کیاپاکستانی انتخابات شفاف ہوئے؟

11 مئی پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم دن تھاکیونکہ پوری پاکستانی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی جمہوری حکومت نے اپنے دورحکومت کی معیادپوری کی ۔ورنہ پاکستان کی تاریخ اُٹھاکردیکھیئے تومعلوم ہوتاہے کہ شروع سے ہی اس ملک کے عامروں نے ہمیشہ جمہوریت کاگلاہی گھونٹا۔یہی نہیں ان عامروں کے دورحکومت میں متعددچوٹی کے رہنمااورجمہوری سوچ رکھنے والے مایہ نازلیڈراپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھوبیٹھے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم لیاقت علی خان، ذولفقارعلی بھٹ اوربے نظیربھٹوکے اسمائے گرامی پیش کرسکتے ہیں جنھوں نے پاکستان میں جمہوریت کوبحال کرنے کےلئے اپنی جانوں کی قربانی دینے سے بھی گریزنہیں کیا۔2008 میں جب بے نظیربھٹوکی شہادت کے بعدعام انتخابات ہوئے توعوام کی ایک کثیرتعدادنے پاکستان پیپلزپارٹی کوووٹ دیااوراس طرح یہ پارٹی دوسری پارٹیوں سے مل کرجمہوری حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ابتداءمیں اس عمل میں نوازشریف کی سیاست جماعت ن ۔لیگ کابھی ہاتھ رہالیکن بعدمیں ن۔لیگ نے اپنے ہاتھ واپس کھینچ لئے۔ بہرحال اختلافات کے باوجودبھی عدلیہ اپوزیشن لیڈران نے فوج اوربعض جمہوری اداروں نے جمہوریت کے عمل میں کسی بھی طرح کی کوئی دخل اندازی نہیں کی اوریوں پاکستان پیپلزپارٹی نے پہلی دفعہ مملکت خدادادپاکستان پرپورے پانچ سال حکومت کی۔ اس حکومت کی گذشتہ پانچ سالوں میں کیاکارکردگی رہی ۔اس بحث میں یہاں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے لیکن پاکستانی عوام مبارکبادکے مستحق ہیں کیوں کہ انہوں نے پہلی دفعہ جمہوریت کی جڑوں کومستحکم کرنے کی کوشش کی۔ جب 2013 کے انتخابات کااعلان ہواتوکارگذارسرکارقائم ہوئی جس کی نگرانی میں ہی یہ انتخابات مکمل ہوئے۔اس دوران مسلم لیگ ن اورتحریک انصاف پاکستان نے الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ خاص کرپنجاب میں ان دونوں سیاسی جماعتوں نے بڑے بڑے جلسے منعقدکرکے رائے دہندگان کواپنی طرف موڑنے کی کوشش کی ۔یوں لگ رہاتھاکہ عمران خان کی تحریک انصاف اورنوازشریف کی ن ۔لیگ میں کانٹے کی ٹکرہوگی کیوں کہ عمران خان پورے پنجاب میں ایک مقبول لیڈرکے طورپراُبھرکرسامنے آرہے تھے ۔ اُن کے انتخابی جلسوں سے یہ صاف ظاہرہورہاتھاکہ وہ کوئی بڑاکارنامہ انجام دینے جارہے ہیں۔ادھرنوازشریف اورشہبازشریف بھی عمران خان کوہرانے میں کوئی کثرباقی نہیں چھوڑرہے تھے ۔ پاکستان پیپلزپارٹی ،متحدہ قومی مومنٹ اوردیگرجماعتوں نے اس تاریخی الیکشن کی مہم میں بالکل حصہ نہیں لیاکیوں کہ انہیں پاکستان تحریک طالبان سے ایساکرنے کی زبردست دھمکی ملی ہوئی تھی۔متحدہ قومی مومنٹ کے چیئرمین الطاف حسین لندن سے ہی ویڈیوکے ذریعے اپنی مہم چلاتے رہے جوزیادہ سودمندثابت نہیں ہوئی ۔اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی مہم اشتہارات تک ہی محدودرکھی۔اندازہ یہ لگایاجارہاتھاکہ پاکستان کی کسی بھی سیاسی پارٹی کوواضح اکثرنہیں ملے گی اورہندوستان کی طرح یہاں بھی ایک مخلوط سرکارقائم ہوگی لیکن الیکشن نتائج کاجب اعلان ہونے لگاتونہ صرف پاکستانی عوام حیرت زدہ ہوئے بلکہ پورے برصغیرکے عوام بھی حیران ہوئے کیوں کہ الیکشن نتائج کے مطابق ن ۔لیگ سادہ اکثریت کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی ۔ عمران خان اُس وقت شوکت خانم کینسرہسپتال میں زیرعلاج تھے۔ علالت کی حالت میں ہی انہوں نے اپنی شکست قبول توکی لیکن ساتھ میں ہی یہ اعلان بھی کردیاکہ انتخابات شفاف نہیں ہوئے ہیں اورپورے پنجاب میں ن ۔لیگ نے بڑے پیمانے پرانتخابی دھاندلیاں کی ہیں ۔ تحریک انصاف کے کارکنان نہ صرف پنجاب میں ان دھاندلیوں کے خلاف سڑکوںپراُترآئے بلکہ کراچی میں بھی اس پارٹی کے کارکنان نے خوب ہلہ غلہ مچایا۔ تحریک انصاف کے کارکنان نے لاہوراورکراچی میں انتخابی دھاندلیوں کے خلاف پرزورمظاہرے اوردھرنے دیئے ۔جماعت اسلامی،متحدہ قومی مومنٹ اورپاکستان پیپلزپارٹی نے بھی ملک کے دوسرے شہروں میں بھی کچھ ایساہی کیا۔ اُمیدواروں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کوتحریری شکایتیں بھی درج کرائیں ۔بعض حلقوں میں الیکشن کمیشن نے دوبارہ پولنگ کے احکامت جاری کئے اوربعض میں دوبارہ ووٹوں کی گنتی کرائی گئی ۔ادھرپاکستان کے مشہورومعروف ٹی وی چینل جیونے ثبوتوں کے ساتھ یہ خبرنشرکردی کہ پاکستان میں بڑی تعدادمیں ووٹ چوری ہوئے ہیں ۔اس چینل کے مطابق کوئٹہ ، خیبرپختون خواہ کے علاوہ علاوہ پنجاب کے بڑے انتخابی حلقوں میں انتخابی دھاندلیاں ہوئی ہیں ۔گلیوں اورکھیتوں سے ملے ہوئے ووٹوں کوپیش کرکے جیونیوزنے یہ مطالبہ کیاکہ ووٹ چوری کے خلاف الیکشن کمیشن نہ صرف نوٹس لے بلکہ قصورواروںکو کڑی سے کڑی سزابھی دی جائے۔بعض پولنگ اسٹیشنوں سے ووٹ ملے۔متحدہ قومی مومنٹ کے چیئرمین الطاف حسین نے پورے پاکستان میں دوبارہ انتخابات کرانے کامطالبہ کیا۔اُمیدواروں نے الیکشن کمشنرکوبھی نہیں بخشااورکہاگیاکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خودیہ انتخابی دھاندلیاں کرائیں۔نگران حکومت بھی اس تنقیدکی زدمیں آگئی۔ ادھرپاکستان میں مقیم برطانیہ کے ہائی کمشنرنے اپنے ایک بیان میں کہاکہ پاکستان کے حالیہ انتخابات 94 فیصدشفاف رہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھی یہی دعویٰ کرتاہے لیکن ساتھ ہی موصول ہوئی شکایات کی تحقیق بھی کررہاہے۔انتخابات میں الزام تراشی کایہ سلسلہ تادم تحریرجاری ہے ۔اس کوزیادہ ہوادے رہاہے ۔پاکستان کاجیونیوزجوہرروزکہیں نہ کہیں سے چوری کے ووٹ ڈھونڈکریہ ثابت کررہاہے کہ پاکستان کاووٹ بڑی تعدادمیں چوری ہواہے ۔یہ نیوزچینل مختلف تجزیہ کاروں کااس سلسلے میں آئے دن تجزیہ بھی کرارہاہے ۔ اس نیوزچینل کے مطابق ووٹ چوروں نے پورے پاکستانی انتخابات کومشکوک کردیاہے۔

الیکشن میں ووٹوں کی دھاندلی کوئی غیرمعمولی واقعہ نہیں ہے ۔ اس قسم کی حرکتیں اکثرانتخابات میں ہوتی رہتی ہیں ۔ہندوستان جودُنیاکاسب سے بڑاجمہوری ملک ہے اس کے انتخابات میں کبھی کئی جگہ اس قسم کی دھاندلیاں ہوتی ہیں۔ دوبارہ الیکشن منعقدکراکرعوام کی تشفی بھی کرائی جاتی ہے اورپاکستان میں چونکہ اس الیکشن میں اکثرانتخابی حلقوں میں ووٹ چوری ہوئے ہیں اس لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان کافرض بنتاہے کہ وہ تحقیقات کراکران سبھی حلقوں میں دوبارہ سے فوج کی نگرانی میں الیکشن کرنے کے احکامات صادرکرے ۔یہی نہیں بلکہ ووٹ چوروں کوکڑی سے کڑی سزاسے بھی نوازے تبھی پاکستانی عوام کااعتمادجمہوریت پربحال ہوسکتاہے اوریہ پودااورزیادہ پھل پھول اورپنپ سکتاہے ورنہ پاکستان کاماضی ہمارے سامنے ہے لیکن ماضی اپنے آپ کودوبارہ نہ دہرائے ۔
Professor Shohab Inayat Malik
About the Author: Professor Shohab Inayat Malik Read More Articles by Professor Shohab Inayat Malik: 7 Articles with 4440 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.