مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد
نواز شریف نے تقریباً ساڑھے 13 برس بعد تیسری بار وزارت عظمیٰ سنبھال لی ہے۔
ان کے پہلے دونوں دور لڑائی جھگڑوں کی نذر ہوگئے تھے۔ایک بار صدر غلام
اسحاق خان سے الجھ کر حکومت گنوابیٹھے اور دوسری بار فوج سے لڑائی چھیڑ کر
تختہ دار پر چڑھتے چڑھتے بچے۔ لوگ کہتے ہیں اب یہ 90ء کی دہائی والے نواز
شریف نہیں رہے ہے، انہوں نے ماضی کے تلخ تجربات سے بہت کچھ سیکھاہے ۔وہ
مثال دیتے ہیں بلوچستان میں اکثریتی پارٹی ہونے کے باوجود تیسرے نمبر پر
آنے والی قوم پرست جماعتوں کو وزارت اعلیٰ کا تحفہ دینا نواز شریف کی وسعت
قلبی کا شاندار مظاہرہ ہے ۔ خیبرپختونخوا میں حکومت بنانے کے پورے پورے
مواقع دستیاب تھے لیکن لیگی سربراہ نے تحریک انصاف کے مینڈیٹ کو تسلیم کرکے
محاذ آرائی سے گریز کی بہترین حکمت عملی اپنائی۔ ایم کیو ایم اور ن لیگ میں
کافی عرصہ سے کھینچا تانی جاری ہے۔ پچھلے دنوں شہباز شریف نے متحدہ قومی
موومنٹ کی قیادت کے بارے میں جس طرح مثبت لہجے میں باتیں کیں اس سے مفاہمت
کے اشارے ملتے ہیں۔ بلاشبہ یہ تمام باتیں اس چیز کی علامت ہیں کہ میاں صاحب
لڑائی کے موڈ میں نہیں ہیں۔ بدگمانی کوئی اچھی بات نہیں مگر یہ بھی حقیقت
ہے کہ ابتدائے عشق میں تو مجنوں کے پاؤں بھی درست جگہ پر ہی پڑتے ہیں۔ قدم
تب لڑکھڑاتے ہیں جب نشہ دماغ پر چڑھ جائے۔ سیاست دان بھی بڑی عاجزی اور
میٹھی میٹھی باتوں سے اقتدار کا سفر شروع کرتے ہیں، لیکن جوں جوں اختیارات
کا نشہ چڑھنے لگتا ہے ان کا دماغ بھی آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ یہی وہ وقت
ہوتا ہے جب وہ’’ پنگے بازی‘‘ پر اتر آتے ہیں۔
نواز شریف نے ایسے وقت میں اقتدار سنبھالا ہے جب ملکی معیشت وینٹی لیٹر پر
ہے۔ غیر ملکی قرضے ترقیاتی بجٹ سے بھی بڑھ چکے ہیں۔ بدامنی کا اژدھا منہ
پھاڑے کھڑا ہے۔ پورا ملک امریکی جنگ کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ بلوچستان میں
علیحدگی کے نعروں کی گونج کم ہونے کو نہیں آرہی، کراچی نامعلوم مسلح افراد
کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ لوڈ شیڈنگ نے پورا نظام زندگی الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔
ایٹمی ملک کے شہریوں کے لیے وہ دن یوم عید ہوتا ہے جس روز بجلی نہیں جاتی۔
دیگر ایٹمی ممالک میں بجلی چلی جائے تو لوگ حیران ہوتے ہیں یہاں بجلی نہ
جانے پرحیرانی ہوتی ہے ! گیس کا بحران بھی پورے جوبن پر ہے۔ پہلے بغیرکسی
منصوبہ بندی کے چائے کے ہوٹلوں کی طرح سی این جی اسٹیشن کھول دیے گئے۔
گاڑیوں کو سی این جی پر منتقل کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئے، اب ہفتے میں
کئی کئی روز ان اسٹیشنوں پر تالے پڑے ہوتے ہیں۔ بجلی اور گیس نہ ہونے کی
وجہ سے صنعتیں ٹھپ ہوگئی ہیں۔ مہنگائی کا کیا رونا روئیں؟ کل سے دودھ والے
نے 10 روپے کادہی دینا بھی بند کردیا ہے ۔ یہی حال رہا تو کل کلاں فقیر
بھی10 کانوٹ لینا بند کردیں گے ۔ ماہانہ دس سے پندرہ ہزار روپے تنخواہ پانے
والے زندگی گزار نہیں گھسیٹ رہے ہیں۔ سابقہ حکمرانوں نے ریاستی اداروں کا
وہ حشر کیا ہے کہ اگر کوئی حساس شخص ان اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لینے
بیٹھ جائے تو اسے دل کا دور پڑنے کا خطرہ ہے۔ پی آئی اے کو تو سب گھول کر
پی گئے ۔ بلور صاحب نے ٹرینوں کو گدھا گاڑیوں میں بدلنے کی کامیاب کوشش کی
ہے۔ اسٹیل ملزجیسا منافع بخش ادارہ بھیک پر چل رہا ہے۔ دنیا میں افسران
برگر کھاتے ہیں، اسٹیل ملز کے افسران لوہے سے بھرے کنٹینر کھاگئے۔ ویری گڈ!
یہ ہے پاکستانی بیورو کریسی کا آہنی معدہ! زیادہ تفصیل میں کیا جائیں
اب کرلیجئے سماعت آپ قصہ عشق کا
آہ تک لے آئے ہیں ہم مختصر کرتے ہوئے
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ نواز شریف کے لیے محاورتاً نہیں واقعتاً اقتدار
پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ ان کے سامنے پہاڑ جیسے مسائل کھڑے ہیں۔ اچھی بات یہ
ہے کہ وہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے اچھا خاصا ہوم ورک
کیا ہواہے۔ منجھے ہوئے لوگوں پر مشتمل ٹیم ان کے پاس ہے۔ کئی بااثر ممالک
کی فراخدلانہ حمایت بھی انہیں حاصل ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام ان کے
ساتھ ہیں۔ میاں صاحب کو اس بات کا ادراک ہے کہ وہ تنہا ملک کو بحران سے
نہیں نکال سکتے۔ قومی اسمبلی میں اپنے پہلے خطاب میں انہوں نے اس بات کا
اعتراف کرتے ہوئے تمام جماعتوں کو ملکی مسائل کے حل کے لیے مل بیٹھنے کی
دعوت دی ہے۔ ان کا کہناتھاکہ وہ بہت جلد کل جماعتی کانفرنس بلائیں گے۔ ان
کا یہ فیصلہ انتہائی قابل تحسین ہے۔ وزیراعظم کو اولین فرصت میں یہ کام
کرلینا چاہیے البتہ انہیں اپنے ان ساتھیوں سے ہوشیار رہنا ہوگا جو ذاتی
وجوہ کی بنا پر مختلف سیاسی قائدین کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ ایسے
لوگ کانا پھوسی سے باز نہیں آتے۔ انہی لوگوں کی و جہ سے محاذ آرائیاں جنم
لیتی ہیں۔ان لوگوں کی پوری کوشش ہے کہ میاں صاحب بعض سیاسی جماعتوں کے قریب
نہ آنے پائیں۔ یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ میاں صاحب مذہبی جماعتوں سے کچھ
کھنچے کھنچنے سے نظر آرہے ہیں ۔ عین ممکن ہے اس حوالے سے ان پر کوئی عالمی
دباؤ بھی ہو، البتہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میاں صاحب کو مذہبی جماعتوں سے
مخصوص فاصلے پر رکھنے میں ان کے کچھ ’’دوستوں‘‘ کا ہاتھ ہے۔ ان دوستوں میں
کچھ کالم نگاروں کے نام بھی لیے جارہے ہیں۔ یہ درست ہے کہ میاں صاحب کو
حکومت چلانے کے لیے کسی جماعت کی بیساکھی کی ضرورت نہیں رہی ہے ،لیکن ہمارے
سیاسی کلچر کے مطابق حکومت اس وقت تک کامیابی سے نہیں چلائی جاسکتی جب تک
اپوزیشن بھی کسی حد تک اس سے تعاون نہ کرے۔ اگر میاں صاحب اپوزیشن کو دشمن
سمجھنے کی بجائے محتسب کا درجہ دیں، مخالف صفوں سے ہونے والی تنقید کو بھی
اہمیت دیں تو اس سے ایک طرف تو ایوان کا ماحول اچھا ہوگا،دوسری طرف حکومت
کی کمزوریاں بھی دور کرنے میں مدد ملے گی۔ اپوزیشن کو بھی اپنی حکمت عملی
ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر طے کرنی چاہیے۔ ملک نہ تو فرینڈلی اپوزیشن کا
متحمل ہوسکتا ہے اور نہ ایوان کو ہر وقت مچھلی بازار بنانے والی اپوزیشن
اسے چاہیے۔ غلط کاموں پر حکومت کی گرفت بھی ہو اور اچھے کاموں میں اس کا
ہاتھ بھی بٹایا جائے ۔ دنیا کے ہر جمہوری ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے ۔ ہمارے
سیاست دانوں کو بھی کچھ ’’ جمہوری بلوغت’’ کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
بعض تجزیہ نگارِوں کو ایک بار پھر میاں صاحب اور فوج میں ٹکراؤ ہوتا نظر
آرہا ہے ۔ان کا خیال ہے اس بار یہ ٹکراؤ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے
ہوگا۔ اﷲ نہ کرے ایسا ہو، اگر ایسا ہوا تو یہ صرف میاں صاحب اورجمہوریت ہی
نہیں خود فوج کے لیے بھی نقصان دہ ہوگا۔ میاں صاحب کو یہ بات ذہن میں رکھنا
ہوگی کہ پالیسیاں بنانا واقعتاً سول حکومت کا کام ہے لیکن فوج بھی ایک
حقیقت ہے اسے کسی طور نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ اسی طرح فوج کو بھی یہ
نہیں بھولنا چاہیے کہ اب عدلیہ غلام نہیں رہی ہے۔
جس طرح پی پی حکومت میں عبدالرحمن ملک تھے اسی طرح میاں صاحب کی سابقہ
حکومت کے ایک کردار سیف الرحمن تھے۔ ان صاحب پر الزام ہے کہ انہوں نے
مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا۔ جھوٹے مقدمات قائم کرکے
لوگوں کو جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ پی پی حکومت بڑے فخر سے یہ بات کہتی ہے
کہ اس نے گزشتہ 5 برسوں میں کوئی انتقامی کارروائی نہیں کی۔ اس کے دور میں
کوئی سیاسی قیدی نہیں تھا۔ میاں صاحب کو بھی انتقامی سیاست سے گریز کرنا
چاہیے۔ لیکن انتقام اور احتساب میں فرق کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا۔
سابقہ حکومت میں لوٹ مار کا میلہ لگا ہوا تھا صرف ایک شخص نے 80 ارب روپے
کی لوٹ مار کی۔ اب ایسے لوگوں کو محض اس لیے چھوڑ دینا کہ وہ سیاسی شناخت
رکھتے ہیں قوم کے ساتھ ظلم ہوگا‘ انتقام مت لیجئے لیکن احتساب ضرور ہونا
چاہیے۔ قوم رینٹل پاور کیس، حج کرپشن کیس ،اوگرا، ایفی ڈرین اور پاسپورٹ
اسکینڈل جیسے مقدمات میں ملوث افراد کو سلاخوں کے پیچھے دیکھنا چاہتے ہیں۔ |