امریکی رہنماؤں کی جانب سے ایک طویل عرصے سے نئے مشرق وسطی کے نعرے لگائے
جارہے ہیں اور شام کی جنگ بھی اسی نئے مشرق وسطی کی تشکیل کا ایک حصہ ہے۔
شام میں جاری خانہ جنگی کا اسٹریٹیجک سیناریو کچھ یوں تھا کہ شام میں
بشارالاسد کی شکست کی صورت میں خطے میں ایران کی طاقت میں نمایاں کمی آئے
گی ۔ اسرائیلی مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ یعنی حزب اللہ بھی بشارالاسد
کی شکست سے متاثر ہوگی اور جب مشرق وسطی کے یہ دونوں اہم ستون ایران کے
ہاتھ سے نکل جائیں گے تو ایران عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکار ہوسکتا ہے۔
اس صورت میں دو اہم اہداف حاصل کیے جاسکتے ہیں ایک ایران کی ایٹمی سرگرمیوں
کو دباؤ ڈال کر روکا جاسکتا ہے اور دوسرا خطے میں امریکی حلیف ممالک یعنی
سعودی عرب، قطر اور ترکی کا اثرورسوخ بڑھایا جاسکتا ہے۔
اس سیناریو کو جامہ عمل پہنانےکے لیے ترکی، سعودی عرب اور قطر کے تعاون سے
دنیا بھر سے جہادی بھرتی کیے گئے اور انہیں ترکی کے راستے شام میں داخل
کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تینوں ممالک نے اسلحہ سمیت مختلف شعبوں میں باغیوں
کی امداد کا کام جاری رکھا اور عالمی سطح پر بھی اس مسئلہ کو کافی اٹھایا
گیا۔ باغیوں نے ابتدائی طور پر شام میں کافی کامیابیاں بھی حاصل کیں یہاں
تک کہ شام کے حلیف ممالک نے مذاکرات اور مسئلہ کے سیاسی حل پر زور دینا
شروع کردیا۔ دوسری طرف اسرائیل نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا پروگرام
بنایا اور متعدد کاروائیاں بھی کیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے باغیوں کو
مالی امداد دینا شروع کردی جسے صلح آمیز یا غیرمسلحانہ امداد کا نام دیا
گیا۔ اس سارے سلسلہ کا منطقی انجام تو وہی ہونا چاہیے تھا جو خطے کے بعض
دیگر عرب ممالک کا ہوا لیکن یہاں شامی فوج اور حزب اللہ کے باہمی اشتراک نے
اپنا کام دکھایا اور باغیوں کو بہت سے مقامات پر بھاری شکست سے دوچار ہونا
پڑا یہاں تک کہ گذشتہ دنوں باغیوں کا اہم ترین مرکز یعنی القصیر نامی شہر
شامی فوج کے کنٹرول میں آگیا۔
باغیوں کی اس شسکت کے بعد اب حالات تبدیل ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اب
مذاکرات یا سیاسی حل کا آپشن ہی تقریبا ختم ہوچکا ہے۔ عرب ممالک اس شکست کا
ذمہ دار حزب اللہ کو ٹھہرا رہے ہیں اور اس کوشش میں مصروف ہیں کہ حزب اللہ
کو دہشت گرد تنظیم قرار دلوائیں۔ مصر کے مفتی شیخ یوسف القرضاوی بھی بہت
بھڑکے ہوئے ہیں اور انہوں نے تو حزب اللہ کو حزب الشیطان قرار دیا ہے(نہیں
معلوم یہ مولانا کی جانب سے سیاسی مخالفت ہے یا مذہبی!)
شام میں حالات امریکی تھنک ٹینکس کے پیش کردہ سیناریو کے تحت آگے نہیں بڑھ
رہے اور امریکہ کو صرف شام ہی نہیں بلکہ اب خطے میں شکست کا سامنا ہے
کیونکہ شام اور حزب اللہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہورہے ہیں۔ دوسری طرف روس
اور ایران کے تعلقات بھی پہلے سے زیادہ مستحکم ہورہے ہیں جس کی وجہ سے
مستقبل میں امریکہ کے لیے کسی جنگی مہم کا خیال بھی ذہن میں لانا موت کو
گلے لگانے کے مترادف ہوگا۔ خطے میں ترکی کی مقبولیت میں اضافہ بھی اب ایک
خواب لگ رہا ہے کیونکہ اردگان اور عبداللہ گل کو اپنی حکومت بچانا مشکل
ہورہی ہے۔ رہی بات ایران کے ایٹمی مسئلہ کی تو اس سلسلہ میں ابھی انتظار
کرنا ہوگا کہ انتخابات کے بعد نیا صدر کون بنتا ہے لیکن ایک بات طے ہے کہ
ایران میں کوئی بھی صدر بن جائے لیکن ایران اپنے ایٹمی پروگرام سے پیچھے
نہیں ہٹے گا اور اب تو خطے میں ایران کی پوزیشن بھی مضبوط ہوگئی ہے۔ |