ملک کے پہلے اور اب تک کے آخری مسلمان وزیر داخلہ مفتی محمد سعید کا شمار
ہماری ریاست کے اُن دور اندیش سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی
مفکرانہ سوچ، دور اندیش خیالات اور سیکولر کردار کی وجہ سے ملکی سیاست پر
انمٹ نشانات چھوڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی مفتی سعید کا شمار ہندوستان
کے چوٹی کے رہنماﺅں میں ہوتا ہے۔ اگر چہ کہ اُنہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا
بیشتر حصہ کانگریس میں گزارا اور اس پارٹی کے کئی اہم عہدوں پر فایض بھی
رہے لیکن 1998ءمیں انہوں نے ملکی سیاست کو خیر آباد کہہ کر اپنی ریاست کے
عوام کی خدمت کرنے کا فیصلہ لیا اور یوں اپنے ہم خیال ساتھیوں سے مل کر
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی۔ڈی۔پی) کا قیام عمل میں لایا۔ اُس وقت ریاست کے
عوام گذشتہ بیس(20) برس کی افراتفری کی وجہ سے بے جینی اور بیقراری کی
زندگی بسر کر رہے تھے کشمیر میں جہاں اخوانی لاچار قوم کو تنگ کرنے میں
مصروف تھے وہیں سرکاری دھشت گردی بھی عروج پر تھی کرفیو، تلاشیوں، بے
گناہوں کا خون اور گرفتاریوں کی کی وجہ سے پوری ریاست میں ایک عجیب طرح کی
صورت حال پیدا ہوگئی تھی۔ ملی ٹینٹوں کا خوف، بندوق کا ڈر اور بے روزگاری
کی وجہ سے بھی ریاستی عوام کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ حکمران جماعت کے سامنے چوں
کہ اپوزیشن نام کی کوئی چیز سامنے نہیں تھی اس لئے وہ بھی دونوں ہاتھوں سے
ریاست کو لوٹنے میں مصروفِ عمل تھی۔ ایسے ہی حالات مفتی سعید کو ملکی سیاست
سے واپس ریاستی سیاست میں لائے۔ ان سے ریاست کے عوام کی یہ مفلوک الحالی
نہیں دیکھی گئی۔ انہیں یہ محسوس ہوا کہ قوم کو اس وقت ان کی سخت ضرورت ہے
اسلئے وہ قوم کی خدمت کرنے کے لئے میدان میں کود پڑے اور یوں انہوں نے
آزادی کے بعد پہلی دفعہ ایک مضبوط اپوزیشن پارٹی پی۔ڈی۔پی کا قیام عمل میں
لایا جو بہت جلد ایک تحریک بن کر اُبھری۔ آزادی کے بعد چوں کہ ریاستی عوام
کا ایک مخصوص جماعت نے زندگی کے ہر شعبہ میں استحصال کیا ہوا تھا اسی لئے
انہوں نے مفتی سعید کی ہر آواز کو لبیک کہا جسکا نتیجہ2002ءکے انتخاب میں
نکلا جس میں اس نو زائیدہ سیاسی جماعت نے اسمبلی کی 16سیٹوں پر قبضہ جمایا
اسکا سہرا مفتی محمد سعید کے سر ہی جاتا ہے جنھوں نے اپنے وسیع سیاسی تجربے
اور مفکرانہ ذہن کی وجہ سے ریاستی عوام کو پہلی دفعہ ایک مخصوص سیاسی جماعت
کی اجراداری کے شکنجے سے آزاد کرنے کی کامیا ب کوشش کی۔
ریاستی اسمبلی میں صرف 16نشستیں ہونے کے باوجود کانگریس کے ساتھ مل کر
Common Minimum Programmeپر دستخط کرنے کے بعد مفتی صاحب ریاست جموں و
کشمیر کے وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس کرسی پر انہیں صرف تین سال کام کرنے کا
موقع ملالیکن ان کی وسیع النظری ، گہرے سیاسی شعور اور دانش مندانہ سوچ کی
وجہ سے ریاست جموں و کشمیر نے زندگی کے مختلف شعبوں میں حیرت انگیز ترقی کی۔
اخوانیوں کا راج ختم ہوگیا ڈر اور خوف کی فضا بھی تبدیل ہوئی عوام کو گن
کلچر سے راحت مل گئی۔ پڑوسی ملک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے۔ آرپار تجارت
شروع ہونے کی وجہ سے نفرتیں محبتوں میں تبدیل ہوگئیں۔ ہیلنگ ٹچ (Healing
Touch)پالیسی کو عملی طور پر لاگو کرکے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو دوبارہ راہِ
راست پر واپس لانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بے روزگار نوجوانوں کے لئے روزگار کے
مواقع فراہم کئے گئے سب سے بڑھ کر آزادی کے بعد پہلی دفعہ ریاست کے تینوں
خطوں کو برابر کا حق ملا۔ ہنگامی سطح پر پوری ریاست میں تعمیرارتی کام ہوئے
سڑکوں کو وسیع کیا گیا ، تعلیمی نظام میںبہتری لائی گئی اور سب سے زیادہ یہ
کہ عوام عزت و وقار کی زندگی بسر کرنے لگے۔ مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے
لئے ایک پر فضا ماحول تیار ہوا، رشوت خوری کی بدعت میں بڑی حد تک کمی آگئی
ریاست بجلی کے بحران سے باہر نکل آئی۔ عوام کے مطابق مفتی سعید کا یہ دور
تاریخی اعتبار سے سنہرے حروف میں لکھے جانے کے اس لئے قابل ہے کیوں کہ
آزادی کے بعد پہلی دفعہ کسی حکومت نے عوام کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دی۔
یہ سب اُسی وقت ممکن ہوسکا جب مفتی صاحب جیسے دور اندیش سیاست داں نے ذاتی
دلچسپی لے کر حکومت کے مختلف اداروں کو یہ احکامات جاری کئے کہ اُن کا
بنیادی کام رشوت خوری نہیں بلکہ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنا ہے۔
ریاست کے اس مایہ ناز سیاست دان نے اگر چہ صرف تین سال بحثیت وزیر اعلیٰ اس
حساس ریاست پر حکومت کی لیکن یہ تین سال کا دور ِ حکومت ریاست کی عوام
بلالحاظ مذہب و ملت آج بھی یاد کرتے ہیں۔
مفتی محمد سعید مسئلہ کشمیر کے پر امن حل کے متمنی ہیںَ اس متنازعہ مثلے کو
حل کرنے کے لئے انہوں نے ایک فارمولہ تیار کیا جسے ’سیلف رول‘ کانام دیا
گیا۔ یہ فارمولہ نیشنل کانفرنس کے اٹانومی فارمولے سے اس لئے مختلف ہے کیوں
کہ اس میں نہ صرف آر پار تجارت پر زور دیا گیا ہے بلکہ سرحدوں کو غیر ضروری
بنانے کی بھی بات کی گئی ہے مشترکہ کونسل کے قیام کے علاوہ سیلف رول برِ
صغیر میں جموں و کشمیر کی تاریخی حیثیت بحال کر نے کے لئے روایتی راستوں کو
کھولنے کا عزم بھی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ فارمولہ AFSPAکو بھی ختم کرنا
چاہتا ہے اس فارمولے کے مطابق ریاست کااپنا صدر ہوگا فوجی انحلاءکے علاوہ
آئین ہند کی دفعہ 356کے خاتمے پر بھی سیلف رول واضح طور پر زور دیتا ہے۔
ریاستی انتظامیہ میں مقامی لوگوں کی بالا داستی، ریاست کے خصوصی آئین کا
احترام ، اقتصادی خود کفالت اور باعزت روزگار کی ضمانت کے لئے ریاست کے آبی
و دیگر وسائل کی واپسی کے علاوہ سیلف رول ریاست کے تینوں خطوں اور ذیلی
خطوں کے درمیان اختیارات کی منتقلی اور ترقی کے برابر موقع فراہم کرنے پر
بھی زور دیتا ہے۔ آئین ہند کے اندر مرتب کیا گیا مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے
لئے مفتی صاحب کا تیار کردہ یہ فارمولہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہترین
فارمولہ اس لئے ہے کیوں کہ اس میں ریاست کے تینوں خطوں کے عوام کے بنیادی
مسائل کو حل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ بلدیاتی سطح تک اقدار کی منتقلی فوجی
انحلاء AFSPAکا خاتمہ وہ مسائل ہیں جو اس اہم مثلے کے پر امن حل کے لئے آئے
دن روڑ ا انٹکا رہے ہیں۔اس اہم فارمولے کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے مفتی
صاحب دن رات کام کررہے ہیں اسی لئے انہوں نے اس فارمولے کو اپنی پارٹی کا
عہد بھی بنا لیا ہے۔
مفتی محمد سعید جہاں ایک دور اندیش سیاست داں اور گہرے مفکر ہیں وہیں ایک
شعلہ بیان مقرر بھی ہیں۔ دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرنے کا ہنر وہ بخوبی
جانتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت ہمیں ان سیاسی جلسوں میں بخوبی مل جاتا ہے جہاں
مفتی صاحب اپنے الگ انداز میں دلائل کے ساتھ کسی بھی موضوع پر اسطرح بات
کرتے ہیں کہ سننے والا نہ صرف دنگ رہ جاتا ہے بلکہ وہ سوچنے پر بھی مجبور
ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہ قد آور سیاست داں جب کسی جلسے میں خطاب
کرتا ہے تو سننے ولوں کا ایک طوفان امڈ آتا ہے۔ سیکولر خیالات رکھنے والا
یہ مایہ ناز سیاست داں ہر طبقے اور ہر فرقے میں نہ صرف مقبول ہے بلکہ مذہب
کے نام پر سیاست کرنا ان کے نزدیک گناہِ عظیم ہے کیوں کہ ان کے مطابق ہر
مذہب آپسی بھائی چارے، امن، سلامتی اور انسانیت کا درس دیتا ہے۔ دوسرے
سیاسی رہنماﺅں کی طرح مفتی صاحب نے کبھی بھی مذہب کو اپنے لئے آلہ ¿ کار
نہیں بنایا بلکہ انہوں نے انسانی اقدار کو مضبوط کرنے کے لئے ہندوستان کے
طول و عرض میں کام کیا۔ اپنی کرسی کی پرواہ کئے بغیر وہ متعدد دفعہ انسانی
جانوں کے ضائع ہونے پرچینخ پڑے۔ انسانی اقدار کو مضبوط کرنے کے لئے انہوں
نے اپنی کرسی کی اُس وقت قربانی دی جب وہ ہندوستان کے وزیز سیاحت تھے۔
انہیں انسانی جانیں تلف ہونے کا اتنا غم ہوا کہ اس کے احتجاج میں انہوں نے
ہندوستان کی اہم وزارت سے استعفیٰ دے کر دوسروں کے لئے ایک مثال قائم کردی۔
یہ اخلاقی جرت بہت کم سیاست دانوں میں پائی جاتی ہے۔ آج کل کے بیشتر سیاست
داں انسانی خون پر اپنی سیاست چمکاتے ہیں جس کی بدترین مثال ہماری ہی ریاست
میں مل جاتی ہے جہاں آئے دن انسانی خون کی ندیاں بہتی ہیں لیکن کیا مجال کہ
ہمارے سیاست داں اپنی کرسیوں سے ٹس سے مس ہوجائیں اس سے زیادہ بدقسمتی کی
بات اور کیا ہوسکتی ہے۔
مفتی محمد سعید میں ایک اچھے قائد کی تمام خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ
اپنی پارٹی کے کارکنان کی نہ صرف عزت کرتے ہیں بلکہ انہیں صاف و شفاف سیاست
کے گُر بھی سکھاتے ہیں ۔ یہی نہیں ان کارکنان سے وہ کام لینے کا ہنر بھی
جانتے ہیں ۔ آج لوگوں کا ایک طوفان پارٹی کی پالیسی اور قائد انہ صلاحیتوں
کی وجہ سے پی۔ڈی۔پی پارٹی میں اس لئے شامل ہو رہاہے کہ انہیں مفتی صاحب پر
بھروسہ ہے کہ وہ ریاست کی ڈوبتی نیا کو ضرور پار لگادیں گے ۔ آج حکمران
جماعت بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر رہ گئی ہے اسی لئے وہ پی۔ڈی۔پی کے خلاف جھوٹا
Propagandaکرنے میں مصروف عمل ہے اور راقم کو یہ یقین ہے کہ یہ
Propagandaصرف اپنی حکومت کی ناکامیابیوں کو چھپانے کے لئے کیا جارہا ہے۔
پی۔ڈی۔پی ریاست کے تینوں خطوں میں ایک تحریک بن کر اُبھری ہے یہ بات
2014ءکے الیکشن میں اُس وقت ثابت ہوگی جب اس کے ممبران ریاست کے بیشتر
اسمبلی حلقوں میں سرخرو ہوکر نیا کشمیر کی بنیاد ایک دفعہ پھر ڈالیں گے۔
مفتی صاحب نے جس پودے کو1998ءمیں لگایا تھا وہ آج ایک تناور درخت اختیار
کرچکا ہے ۔ اس کاروان میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جسکا سہرا اس دور
اندیش سیاست داں کے سر ہی جاتا ہے ۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
راہ رو ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا |