پچھلے کچھ عرصے سے دوست مسلسل یہ دریافت کر رہے ہیں کہ آج کل فکاہیہ مضامیں
تحریر کیوں نہیں کررہے؟
ایسے موقعے کے لیئے چچا جان کیا خوب کہہ گئے ہیں:۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
اور بقول چچا جان ہی کہ:۔
پہلے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی
اور جب کسی کو خود ہی ہنسی نہ آئے تو وہ کسی اور کو بھلا خاک ہنسائے گا۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔!!!۔
لیکن صاحب، دوستوں کا اصرارِ مسلسل دیکھ کر بس یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہوں
کہ:۔
تم ضد تو کر رہے ہو ہم کیا تمھیں سنائیں
نغمے جو کھو گئے ہیں ان کو کہاں سے لائیں
جی ہاں جب ایک قاتل قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا پا کر عدالت میں مارے
خوشی کے تالیاں بجائے اور پھر کچھ یوں احاطہِ عدالت میں مُسکراتا اور دونوں
انگلیوں سے وی یعنی کہ وکٹری کا نشان بنتا ہوا نکلے کہ بقول فیض صاحب:۔
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اُس کا بھائی تالیاں پیٹتے ہوئے نعرے بلند کررہا ہو : "جیت گئے، جیت گئے،
جیت گئے" کہ جیسے بھائی اُس کے نے کسی معصوم اور بے گناہ نوجوان کا قتلِ
ناحق نہ کیا ہو بلکہ وہ ملکی سرحدوں پر دشمنانِ وطن کو جہنم رسید کر کے
غازی بن کر لوٹ ہو اور اب وہ اُسے دادِ شجاعت سے نواز رہا ہو۔ تو ایسے میں
نہ تو میں اس قابل ہی رہا ہوں کہ کوئی فکاہیہ مضمون ضبطِ تحریر میں لا سکوں
اور اگر جو ایسی حماقت کر بھی بھیٹوں تو پڑھنے والے شاید اُسے پڑھ کر ہنسے
تو نہ ہاں البتہ ان کی آنکھوں میں شاید آنسو ضرور آ جائیں۔
ویسے ہمارے وطنِ عزیز میں جو ہو کم ہی ہے۔ انسان کس کس بات کو روئے اور کس
کس سانحے پر ماتم کرے۔
آپ خود ہی ملاحظہ فرما لیں:۔
گجرات میں اسکول کی وین میں آگے لگنے سے 18 معصوم بچے لمقہِ اجل بن گئے۔
پشاور میں پولیو مہم کے رضا کار دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔
ملتان کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹروں نے گردوں کی بیماری میں لاحق ایک بچے کے
دھوکے میں اُس کے ہم نام دوسرے بچے کے گردوں کا آپریشن کرڈالا۔
حیدرآباد شہر میں بچوں کی آپسی لڑائی میں چار بھائیوں کو گولیاں مار کے
ہلاک کردیا گیا۔
یا میرے مالک۔ ۔ ۔ ۔ !، یہ سب آخر ہو کیا رہا ہے آخر اور کب تک یوں ہی ہوتا
رہے گا؟
صبح صبح میں نے جب آن لائن روزنامہ جنگ کا پہلا صحفہ کھولا ہی تھا کہ نظر
شاہ رخ جتوئی کی پھانسی کی سزا کی خبر پر پڑی۔ اُسے اسقدر مطمئین اور ہشاش
بشاس دیکھ کر دل کو ایک چوٹ سی لگی۔ پھر یہ سوچ کر دل کو بہلا لیا کہ شاید
اپنی پھانسی کی عبرتناک خبر سن کر اپنے حواسوں میں نہیں رہا۔
میں نے فورا اس خبر کو کاپی پیسٹ کر کے اپنے فیس بک کے صفحے پر آویزاں
کردیا۔
بس صاحب، اتنا کرنے کی دیر تھی کہ دھڑا دھڑ تبصرے آنا شروع ہوگئے۔ ان
تبصروں کو پڑھ کر لگ پتا گیا کہ میاں شاھ رخ جتوئی تو پورے پورے حواسوں میں
ہیں لیکن شاید میں ہی کچھ ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کا شکار ہوں۔
بقول بھائی لوگوں کے یہ سب کچھ ایک ٹوپی ڈرامہ ہے اور میاں صاحبزادے کو خوب
پتہ ہے کہ اُس کا مالدار وڈیرا باپ اپنی اُس حرام کی دولت سے کہ جس کا شمار
خود اُسے بھی نہیں کے زور پر کچھ بھی کر کے اُس کی جان بچا لینے میں کسی نہ
کسی طرح سے ضرور کامیاب ہو ہی جائے گا اور وہ جلد ہی یورپ، برطانیہ یا
امریکہ میں کہیں بیٹھا دادِ عیش دے رہا ہوگا۔
میں یہ تو نہیں جانتا کہ ایسا ہوگا کہ نہیں لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ
اگر جو ایسا غضب ہو گیا تو پھر میں آپ سب سے کہے دیتا ہوں کہ ہمیں اپنے
بچوں کو ہر وقت اپنے اپنے گھروں میں ہی مقید رکھنا ہوگا ورنہ جہاں وہ گھر
سے باہر نکلے وہاں کوئی شاہ رخ جتوئی انہیں اپنی گولی کا نشانہ بنا کر
مسکراتے ہوئے اپنی انگلیوں سے خود ہماری جانب ہی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے
اک شانِ بے نیازی سے کسی اور شکار کی تلاش میں نکل کھڑا ہوگا۔
اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو اور ہم سب کو اپنے لختِ جگروں کو گھروں میں چھپا کر
رکھانے کی نوبت آ جائے۔ لیکن مجھے کہنے دیں کہ آج عدالت سے اپنی پھانسی کا
فیصلہ سن کر شاہ رخ جتوئی کا مسکراتا، مطمین اور ہشاس بشاش چہرہ دیکھ کر
مجھے رھ رھ کر یہ خیال آ رہا ہے کہ کیا ہمارے معمارانِ وطن حضرت قائدِ اعظم
اور حضرت علامہ اقبال نے ایسے پاکستان کا خواب دیکھا تھا کہ جہاں قاتل
اکڑتا پھرے اور مقتول کے لواحقین کسی کونے کھدرے میں سکڑتے نظر آئیں۔
کیا وہ ان کا وہی پاکستان ہے؟
کیا یہ ابنِ صفی مرحوم کا وہی پاکستان ہے جہاں وہ اپنی ہر تحریروں کے توسط
سے وطنِ عزیز انصاف و قانون کا بول بالا، مظلوم کا سر بلند اور ظالم کا سر
خم دکھایا کرتے تھے؟
میرے ان سوالوں کا جواب میں تو خود بھی نہیں دے سکتا اور شاید آپ میں سے
کوئی بھی نہ دے سکیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !۔
لیکن ان سوالوں کا جواب موجود ہے ضرور۔ لیکن اُس کے لیئے ہمیں کچھ اور
انتظار کرنا ہوگا۔ اُس وقت تک جب تک کہ سارے شاہ رخ جتوئی تختہِ دار پر نہ
چڑھا دیئے جائیں۔ بصورتِ دیگر ہم سب کو اپنے اپنے لختِ جگروں کو کسی نہ کسی
شاہ رخ جتوئی کی بھینٹ چڑھتے دیکھ کر اپنی آنکھوں کو بند اور زبانوں کو قفل
لگا کر بے حسی اور بے بسی سے یہ سارے ظلم سہہ سہہ کر مُردوں سے بھی بدتر
حال میں ذندہ رھنے کے لئیے خود کو آمادہ کرلینا چاہیئے کیونکہ:۔
ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔!!!۔ |