مودی، بی جے پی، کانگریس اور ہندوستانی سیاست

ہندوستانی سیاست کا مکروہ چہرہ گاہے بگاہے ابھر کر سامنے آتارہتاہے۔ اسے روکنے میں ہندوستان کی عدلیہ، مقننہ اور الیکشن کمیشن مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ ہندوستان میں بارہا ایسے افراد ہندوستانی سیاست میں رونماہوتے رہے اور عوام میں انہیں پذیرائی ملتی رہی ہے جوماضی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں مکمل طور پر ملوث ر ہے ہیں۔ اگر یہ جرم مسلمانوں کے خلاف کیا گیا ہے تو انہیں بلاشرکت غیرے ہیرو کا درجہ حاصل ہوجاتا ہے۔ ہندوستان میں جرم اور بدعنوانی کا خاتمہ اس لئے بھی محال ہے کہ یہاں اسے جرم نہیں سمجھاجاتا۔ یہاں پوری کی پوری آبادی کسی نہ کسی صورت میں بدعنوانی میں ملوث ہوتی ہے اور صرف لیڈروں سے توقع رکھتی ہے کہ وہ بدعنوانی نہ کرے اور جب انتخاب کا وقت آتا ہے تو یہی آبادی ان سے پیسے لیکر ووٹ دینے میں آگے رہتی ہے اوراس طرح کے لیڈر جب کسی بدعنوانی ملوث ہوتے ہیں وہ تو مخالفت کرنے میں سب سے آگے نظر آتی ہے۔ یہی دوہرا معیار اور دو رخی پالیسی ہندوستان کو کبھی صاف ستھرا اور انصاف پسند ملک نہیں بننے دیتی۔ جس طرح بدعنوانی کو کوئی جرم تسلیم نہیں کرتے اسی طرح فرقہ پرستی اور مسلمانوں کے قاتلوں کو بھی قاتل نہیں سمجھا جاتا اور نہ اس فعل کو کوئی گناہ تصور کیا جاتا ہے۔بلکہ توقع یہ ہوتی ہے کہ اتنے کم لوگوں کو(مسلمان) کیوں مارا۔ موقع ملا تھاتو پوری بستی کی بستی صاف کردیتے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو ان قاتلوں کے اتنی بڑی تعداد میں حامی نہیں ہوتے۔ ان کو بچانے کیلئے وکیل ہڑتال تک کرتے ہیں، عوام روڈ جام کرتے ہیں ، سیاست داں پارلیمنٹ ٹھپ کرتے ہیں ، انتظامیہ ان کے خلاف ثبوت مٹانے میں سارا زور لگادیتا ہے۔ یاد کیجئے نوے کے عشرے کے واقعات کو ،فرقہ پرست سیاست داں پارلیمنٹ، عدلیہ، مقننہ سب سے اوپر تھے اور اب بھی اوپر ہیں۔ گھناؤنے جرائم کاا رتکاب کرنے والوں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہ ہونا اس بات ثبوت ہے کہ یہاں کا قانون و انتظام فرقہ پرست طاقتوں کی لونڈی ہے۔ اب تک کوئی قانون نہیں ہے جو انہیں سزا دے سکے۔ 1984کے سکھ فسادات کے بارے میں بڑھ چڑھ کر بولنے والے ان سیاست دانوں کو جب بھی انہیں ان کا گناہ یادلایا جاتا ہے تو فوراً وہ مسلمانوں کی منہ بھرائی کا الزام لگالیتے ہیں۔ مطلب صاف ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو انصاف دینے کی بات کرنا بھی ان سیاست دانوں کے سامنے گناہ عظیم ہے۔ ہندوستانی سیاست میں مسلمانوں کے قاتل کو ہمیشہ بڑے بڑے عہدے دئے گئے ۔گجرات فسادات کے مجرم اور سہراب الدین فرضی تصادم کے ملزم امت شاہ کو اترپردیش کا الیکشن انچارج بنایا گیا۔ گجرات قتل عام کے ملزم جن پر امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ملکوں میں داخلہ پر پابندی ہے ، بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014 کے لوک سبھا کے عام انتخابات کے لئے انتخابی مہم کمیٹی کا صدر مقرر کیاہے۔ پارٹی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ نے انتہائی مختصر بیان میں کہا، "میں آپ کو اہم معلومات دینا چاہتا ہوں۔ ہر سیاسی پارٹی انتخابات کو اپنے لئے بڑا چیلنج مانتی ہے۔بی جے پی آئندہ لوک سبھا انتخابات کو بڑا چیلنج مان کر چل رہی ہے۔ پورے انتخابی مہم کوذہن میں رکھتے ہوئے میں نے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو انتخابی مہم کمیٹی کا صدر مقرر کیا گیا ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ بھی ہوا ہے سب اتفاق کی بنیاد پر ہوا ہے۔ نریندر مودی کے انتخابی مہم کمیٹی کا صدر بنتے ہی انہیں اب کسی جانے یا کہیں بھی انتخابی مہم چلانے کے لئے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہوگی۔وہ اس مختار کل ہوں گے۔

جیسے ہی نریندر مودی کو پارلیمانی کمیٹی میں جگہ دی گئی تھی اسی وقت سے اس کی مخالفت بھی شروع ہوگئی تھی اور بی جے پی کے اس قدم کو اس کے اتحادیوں نے مودی کو وزیر اعظم کے طور پر پیش کئے جانے پہلے قدم کے طور دیکھا تھا۔ اب بھارتیہ جنتا پارٹی نے 2014کے لوک سبھا انتخابات کی کمان مودی کے ہاتھ میں سونپ کر واضح کردیا ہے کہ اب بی جے پی کے وزیر اعظم کا امیدوار نریندری مودی ہی ہوں گے۔ اس قدم کا اتحادیوں پر کیا اثر پڑے گا اس کے برعکس بی جے پی کے اندر ہی خانہ جنگی شروع ہوگئی ہے۔ نریندر مودی بمقابلہ اڈوانی جنگ شروع ہوگئی ہے۔ پارٹی کے سینئر ترین لیڈروں کا قومی مجلس عاملہ کی میٹنگ کا بائیکاٹ کرنا بہت کچھ کہتا ہے اور آئندہ کس طرح کے مسائل پیدا ہوں گے اس کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ایل کے اڈوانی سمیت یشونت سنہا، شتروگھن سنہا، جسونت سنگھ، اوما بھارتی، روی شنکر پرساد، راجیو پرتاپ روڑی وغیرہ گوا میں منعقدہ مجلس عاملہ کی میٹنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب لال کرشن اڈوانی مجلس عاملہ کی میٹنگ میں نہیں پہنچے۔ یہ میٹنگ زبردست اہمیت کی حامل تھی کیونکہ اس میں یہ طے کیا گیا ہے کہ 2014 میں ہونے والے عام انتخابات میں بی جے پی کی قیادت کون کرے گا ساتھ ہی لوک سبھا انتخابات کی حکمت عملی طے ہوئی ہے۔ سینئر بی جے پی لیڈروں کے مطابق یہ پہلا موقع ہے، جب پارٹی کے مہارتھی اڈوانی قومی عاملہ کی کسی اجلاس سے دوری بنائے ہوئے تھے۔ اڈوانی نے اٹل بہاری واجپئی کے ساتھ مل کر 1980 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی تشکیل کی تھی، جو اس کے پہلے بھارتیہ جن سنگھ کے طور پر تھی۔ ذرائع کے مطابق85 سالہ اڈوانی کو گوا لے جانے کے لئے ایک خصوصی طیارہ تیار تھا، لیکن وہ نہیں آئے۔ 8 جون کو مودی کے حامی ہفتے دوپہر کے اڈوانی کے گھر کے باہر جمع ہو گئے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اڈوانی گجرات کے وزیر اعلی کو وزیر اعظم کا امیدوار اعلان کریں۔ مظاہرین کے ہاتھوں میں پٹیاں اور ا اور پھول تھامے ہوئے تھے۔ پٹیو ں پر لکھا تھا "مودی کو کمان، اڈوانی کو احترام۔ اسی طرح ملک کے دیگر حصوں میں بھی مودی کو وزیر اعظم کا امیدوار اعلان کرنے کیلئے مظاہرے کئے گئے۔ سنت سرسوتی نے اڈوانی کو سیاست سے ریٹائرمنٹ لینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت ملک میں نریندر مودی کی ہوا چل رہی ہے۔ ملک کے عوام مودی کو مرکزی کردار میں دیکھنا چاہتی ہے۔آئندہ لوک سبھا انتخابات میں فتح حاصل کرنے کے لئے بھارتیہ جنتا پارٹی طرح طرح کے حربے اپنا رہی ہے۔ جس طرح وہ منصوبہ بندی کر رہی ہے اس سے فائدہ ہونے کے بجائے پارٹی میں انتشار پھیل رہا ہے اور نوبت اب خانہ جنگی کی آگئی ہے۔ کسی کو حد سے زیادہ وقعت دینا اور کسی کا وقار کم کرنا اس سے پارٹی میں اقتدار کے کئی مرکز ابھرے ہیں جو اس اہم اپوزیشن پارٹی کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ اس کی آگ اب اترپردیش تک پہنچ چکی ہے۔ راج ناتھ سنگھ کی ٹیم میں نظر انداز کئے جانے والوں لیڈروں کے لئے سنہری موقع ہاتھ آگیاہے اور وہ اترپردیش کے نومنتخب الیکشن انچارج امت شاہ کے لئے کئی طرح کی پریشانیاں کھڑی کرنے والے ہیں۔ مودی بمقابلہ اڈوانی نے یہاں کی جنگ نے ساری تصویر الٹ دی ہے۔ راج ناتھ سنگھ سے ناراض رہنماؤں کی ایک لمبی فہرست پہلے سے ہی موجودہے، لہذا مودی اور اڈوانی کے درمیان چل رہی جنگ نے انہیں بیٹھے بٹھائے ایک موقع دے دیا ہے۔ راج ناتھ نے اپنی ٹیم بناتے وقت یوپی میں سینئر رہنماؤں کو درکنار کرکے ورون گاندھی اور اوما بھارتی کی شکل میں ہندوتو ساکھ والے رہنماؤں کی ایک ٹیم تیار کی تھی اور ایسا مانا جا رہا تھا کہ یہی ٹیم امت شاہ کے ساتھ مل کر کام کرے گی، لیکن مودی بمقابلہ اڈوانی تنازعہ کے بعد ان رہنماؤں نے بھی شاہ سے فاصلے بنانی شروع کر دی ہے۔راج ناتھ نے نئی ٹیم کا اعلان کرتے وقت ونے کٹیار، کلراج مشرا اور لال جی ٹنڈن جیسے سینئر لیڈروں کو بھی بھلا دیا تھا۔ اس کے علاوہ اتر پردیش میں ہندوتو کے فائر برانڈ لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ اور راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ کسم رائے بھی راجناتھ کی ٹیم میں جگہ نہیں ملنے سے کافی ناراض تھی۔ ناراضگی کی وجہ سے ہی ان میں سے کئی لیڈر چترکوٹ میں منعقد ہ بی جے پی کی اترپردیش مجلس عاملہ کی میٹنگ میں بھی نہیں پہنچے تھے۔بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کے مطابق اڈوانی جیسے سینئر لیڈر کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور اس کی کہانی کی اسکرپٹ کافی پہلے سے ہی لکھی جا رہی ہے۔ مودی کی اتنی حیثیت نہیں ہے کہ وہ اڈوانی کو ٹیک اوور کر پائیں۔وقت آنے دیجئے سب کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوجائے گا۔

پارٹی میں جاری خلفشار رکنے والا نہیں ہے۔ آر ایس ایس کے مداخلت کے بعد بھی اس صورتحال میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔ راج ناتھ سنگھ مودی کو انتخابی مہم کمیٹی کا سربراہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں لیکن ان کے خلاف اٹھنے والی آواز ریاست کی سطح پر مخالفت کو دبانا آسان نہیں ہوگا۔ قومی سطح پر لال کرشن اڈوانی جیسے لیڈر کی نظر انداز کرنا قطعی آسان نہیں ہے۔ اڈوانی کے مقابلے سنجے جوشی یا کیشوبھا پپٹیل سے نہیں کی جا سکتی۔وہ صرف بی جے پی کے لیڈر نہیں ہیں بلکہ آج پارٹی کے اہم ستون اور شہہ رگ ہیں۔ اسے بنانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے اور مودی سے بہتر اس بات کو کوئی اور نہیں جانتا۔مودی اگر گجرات میں دندنا رہے ہیں یہ اڈوانی کی حمایت کا ہی نتیجہ ہے۔ ورنہ 2002 کے گجرات قتل عام کے بعد انہیں ہٹانے کی پوری تیاری ہوگئی تھی لیکن اڈوانی آڑے آگئے تھے۔ قومی جمہوری محاذ کی بی جے پی قیادت والی اٹل بہاری واجپئی کی حکومت بنی تو اس میں اڈوانی کا سب سے اہم رول تھا۔ اگر ان پر بابری مسجد کی شہادت کاالزام نہ ہوتا تووزیر اعظم اڈوانی ہی بنتے۔ پارلیمنٹ کی دو سیٹ سے 182 کے قریب لے جانے کا سہرا اڈوانی کے سر ہی ہے۔ اس کیلئے اڈوانی کو نظر انداز بی جے پی بہت مشکل ہوگا۔ عجیب و غریب صورتحال سے دوچار بی جے پی میں اقتدار کے کئی مرکز بن کر ابھرے ہیں۔ ایسی صورت میں پارٹی کو اچھے طریقے سے انتخابات میں لے جانا ایک بہت سخت مرحلہ ہوگا۔ہندوستانی سیاست میں آج تک ایسا نہیں دیکھا گیا۔ مودی کے حامی چاہتے ہیں کہ انہیں بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار قرار دے دیا جائے لیکن پارٹی کا ایک بڑا گروپ نہیں چاہتا کہ مودی کو یہ ذمہ داری دی جائے۔ مودی کے حامیوں کا خیال ہے کہ مودی کو وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے سے پارٹی کو انتخابات میں کافی فائدہ ہوگا اور پارٹی اقتدار کے قریب پہنچ سکتی ہے لیکن اڈوانی اور دہلی کے کچھ دوسرے رہنماؤں کی رائے ہے کہ مودی کی شخصیت ایسی ہے کہ ان کے تئیں لوگوں کی رائے پوری طرح منقسم ہے۔ اگر ایک طرف مودی کے پرستار ہیں تو دوسری طرف رائے دہندگان کا ایک ایسا گروپ بھی ہے جو مودی کو کسی بھی حالت میں پسند نہیں کرے گا۔اس کے علاوہ نریندر مودی کا تعلق او بی سی سے ہے بی جے پی کا برہمن ٹولہ ہرگز نہیں چاہے گاکہ وزیر اعظم کی کرسی مودی جیسا غیر برہمن براجمان ہوجائے۔مدھیہ پردیش میں اوما بھارتی کے حشر کے کو یاد رکھنا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مودی کو ہندی میڈیا اور کارپوریٹ گھرانہ بہت چاہتا ہے۔ کیوں کہ مودی نے کارپوریٹ گھرانے کو ریوڑیوں کے بھاؤ میں زمینیں دی ہیں۔ اس کے علاوہ کئی طرح سے ناجائز طور پر فائدہ پہنچایا ہے۔ اس لئے ان کی خواہش ہے کہ مودی وزیر اعظم بنیں تاکہ وہ ملک کو جم کر لوٹ سکیں۔

جیسے ہی مودی کو وزیر اعظم کا امیدو ار بنایا جائے گا بھارتیہ جنتا پارٹی کے زوال کے دن شروع ہوجائیں گے۔اس سے یہ بھی سمجھاجائے کہ اڈوانی دور کا خاتمہ ہوچکا ہے اور اب وہ بھولی بسری یادیں ہیں اگر ایسا ہے تو بی جے پی واقعی مختلف پارٹی ہے۔ اس سے نہ صرف ہندوستانی عوام بی جے پی سے دور ہوجائے گی بلکہ نئی نسل جنہیں اپنی روزی روٹی کی زیادہ فکر ہے وہ بھی بی جے پی سے دور ہوجائے گی کیوں کہ ہر نوجوان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بہتر سے بہتر نوکری کی تلاش میں بیرون ملک جائیں اور خوب پیسے کمائیں جو نریندر مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی (جس کی امید نہیں ہے) وہ ساری امیدیں خاک میں مل سکتی ہیں۔ مودی کے وزیر اعظم بنتے ہی جہاں ہندوستان کے تعلقات بیرون ممالک سے تلخ ہوجائیں وہیں ہندوستان کی بدنامی بھی ہوگی۔ مودی کی وجہ سے ہندوستان کو اچھی نظر نہیں دیکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مودی کو انتخابی مہم کمیٹی کا صدر مقرر کرکے اپنے پیر پر کلہاڑی ماری ہے اوراس کے اس قدم سے جہاں اتحادی ناراض ہوں گے وہیں اس نے کانگریس کے امکانات کوبھی روشن کردیا ہے۔ کانگریس کی خواہش بھی یہی ہے کہ مودی کے نام کو جم کر اچھالاجائے ۔ یہی وجہ سے کانگریس نے گجرات میں اسمبلی انتخابات کے دوران دل سے محنت نہیں کی تھی ۔ کانگریس کے اندورنی ذرائع کا خیال تھا کہ مودی کو گجرات میں ہی رہنے دیا جائے۔اگروہ گجرات سے باہر آگیا اور وزیر اعظم کے دعویدار کے طور پر خود کو پیش کیا اور بی جے پی نے انہیں وزیراعظم کا اپنا امیدوار اعلان کردیا تو اس کے لئے اور بھی آسان ہوجائے گا۔ کیوں کہ مسلمان کانگریسی حکومت کے ظالمانہ رویے کے باوجود کانگریس کو ہی ووٹ دینے پر مجبور ہوں گے اس طرح کانگریس کا کام اور بھی آسان ہوجائے گا۔ کانگریس ،بی جے پی اور سیاسی پارٹیوں کی کوشش بھی یہی ہے کہ ہندوستان کو مسلمانوں کے لئے ایک بند گلی بنادیا جائے جہاں کوئی بہتر متبادل نہ ہو۔
Abid Anwer
About the Author: Abid Anwer Read More Articles by Abid Anwer: 132 Articles with 87249 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.