2013 کے الیکشن بخیر وخوبی انجام
کو پہنچے چاروں صوبوں اور وفاق میں حکومتیں بننی جارہی ہیں ۔ ہمارے ملک کی
یہ بد قسمتی ہے ۔ کہ یہاں کویٔ ہار مانتا نہیں ۔ خواہ وہ کسی بھی شعبے کسی
بھی پارٹی یا محکمے سے تعلق رکھتا ہو۔ الیکشن سے پہلے تمام پارٹیوں نے اپنے
اپنے پارٹیوں کی حکومتیں بنانے کی خواب دیکھے تھے ۔ لیکن الیکشن کے نتایٔج
آنے کے بعد ان کے خواب چکنا چور ہوگیے ہیں ۔او رتما م پارٹیاں دھاندلی
دھاندلی کھیل رہے ہیں ۔ الیکشن کمپیٔن میں عوام کو ورغلا کر وقتی طور پر
بھڑ کیں مار کر ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن عوام بھی بڑے سیانے نکلے ۔
اس کو ووٹ دیے ۔ جو پاکستان کے ساتھ وفادار ہے اور پاکستا ن کو درست سمت کی
طرف لے جاسکتا ہے۔ رہی بات کے پی کے کی تو وہاں تو دنیا کو پتہ ہے ۔ کہ
کونسا قوم آباد ہے ۔ وہاں جو قوم آباد ہے ۔ وہ جس کو چاہتا ہے ۔ تو اس کو
اپنے آپ سے بھی ذیادہ عزیز رکھتا ہے ۔ لیکن جو ان کے مزاج کے مطابق فیصلے
نہیں کرتے ۔تو اس کا انجام متحدہ مجلس عمل2002او ر عوامی نیشنل پارٹی
2008کے الیکشن نتایٔج کے بعد بننے والی حکومتوں سے معلوم کرسکتا ہے ۔ لیکن
تحریک انصاف کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی۔ کہ کے پی کے کی حکومت کرنا کویٔ
آسان کام نہیں ۔ یہ آپ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس ہے ۔ جو آیٔیندہ شاید آ پ کے
مقدر میں نہ ہو۔ اور اگر آپ نے ایک کام کیا ۔ ایک ڈرون پر اپنی انتخابی
پالیسی کی تسلسل اور دوسری ڈاکٹر عافیہ کی امریکی حکومت کے ساتھ رہایٔ کی
بات چیت ۔ تو شایٔد آیٔیندہ آپ کے پی کے پر اپنا گرفت مضبوط کرسکے ۔ لیکن
مشکل ہے ۔ ایسا کرنا بہت مشکل عمرا ن خان کو الیکشن کمپیٔن کے دوران اپنے
ہم نوا ؤں نے ایسے سنہرے خواب دکھایٔے تھے ، کہ وہ اپنے آپ کو وزیر اعظم
محصوص کر رہا تھا ۔ اور مجھے تو وہ الفاظ اب بھی یاد ہے ۔کہ ایک خوشامدی
کالم نگار نے یہاں تک لکھا تھا ۔ کہ واﷲ کپتان جیت گیا ۔ او ر عمران خان ان
کے باتوں میں آکر اپنے لیے شیروانی کا بھی آرڈر دیا ہوا تھا ۔ اور حلف کے
لیے بھی کبھی ذرداری صاحب سے لینے کا اور کبھی نہ لینے کا بیان داغ رہا تھا
۔ یہی تو ہمارے ملک کے سیاستدانوں کی بدبختی ہے ۔ کہ یہ ہار مانتے نہیں ۔اسفندیار
ولی نے پانچ سال کے بعد کتنے اچھے الفاظ کہے ہیں ، کہ جہاں آپ جیتے وہاں
الیکشن فیٔیر اور جہاں ہارے وہاں دھاندلی دھاندلی ۔یہی ہے امیچور اور
بچگانہ سیاست کا فرق۔ سیاست کے اس نومولود نے تو اپنے حریفوں کو بھی نہیں
بخشاء۔ او ران کو بھی کبھی اویٔے اور کبھی تویٔے کے الفاظ استعمال کرتے رہے۔
اور یہ با لکل بھی بھول گیے تھے کہ عوام لیڈر کی رویہ دیکھتے ہیں۔ |