیلی کو نا گزیر جان کر غور و فکر کے بحرِ
بیکراں میں غوطہ زن ہوتے ہیں تو ادبی صورتِ حال میں ایک بڑی تبدیلی رونما
ہوتی ہے اسے کوئی جائز قرار دیتا ہے اور کوئی نا جائز لیکن بہر حال یہ
سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
شاعری وہ کلام ہے جسے بالارادہ موزوں کیا گیا ہو۔ وہ کلام بھی شاعری ہے جو
انبساط یا انقباضِ نفس کا باعث بنے۔ شاعری اس کلام کو بھی کہا گیا جو جذباتِ
انسانی کو بر انگیختہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ شاعری کو حسین جذبات کے
حسین اور مسرت انگیزاظہار سے بھی منسوب کیا گیا اور تخیل اور جذبے کے
امتزاج کو بھی شاعری کا ہی نام دیا گیا۔ شعر و شاعری سے متعلق یہ خیالات
یقیناً میرے نہیں بلکہ ان اکابرینِ ادب کے ہیں جنھوں نے زبان کی پود کو خونِ
جگر سے سینچ کر چھتنار درخت بنا دیا لیکن یہ سوال آج بھی قائم ہے کہ آیا
شاعری کی یہ تعریف مکمل ہے؟ یقیناً نہیں کیونکہ ادب میں کچھ بھی مکمل نہیں
ہوا کرتا اور شاعری تو یقیناً ایک ایسی دلربا مخلوقِ ادب ہے جسے کسی مخصوص
تعریف کی زنجیر میں جکڑنا امرِ محال ہے۔ شاعری ابتدائے آفرینش سے ہر دور
میں انسان کی رفیقِ راز بھی رہی ہے اور رفیقِ کار بھی لیکن ہر عہد میں اس
نے اپنی شکل بھی بدلی ہے اور مزاج بھی کمال تو یہ ہے کہ ہر عہد میں جب یہ
اپنا نیا لباس زیب تن کرتی ہے تو اس کے وجود پر سوالات کھڑے کیے جاتے ہیں۔
اس کے پرستار ہی اسے قابل اعتنا سمجھنے کے روادار نہیں ہوتے اسے آزمانے کے
نئے نئے طریقے ایجاد کیے جاتے ہیں اور بالآخر پرانی کھیپ لد جاتی ہے اور
نئی نسل نئے طریقۂ اظہار کے توسط سے اسے تاریخ ادب کا حصّہ بنا دیتی ہے
ہمعصر شعرا فی الحال اردو دنیا میں اسی تشکیک و تنبیہ کے تیر سے زخمی ہو
رہے ہیں لیکن یہ سب ایک فطری طریقۂ تہذیبِ ادب ہے جس سے جہاں ایک طرف
نوواردانِ تخلیق کی لا سمتی کو نشانِ سمت کا ادراک ہوتا ہے وہیں تخلیق میں
بوجوہ داخل ہو گیا فاسد مادّہ خارج ہو کر اسے پاکیزہ بنا دیتا ہے۔ شاید
موضوع کے مطابق میری بات یہاں مکمل ہو گئی کیونکہ ہمعصر شاعری کا میں شاکی
نہیں ہوں لیکن کچھ وضاحتیں ابھی باقی ہیں۔
ہمعصر اردو شاعری کے بارے میں یہ خیال باندھنا کہ یہ تعطّل کا شکار ہے
بزرگانہ خیال ہو سکتا ہے۔ ہمعصر شعرا کی ایک کھیپ بھی اس بات کی تائید کرے
گی لیکن اگر آپ اعداد و شمار جمع کریں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ وہ
لوگ ہیں جو ہمارے عہد میں شاعری تو کر رہے ہیں لیکن ان کا راست تعلق
1950-60اور1970کے دہے میں ان بزرگوں سے رہا ہے جنھوں نے ہم سے بدرجہا بہتر
ادبی ماحول میں آنکھیں کھولیں اور اپنی راست بصارت و سماعت سے کئی تحریکات
کے دھول دھپّے سنے اور دیکھے۔ انھوں نے اساتذۂ فنِّ شعر کی قدمبوسی کی اپنے
اشعار کو اپنے اساتذہ سے صیقل کروائے لیکن افسوس کہ وہ بجائے اس کے کہ
ہمارے اشعار کی خامیوں کو خوبیوں سے مبدّل کرتے ، ہمارے لیے وہ ماحول فراہم
کرتے جس کے وہ پروردہ رہے ہیں ہماری پوری شاعری کو القط قرار دینے کے درپے
ہیں۔ کیا یہ ایک اہم سوال نہیں کہ جن لوگوں کی نظر میں ہمعصر شاعری جمود و
تعطل کا شکار ہے ان لوگوں نے بھی اپنے دور میں لکیر پیٹنے سے اجتناب کیا
تھا اور نتیجتاً انھیں لعنت ملامت کے تیر کھانے پڑے تھے۔ ہمعصر شعرا بھی
لکیر پیٹنے سے اجتناب کیا تھا اور نتیجتاً انھیں لعنت ملامت کے تیر کھانے
پڑے تھے۔ ہمعصر شعرا بھی لکیر پیٹنے کے قائل نہیں یہاں تک کہ وہ تحریکات کے
بنے بنائے گھروندوں کے بھی قائل نہیں وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں جو اب
پہلے سے زیادہ تابناک ہیں کیونکہ اب شعرا ہندوستان میں بیٹھ کر فلسطین
وعراق ہی نہیں بمریکہ اور اسرائیل کی خبریں ہی نہیں سنتے خبوروں کو بنتے
ہوئے دیکھتے ہیں۔ یقیناً کسی بھی دور کا ادب اپنے سے پیشتر کے ادبی اقدار
سے بے تعلق نہیں رہ سکتا ہمعصر شاعری بھی روایت کی قائل ہے لیکن اندھی
تقلید نہیں کرتی۔ حال اور ماضی کے مربوط رشتے کی زائیدہ بالکل نئی نسل کے
اس شعری دستخط کو آپ کیا کہیں گے۔
(1)
سمندر کو اپنا سمجھتے رہے
مگر ہونٹ رشتوں کے تپتے رہے
(خورشید اکبر)
میں نئی بات کہوں اور نئے تیور سے
میری تنقید زیادہ ہو وکالت کم ہو
(خالد عبادی)
قدم قدم پہ سفر میں ہے حادثوں کا ہجوم
پلٹ کے آنے کی گھر کون آس رکھتا ہے
(شمس رمزی)
یہ بھی سچ ہے متاعِ شعور و بصیرت سے محروم ہے
اور یہ بھی حقیقت ہے وہ جانتا ہے زبانیں کئی
(شہباز ندیم)
(2)
مسکرائیں ٹہنیاں اور رنگ و بو نے بات کی
ایک سوکھے پیڑ سے کل آبجو نے بات کی
اب مجھے کچھ اور بھی محتاط رہنا چاہیے
کانپتے لہجے میں کل مجھ سے عدو نے بات کی
(نعمان شوق)
اسی غم نے تو زندہ رکھا مجھ کو
کہاں سے لاؤں گا مر کر کفن میں
(عطا عابدی)
رات اور بے کراں فاصلہ روشنی
کیسے دیکھوں ترا راست روشنی
میرے اندر زماں در زماں ظلمتیں
اور باہر خلا در خلا روشنی
(احمد محفوظ)
زندگی کا یوں مزہ لینے میں آخر حرج کیا
پھر بنا لیں گے نشیمن چھت ٹپکنے دیجیے
(راشد انور راشد)
پرائی دھوپ سے اپنا بھلا نہیں ہوگا
ہمارے نام کی صبحیں اسی زمیں پر ہیں
(رؤف رضا)
تم کہتے ہو جیون کو پربت دریا
میں کہتا ہوں اک ماچس کی تیلی ہے
(شعیب رضا)
کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج ہم جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ عہد ہر روز بے
حیقینی کا ایک سورج طلوع کرتا ہے اور شکستہ مظاہر کی شام کو بے اعتنائی سے
سر کے نیچے رکھ کر سوجاتا ہے۔بہت تیز روشنی بھی ظلمت کو جنم دیتی ہے اور یہ
عہد ایسا ہی ظلمت کدہ ہے ہر جانب گھٹا ٹوپ اندھیرا، فلسفہ جنون و خرد سب
آپس میں ایسے دست و گریباں ہیں کہ کسی کی آنکھ میں کسی کا گھٹنا در آیا ہے
ممالک و مسالک کے حدود اسی خرد برد کا شکار ہیں۔ ندیاں، سمندر ، ہوا فضا
یہاں تک کہ خلا بھی اس چھینا جھپٹی اور آلودگی میں مبتلا ہیں ایسے میں
شاعری کا کھُردرا ہونا حیرت کی بات نہیں لطیف و ہموار ہونا حیرت کی بات ہے۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ ہمعصر شعرا کے سامنے مسائل لا متناہی ہیں لیکن
ان مسائل کو تخلیقی نہج پر قائم و دائم بنا دینے کی جو فنکارانہ چابکدستی
ہوتی ہے اس کا کسی حد تک قطح ہے۔ حامدی کاشمیری کے مطابق
’’جدید شاعری کا المیہ بھی یہی ہے کہ شاعر اپنے تجربے کے بحران کو لسانی
تصرف میں لانے میں نا کام رہتا ہے‘‘
اور اس کی وجہ صاف ہے کہ ہماری نسل کے شعرا کو نہ تو گھر میں وہ ادبی ماحول
میسّر آیا اور نہ ہی مدرسوں اور اسکول کالجوں میں۔ کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں
کہ اگر آج کے کسی شاعر کو اپنی شاعری شائع کروانی ہو اور وہ اسے کسی کو بہ
نظرِ اصلاح دکھانا چاہے تو اس سلسلے میں اسے کتنی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں
گی؟
یہ بات میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ادب میں کچھ بھی مکمل نہیں ہوا کرتا
ہمعصر اردو شاعری کے دامن پر بھی کچھ داغ ہیں لیکن اگر تجزیہ کیا جائے تو
یہ دھبّے اس معاشرتی کجروی کے ہیں جس کی بنیاد پچاس یا ساٹھ سال پہلے پڑ
چکی تھی۔ جیسے
1۔ اچھے قاری کا زوال
2۔ مشاعرے کی روایت کا زوال
3۔ استاد اور شاگرد کے بیچ دوری
4۔ اردو شعرا میں عروض سے نا واقفیت
5۔ اکادمیوں اور دیگر اردو اداروں پر سیاست کی بالا دستی
6۔ نئی نسل کے شعرا کو نصاب میں شامل نہ کرنا
7۔ بزرگ ناقدین کی بے اعتنائیاں
8۔ اور ایک بڑی وجہ خوشامد پسند ہمعصر /ناقدین کی کثرت
ان جملہ مسائل کے باوجود اگر آج ہمعصر شاعروں کے کھیسے میں زر و جواہر ہیں
اور یقیناً ہیں تو پھر اردو شاعری کو تعطل کا شکار نہیں کہا جا سکتا۔ نیا
سفر شمارہ نمبر 6میں پروفیسر عتیق اﷲ موجودہ شعر و ادب کی صورتِ حال ایک
سرسری جائزہ (خدا جانے وہ گہرائی سے جائزہ کب لیں گے یا لیں گے بھی نہیں)
میں فرماتے ہیں
’’ اس نسل کے شعرا کی سب سے بڑی قوت ان کا اعتماد ہے۔ وہ ہمارے پیشہ ور
نقادوں کے دعوں اور ہدایت ناموں پر کم ہی کان دھر رہی ہے۔حالانکہ ان شعرا
کو نہ تو وہ اردو مدارس ہی میسّر آئے، جہاں کے اساتذہ عربی فارسی قواعد اور
حتیٰ کہ عروض و آہنگ پر گہری پکڑ رکھتے تھے بلکہ ان میں اپنے طلبا کو
سکھانے اور اپنے علم کو پھیلانے کی ایک تڑپ بھی تھی۔‘‘
اس اقتباس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمعصر شعرا نے ناقدینِ ادب کے دلوں پر دستک
دینی شروع کر دی ہے۔ ڈاکٹر کوثر مظہری نے کہیں لکھا تھا کہ:
’’نئی نسل کو اگر کوئی مسئلہ در پیش ہے تو اپنی نسل کا نقاد پیدا کرنے کا
کاش اس نسل کو ایک عدد نقّاد مل جاتا‘‘
میں ان کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کیونکہ ہمعصر شعرا کی اب یہ حالت دیکھی
نہیں جاتی کہ:
فاروقیوں کی جنبشِ ابرو پہ رکھ نظر
پھر شعر کہہ کے جانبِ نارنگ دیکھنا
واضح ہو کہ ترقی پسند مصنفین کی پہلی کل ہند کانفرنس 1936میں لکھنؤ میں
منعقد ہوئی اور اس کانفرنس کے صدارتی خطبے میں پریم چند نے کہا کہ:
’’ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو،
حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو جو ہم میں حرکت ، ہنگامہ اور بے چینی پیدا
کرے۔ سلائے نہیں کیونکہ اب اور زیادہ سونا موت کی علامت ہے‘‘
پریم چند نے یہ خطبہ یوں ہی نہیں دیا تھا 1936کے بہت پہلے 1874میں جب محمد
حسین آزاد اور الطاف حسین حالی نے موجود شعری منظر نامے میں صنفِ نظم کو
متعارف اور مقبول بنانے کی مہم شروع کی تھی تو کہا تھا کہ:
’’اردو شاعری میں کچھ مضامین عاشقانہ ہیں جس میں کچھ اصل کا لطف بہت سے حست
و ارمان، اس سے زیادہ ہجر کا رونا شراب، ساقی، بہار، خزاں، فلک کی شکایت
اور اقبال مندوں کی خوشامد ہے۔ یہ مطالب بھی بالکل خیالی ہوتے ہیں اور بعض
دفعہ ایسے پیچیدہ اور دور دورکے استعاروں میں ہوتے ہیں کہ عقل کام نہیں
کرتی۔ وہ اسے خیال بندی اور نازک خیالی کہتے ہیں اور فخر کی مونچھوں پر تاؤ
دیتے ہیں۔‘‘
یعنی ایک نئی توانا آواز کی ضرورت محسوس کی جانے لگی تھی جو ادب و شعر کے
منجمد سطح کو لہراتی ہوئی موجوں میں تبدیل کردے۔
1936میں جس ترقی پسند مصنفین کی بنیاد پڑی اور آگے چل کر جس نے ترقی پسند
تحریک کی شکل اختیار کی اس تحریک سے جڑے لوگوں کو اس بات کا شدید احساس تھا
کہ ادب کو ہتھیار کی طرح استعمال کرنے کی ضرورت ہے اسے نیند کی گولی نہ
بننے دیا جائے۔
لہٰذا انھوں نے فکری تبدیلی اور مواد پر زیادہ زور دیا اور اسلوب یا
STYLEکو ثانوی حیثیت دی۔ انھوں نے اظہار کے لیے آسان اور عام فہم الفاظ کا
انتخاب کیا وہ اپنی بات کو ایک عام آدمی تک پہنچانا چاہتے تھے اور اس میں
انھیں زبردست کامیابی بھی ملی۔ ترقی پسند شعرا نے عوامی زندگی کے مسائل کو
اپنا موضوع بنایا۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں سیدھی سچی بات عام فہم انداز
میں خطابت کے لہجے میں بیان ہوتی تھی جس سے عوام دشمن طاقتوں کا پردہ بھی
فاش ہو اور عام لوگ اس کے حقیقی چہرے سے آشنا ہو کر اس سے نفرت بھی کرنے
لگیں۔
رعد ہوں، برق ہوں، بے چین ہوں پارہ ہوں میں
خود پرستار، خود آگاہ، خود آرا ہوں میں
گردنِ ظلم کٹے جس سے وہ آرا ہوں میں
خرمنِ جود جلادے وہ شرارہ ہوں میں
میری فریاد پر اہلِ دول انگشت بہ گوش
لا تبر خون کے دریا میں نہانے دے مجھے
سرِ پُر نخوتِ اربابِ زماں توڑوں گا
شورِ نالہ سے درِ ارض و سما توڑوں گا
ظلم پرور روشِ اہلِ جہاں توڑوں گا
عشرت آباد کا امارت کا مکاں توڑوں گا
توڑ ڈالوں گا میں زنجیر اسیران قفس
دہر کو پنجۂ عشرت سے چھڑانے دے مجھے
(’’باغی‘‘ مخدوم محی الدین)
فیض احمد فیض کو ترقی پسند شاعروں میں اولیت حاصل ہے ان کی آواز میں مخدوم
والا طنطنہ تو نہیں لیکن ان کی نظموں کو پڑھ کر اندرونِ دل سے ایک آہ ضرور
نکلتی ہے اور سننے والا ظلم اور ظالم دونوں کا دشمن ہو جاتا ہے۔
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے
جا بہ جا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے
یہ وہ دور ہے جب پورے ہندوستان میں آزادی کی لڑائی زوروں پر ہے اورانگریز
اس جدو جہد کو کچلنے کے لیے اپنی پوری طاقت کا استعمال کر رہے ہیں جہاں ایک
طرف نوجوانانِ ہند ان کی گولیوں سے چھلنی ہو کر وطن کی مٹی کو سرخ کر رہے
ہیں وہیں ترقی پسند شعرا اپنی شاعری سے ان میں جوش و ولولہ پیدا کر رہے
ہیں۔ انھیں اپنی محبوبہ عزیز ہے لیکن جدو جہد کی قیمت پر نہیں۔یہی وہ
نمایاں تبدیلی ہے جو ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر اردو شاعری میں ہوئی اور
شاعری نے اپنے عہد کے مسائل سے رشتے استوار کر لیے۔ ان کی شاعری میں نہ صرف
ملک کے مسائل بلکہ بین الاقوامی مسائل بھی بڑے اہتمام سے داخل ہوئے اور ادب
کا حصّہ بن گئے۔ فیض کی شاعری میں افریقہ ہو کہ ہندوستان فلسطین ہو کہ
بیروت ظلم کی چکّی جہاں بھی چلتی ہے فیض کا دل پستا ہے اور وہ چیخ پڑتا ہے۔
بیروت کے حوالے سے فلسطینی بچے کی لوری سنیے۔
مت رو بچے
رو رو کے ابھی
تیری امّی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچے
کچھ ہی پہلے تیرے ابّا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچے
تیرا بھائی اپنے خواب کی تتلی پیچھے دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچے
تیرے آنگن میں
مردہ سورج نہلائے گئے ہیں، چندر ماں دفنائے گئے ہیں
امّی ابّا باجی بھائی
چاند اور سورج
روئے گا تو اور بھی تجھ کو رلوائیں گے
تو مسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے
جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ترقی پسند شعرا کے نزدیک سب سے بڑا
مسئلہ یہ تھا کہ عوام کو عوام کی زبان میں ان کے اپنے ہی دکھوں سے آگاہ کر
دیا جائے تاکہ وہ کسی الجھن کا شکار ہوئے بغیر اپنے مسائل سے نبرد آزما
ہونے کے لیے تیار ہو جائیں فیض کی ایک اور نظم دیکھیں۔
جب دکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل بانہوں میں
لوہو میں کتنی لالی تھی
یوں لگتا تھا دو ہاتھ لگے
اور ناؤ پورم پار لگی
ایسا نہ ہوا ہر دھارے میں
کچھ ان دیکھی مجدھاریں تھیں
کچھ مانجھی تھے انجان بہت
کچھ بے پرکھی پتواریں تھیں
اب بھی چاہو چھان کرو
اب جتنے چاہے دوش دھرو
ندیا تو وہی ہے ناؤ وہی
اب تم ہی کہو کیا کرنا ہے
اب کیسے پار اترنا ہے
جب اپنی چھاتی میں ہم نے
اس دیس کے گھاؤ دیکھے تھے
تھا ویدوں پر وشواس بہت
اور یاد بہت سے نسخے تھے
یوں لگتا تھا بس کچھ دن میں
ساری بپتا کٹ جائے گی
اور سب گھاؤ بھر جائیں گے
ایسا نہ ہوا
کہ روگ اپنے کچھ ایسے ڈھیر پرانے تھے
وید ان کی ٹوہ کو پانہ سکے
اور ٹوٹکے سب بیکار گئے۔
(’’تم ہی کہو کیا کرنا ہے‘‘ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘)
اب ان نظموں کی کوئی کیا تشریح کرے سب کچھ صاف اور سیدھی دل میں اتر جانے
والی شاعری مخدوم اور فیض کے علاوہ ترقی پسند شاعری کو معیار بخشنے میں
مجاز، مجروح، علی سردار جعفری،جوش ملیح آبادی، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی،
سلام مچھلی شہری، عزیز قیسی، جاں نثار اختر، احمد ندیم قاسمی ، وامق
جونپوری، احسان دانش اور معین احسن جذبی وغیرہ اہم نام ہیں۔
ان شعرا میں مجاز نے ترقی پسند تحریک کے اوائل عمری میں ہی اسے اپنا سب کچھ
دے دیا ان کی نظم ’’انقلاب‘‘ کا یہ بند دیکھیں:
چھوڑدے مطرب بس اب ﷲ پیچھا چھوڑ دے
کام کا یہ وقت ہے کچھ کام کرنے دے مجھے
تیرے ہی نغمے سے وابستہ نشاطِ زندگی
بزمِ ستی کا مگر کیا رنگ ہے یہ بھی تو دیکھ
ہر زباں پر اب صلائے جنگ ہے یہ بھی تو دیکھ
آ رہے ہیں جنگ کے بادل وہ منڈلاتے ہوئے
آگ دامن میں چھپائے خون برساتے ہوئے
یا پھر ان کی نظم سرمایہ داری کا یہ بند:
یہ اپنے ہاتھ میں تہذیب کا فانوس لیتی ہے
مگر مزدور کے تن سے لہو تک چوس لیتی ہے
غریبوں کا مقدس خون پی پی کر بہکتی ہے
محل میں ناچتی ہے رقص گاہوں میں تھرکتی ہے
بظاہر چند فرعونوں کا دامن بھر دیا اس نے
مگر کل باغِ عالم کو جہنم کر دیا اس نے
(سرمایہ داری)
ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو شاعری ظہور پذیر ہوئی اس شاعری نے اردو
شاعری کو بین الاقوامی شاعری کے شانہ بشانہ کھڑا کر دیا۔ہندوستان میں ترقی
پسند تحریک کے بانی سید سجاد ظہیر جب بٹوارے کے پاکستان چلے گئے اور وہاں
ترقی پسند تحریک کا جھنڈا بلند کیے رہے تو یہاں ہندوستان میں علی سردار
جعفری نے ترقی پسند تحریک کی کمان سنبھالی۔ مخدوم اور فیض کے بعد سردار
جعفری کی شاعری نے بھی اردو شاعری کے دامن کو مضامینِ نو سے پُر بہار کیا
ان کی صرف ایک نظم جمہور کا یہ بند نہیں۔
یہ ہندوستاں رشکِ خلدِ بریں
اگلتی ہے سونا وطن کی زمیں
کہیں کوئلہ اور لوہے کی کان
کہیں سرخ پتھر کی اونچی چٹان
یہ گنگا کا آنچل یہ جمنا کا ریت
یہ دھان اور گیہوں کے شادب کھیت
ہمارے مقدر میں افلاس ہے
غلامی کی ہر جسم میں باس ہے
کہیں ماؤں بہنوں کا بے مول تول
کہیں بے حیائی کے بجتے ہیں ڈھول
سردار جعفری کی نظم ہاتھوں کا ترانہ، اودھ کی خاکِ حسیں، مشرق و مغرب،
ایشیا جاگ اٹھا ایسی نظمیں ہیں جنھیں پڑھ کر ترقی پسند تحریک کے افکار و
نظریات کو سمجھاجا سکتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا اردو زبان و ادب پر بڑا
احسان یہی ہے کہ اس نے اردو کے شعرا و ادبا کو سوچنے اور سمجھنے کے لیے ایک
زندگی کا ایک بہت بڑا کینوس دیا اور ہم نے دیکھا کہ آزادی کے بعد سے آج تک
اردو کے شعرا نے جس طرح زندگی کے ہر رنگ کو شعری سانچے میں ڈھال کر ہمارے
سامنے پیش کیا اس کی وجہ وہی ویژن ہے جو ترقی پسند تحریک نے ہمیں ودیعت کی
تھی۔آخر میں ایک بات بتاتا چلوں کہ اس ترقی پسندی نے ہندوستانی فیچر فلموں
پر بھی اپنے اثرات مرتب کیے ہیں آپ چند ناموں سے تو واقف بھی ہیں ان میں
کیفی اعظمی ایک اہم نام ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی ترقی پسند تحریک کے
لیے وقف کردی ، فلموں کے گانے لکھے لیکن وہاں بھی اپنی بات کہنے سے نہ چوکے
اس بات سے کسے انکار ہوگا کہ :
کر چلے ہم فدا جان و تن ساتھیو
اب تمہارے حوالے وطن ساتھیو
کو سن کر بڑے بڑے پتھر دل انسان کی آنکھیں بھی آنسو بہانے لگتی ہیں اور جب
وہ کہتے ہیں زندہ رہنے کے موسم بہت ہیں مگر
جان دینے رُت روز آتی نہیں
حسن اور عشق دونوں کو رسوا کرے
وہ جوانی جو خوں میں نہاتی نہیں
آج دھرتی بنی ہے دلھن ساتھیو
اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو
کھینچ دو اپنے خوں سے زمیں پر لکیر
اس طرف آنے پائے نہ راون کوئی
توڑ دو ہاتھ اگر ہاتھ اٹھنے لگے
چھونے پائے نہ سیتا کا دامن کوئی
رام تم ہی تم ہی لکشمن ساتھیو
اب تمھارے حوالے وطن ساتھیو
یا پھر وہی شاعر آزادی کے بعد کے ہندوستان کو دیکھ کر پکار اٹھتا ہے۔
ہاتھوں میں کچھ نوٹ لو پھر چاہے جتنے نوٹ لو
کھوٹے سے کھوٹا کام کرو باپو کو نیلام کرو
باپو باپو کرتے رہو نہ ہر دلوں میں بھرتے رہو
پرانت پرانت کو تنگ کرے بھاشا سے بھاشا جنگ کرے
سب کو چاہیے اپنی زمیں ہندوستانی کوئی نہیں
یا پھر
وقت نے کیا کیا حسیں ستم
تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم
جائیں گے کہاں سوجھتا نہیں
چل پڑے مگر راستہ نہیں
کیا تلاش ہے کچھ پتا نہیں
بن رہے ہیں دل خواب دم بدم |