پاکستان میں اس وقت پرانی
مردم شماری کے مطابق تقریباً اٹھارہ کروڑ عوام بستے ہیں۔ کسی بھی ملک میں
اتنی بڑی تعداد میں بسنے والی عوام کو ان کے اپنے ہی ملک میں ان کی اہمیت
کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہ نہایت دلخراش اور تکلیف دہ امر ہے کہ پاکستان
میں بسنے والے اتنی بڑی تعداد عوام کی ہونے کے باوجود ان کی نہ تو کوئی
سیاسی اہمیت و حیثیت نظر آتی ہے اور نا ہی سیاسی پارٹیوں پر ان کا معمولی
سا بھی دباﺅ ہے۔( سوائے اس کے ووٹ لینے اور دینے کے دنوں میں ان کی بہت آﺅ
بھگت کی جاتی ہے۔)انتخابات کے دنوںمیں ہی اپنے شطرنجی چالوں میں پھنسا کر
ان سے قیمتی ووٹ حاصل کرنا اور ان کے ووٹوں سے اقتدار کے تخت پر متمکن ہو
جانا اس کے بعد ظاہر ہے کہ اپنے ہاتھوں میں زمام اقتدار تھامتے ہی انہیں یہ
یاد تک نہیں رہتا کہ کس کی بدولت وہ زمامِ اقتدار تھامنے میں کامیاب ہوئے
ہیں۔ کس نے انہیں اقتدار کی مسند تک پہنچایا ہے، کس کے ووٹوں کے ذریعے
انہیں حکومت سازی کا موقع ملا ہے ، وہ یہ سوچنے کی بھی زحمت نہیں کرتے کہ
انتخابات سے قبل ہم نے عوام کو اپنے جالوں میں پھنسایا تھا اور بڑی آسانی
سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ہمیں اقتدار کے تخت پر بٹھانے میں
بیچارے و سادہ لوح عوام کو کتنی قربانیاں دینی پڑی ہونگی؟ مخالفین سے کیسے
مقابلہ کرنا پڑا ہوگا؟ کتنی گالیاں سننی پڑی ہونگی؟ ممکن ہے لات اور گھونسے
بھی کھانے پڑے ہوں گے، کئی کو بندوق کی گولیوں سے اپنے سینوں کو زخمی بھی
کروانا پڑا ہوگا، کئی کو اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا ہوگا۔ کئی کی
بیویوں کا سہاگ لٹا ہوگا، کتنے بچے یتیم ہوئے ہوں گے، بہت سوں کو مقدمات کا
سامنا بھی کرنا پڑا ہوگا۔ اور وہ تاریخوں کے لئے آج بھی عدالتوں کے چکر کاٹ
رہے ہونگے۔حکومت ساز ی کے بعد ان سب باتوں کے بارے میں کسی بھی پارٹی کو
حکومت سازی کے بعد سوچنے کی کہاں توفیق ہوتی ہے۔ لیکن نئی منتخب حکومت کے
تیور کچھ ضرور بدلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ وزیراعظم سے لے کر وزراءتک کے
بیانات سے ابھی تک یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ اس بار وقت نے کروٹ لے لی ہے
اور اس بار کسی کا بھلا ہو یا نہ ہو عوام کا بھلا ضرور ہونے والا ہے۔ اس
بار عوامی خدمت ضرور ہونے والی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ نئی حکومت کو کچھ وقت تو
چاہیئے ہی ہوگا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں اور پھر مسائل کی طرف
لوٹیں۔ راقم ذاتی طور پر بغیر ملے ہوئے نئے وزیرِ خرانہ صاحب کی صلاحیتوں
کا معترف ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ مجھے پسند ہوں اسلئے لیکن بخدا
مجھے کبھی ان سے ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عوام
درد رکھنے والے درد مند انسان ہیں۔ جیسا کہ آج کل ہر اخبار میں مہنگائی،
لوڈ شیڈنگ ، روزگار اور سرکاری ملازمین کو سہولتیں دینے کی بازگشت سنائی دے
رہی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ بھی ان سب خبروں سے بے خبر نہیں ہونگے۔ چونکہ بجٹ
کے اعلان میں بہت زیادہ وقت نہیں بچا ہے پھر بھی وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے
کار لاتے ہوئے ان تمام مسائل کو ذہن میں رکھ کر بہترین بجٹ پیش کرنے کی
صلاحیت رکھتے ہیں۔ اب عوام کو بجٹ کا انتظار ہے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔
آج پاکستان میں ایک حقیقت تو بناوٹ کے پردے کو پھاڑ کر باہر آ چکی ہے اور
وہ ہے لوڈ شیڈنگ اور روزگار کا نہ ہونا۔ عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والی
حکومتوں نے اب تک عوام کو بنیادی سہولتیں دینے میں ناکام ہی رہی ہیں۔ یہ
بات سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ کیوں حکومتیں عوامی بھلائی کے کاموں کو نظر
انداز کرتی ہیں؟ عوام نے تو اپنا اندازِ رائے دہی میں تبدیلی کر لی ہے اور
جمہوریت میں سب سے مضبوط چیز ووٹ ہوتی ہے جسے انہوں نے اپنے منشاءکے مطابق
استعمال کر لیا ہے ۔ اور ووٹ دیکر عوام نے آپ کو مضبوط اور طاقتور بنا دیا
ہے۔ ۵۶ سالوں میں عوام نے آپ کو مضبوط بنانے کے چکر میں خود کو اتنا کمزور
کر لیا ہے کہ آپ کی ہر بات اور ہر چیز سے ڈر جاتے ہیں اگر آپ نے جمہوری و
آئینی طاقت کو سمجھا ہوتا تو آپ آج خوف کی نفسیات میں مبتلا نہ ہوتے اور آپ
کی طاقت سے لوگ ڈرتے۔ ظاہر ہے کہ جب ہم اپنی طاقت کا استعمال بھی ڈرے سہمے
ہوئے رہ کر کریں گے تو اس کا کوئی منطقی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ اسی لئے نئی
منتخب حکومت کو بھی کسی دباﺅ میں آئے بغیر کارہائے انجام دینا پڑیں گے تاکہ
عوام کی زندگی میں بھی سُکھ و چین کا بسیرا نظر آئے۔زندگی اور سیاست کا ایک
اصول اور مقصد جمہوری نظام میں ہی بنانا ہوگا اور اگر ان اصولوں پر آنچ آئے
گی تو ٹکرانا بھی پڑے گا۔ کیوں کہ دنیا میں کوئی کتنا ہی بڑا اور اہم ہو
سکتا ہے لیکن خدا سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔میرا مو ¿قف حکومت کے ارباب سمجھ
گئے ہونگے کیونکہ انہی اصولوں پر چل کر امن و امان جیسا بنیادی مسئلہ حل ہو
سکتا ہے۔ جس کی آج ملک بھر میں خاص طور پر شہرِ قائد اور کوئٹہ میں فوری
ضرورت ہے۔ملک میں امن و امان ہوگا تو بیرونی سرمایہ کاری بھی زیادہ ہوگی۔
اور اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آ سکیں گے۔ نئی حکومت کے سامنے تو
واقعی اس وقت مسائل کا انبار ہے مگر چند چیدہ چیدہ مسائل ایسے ہیں جنہیں
فوری حل کرنا ضروری ہے جن میں لوڈ شیڈنگ، امن و امان، روزگار کی فراہمی،
کرپشن کا خاتمہ وغیرہ۔
نئی حکومت کو ایسے میں واقعتا ایک مدبرانہ موقف اختیار کرتے ہوئے اچھی
حکومت کرنی چاہیئے ۔ بلا رنگ و نسل و زبان ملک بھر کے عوام کو سہولتیں
پہنچانے میں کسی تگ و دُو سے کام نہیں لیناچاہیئے اور اپنے عمل سے یہ ثابت
کردیناچاہیئے کہ ان کی ہی حکومت بہترین ہے تاکہ آئندہ کے لئے بھی عوام آپ
ہی کو مسندِ اقتدار دلانے کی طرف مائل ہو سکیں۔اپنے داخلی مسائل سے نمٹنے
کے لئے چھوٹی پارٹیوں کو اقتدار میں شامل کرکے امن و امان کو قائم کریں
کیونکہ یہ چھوٹی پارٹیاں آپ کے لئے معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ملک میں انتہا
کوپہنچے ہوئے کرپشن اور معیشت کا سدھار بھی کسی آزمائش سے کم نہیں ہے مگر
نئے وزیراعظم صاحب میں تجربہ کی بھی کمی نہیں ہے وہ دو مرتبہ ملک کی قیادت
کر چکے ہیں اور تیسری بار بہت مدبرانہ سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ،انہیں
اپنے تمام تجربوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ملک کی سلامتی،خوشحالی اور امن کی
راہ پر قیادت کرنی چاہیئے۔ہماری دعاہے کہ اس ملک کے باسیوں کو وہ تمام
بنیادی سہولتیں میسر آجائیں جس کے لئے وہ تڑپ رہے ہیں۔
آج پاکستانی معاشرہ اخلاقی پستی ،مہنگائی ،لوڈ شیڈنگ کی دلدل میں تیزی سے
دھنستا چلاجارہاہے۔ اور ایسا محسوس کیاجارہا ہے کہ ہم سب نے انسانیت کا
لبادہ اُتار پھینکا ہے اور حیوانیت کی ردا اوڑھ لی ہے۔ہمارے اندر نہ کوئی
شرم و حیا بچی ہے اور نہ ہی غیرت و حمیت۔احساسِ ندامت تو جانے کب کا دم
توڑچکاہے اور ہمارا ضمیر تو جانے کب کاہی مرچکاہے اور ہم سب نے اس کی تجہیز
و تکفین بھی کر دی ہے۔آج انسان ،انسان سے ڈر رہا ہے ،کیسے حالات بنا دیئے
گئے ہیں ملک میں،غریب بھوکا مر رہا ہے اور یہاں سب ٹھیک ہے کا نعرہ بلند
کیاجا رہا ہے۔اگر واقعی ایسا نہیں ہے اور ہم سب کے اندر احترامِ انسانیت کی
ذرا سی بھی رمق باقی ہے تو پھر ہمیں اپنے گریبانوں میں منھ ڈال کر
سوچناچاہیئے کہ آخر ہمارے معاشرے میں اس وقت کیا ہو رہا ہے۔صبح کو اخبار
اٹھایئے یا کوئی نیوز چینل دیکھئے تو بے امن و امانی ہمارا منہ چڑاتی ہوئی
مل جائے گی۔کیونکہ پندرہ سے بیس بے گناہ افراد روز ہلاک کر دیئے جاتے
ہیں۔اور پھر دھماکے،قتل وغارت گری نہ صرف معیشت بلکہ انسان کو بھی پتھروں
کے زمانے میں ڈھکیل رہے ہیں۔ہم سے اچھے تو وہ غیر تربیت یافتہ قوم ہیں جو
انسانیت اور آدمیت کا احترام کرناجانتی ہیں اور جو اپنی حرص و حوس کےلئے
اخلاقیات کا جنازہ نہیں نکالتیں۔اگرہم واقعی مردہ نہیں ہوئے ہیں تو ہمیں
سوچناہوگاکہ ہم کہاں اور کدھر جا رہے ہیں کیا ہم اپنے آنے والی نسلوں کو
ایک مہذب معاشرہ دینے کے اہل ہیں۔اگر نہیں تو ہمیں ترقیاتِ زمانہ سے دست کش
ہوکر انسانیت اور آدمیت کا سبق پڑھنے کی کوشش کرناچاہیئے۔ |