یہ 24 اور 25 دسمبر 2012 کی درمیانی رات تھی۔ رات کا نصف
حصہ بیت چکاتھا۔کراچی کے علاقے ڈ یفینس میں وڈیروں کے ایک خانساماں نے سابق
ڈی ایس پی اورنگ زیب کی بیٹی سے بدتمیزی کی۔ اورنگزیب کا بیٹا شاہ زیب اپنی
بہن کے ساتھ بدتمیزی برداش نہ کرسکااور خانساماں کو تھپڑدے مارا۔ وڈیروں کو
اپنے خانساماں کے منہ پہ تھپڑ پڑنا کہاں گورا تھا۔ لہٰذا اس تھپڑ کی پاداش
میں دولت کی طاقت کے نشے میں دھت شارخ جتوئی، سراج علی تالپور،سجاد علی
تالپور اور غلام مرتضیٰ لاشاری نے شاہ زیب کو گولیاں مار کر قتل کردیا۔
25دسمبر کی رات درخشاں تھانے میں قتل کی ایف آئی آر سابق ڈی ایس پی اورنگ
زیب کی مدعیت میں درج کرائی گئی۔ وڈیروں، جاگیرداروں اور کئی اعلیٰ شخصیات
کے دباﺅ پر اس معاملہ کو دبانے کی کوشش کی گئی۔عین ممکن تھا کہ یہ واقعہ
بھی صدیوں پر پھیلے وڈیروں اور جاگیرداروں کے ظلم و ستم کے واقعات کی طرح
وقت کی گرد کے نیچے ہمیشہ کے لیے دب جاتا، لیکنسوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا
اور پریس میڈیا نے اسے اندھے قانون کے اندھیروں میں گم نہیں ہونے دیا۔ جب
یہ واقعہ عوام تک پہنچا تو عوام نے آنکھیں کھول کھول کر دیکھا کہ یہ تو
کھلا ظلم ہے۔ شاہ زیب کے دوست، سول سوسائٹی اور مظلوموں کے ہمدرد اس ظلم کے
خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ شاہ رخ جتوئی کے پیچھے کھڑے ہوئے نظام نے اپنے طبقے
کے ایک ظالم فرد کو عوام کے غیظ و غضب، قانون اور انصاف کی گرفت سے بچانے
کے لیے شاہ رخ کو ملک سے باہر بھگادیا، لیکن میڈیا کی انگڑائی اوراکثریت کی
ترجمان مڈل کلاس کی جاگتی آنکھوں نے قانون اور انصاف کو جھنجھوڑ ڈالا ۔جب
مقتول کو انصاف دلوانے کی مہم نے زور پکڑا تو 30دسمبر کو چیف جسٹس نے ازخود
نوٹس لیتے ہوئے مجرموں کو کٹہرے میں لاکر مقتول کے ورثاءکو انصاف دلانے کی
مکمل یقین دہانی کرائی۔ تین ملزمان سراج تالپور، سجاد تالپور اور غلام
مرتضٰی لاشاری کو ملک سے ہی گرفتار کیا گیا اور سپریم کورٹ کی ہدایت پر
مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی کو دبئی سے گرفتار کرکے کراچی لایا گیا۔ ملزمان کی
شناختی پریڈ کرائی گئی۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف عدالت میں چالان پیش کیا۔
شاہ رخ جتوئی سمیت چار ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔دو چشم گواہوں سمیت
25 گواہوں نے بیانات قلمبند کرائے۔
عدالت کے جج غلام مصطفیٰ میمن نے مقدمے کا فیصلہ محفوظ کیا اور سات جون کوا
نسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہ رخ
جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت جبکہ سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ
لاشاری کو عمر قید کی سزا سنائی، عدالت نے چاروں مجرموں پر5،5 لاکھ روپے
جرمانہ عائد کرنے کے ساتھ انہیں سندھ ہائی کورٹ میں سزا کے خلاف اپیل کےلئے
7 دن کی مہلت بھی دی۔ سزائے موت سننے کے بعد عموماً مجرموں کے چہروں پر
ہوائیاں اڑ جاتی ہیں مگر شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھی اس طرح وکٹری کا
نشان بناتے اور شور شرابا کرتے عدالت سے نکلے جیسے کوئی معرکہ سر کر لیا ہو۔
ان کے چہرے پر ندامت کی بجائے مسکراہٹ تھی۔ ان کے چہروں پر جرم کی پشیمانی،
افسوس یا تاسف کا کوئی تاثر نہ تھا۔ اس موقع پر شاہ زیب کے والد اورنگ زیب
خان نے کہا کہ ہمارے نقصان کی تلافی نہیں ہوسکتی، فیصلہ اللہ تعالی پر چھوڑ
دیا ہے، وہی انصاف کرے گا۔ میرے بچے پر گولی چلانے والوں کو سزا ملنی چاہیے،
ہم نے آنے والی نسلوں کے لیے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ یہ ایک عام آدمی اور
سرمایہ دار کی جنگ تھی، کسی امیر کا بچہ برا نہیں ہوتا اس کی تربیت غلط
ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے پڑوسیوں ، شاہ زیب کے دوستوں اور میڈیا کا شکریہ
ادا کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ ہمارا ساتھ نہ دیتے تو شاید انصاف مشکل سے ہی
مل پاتا۔ہمیںدھمکیاں دی گئیں، بااثر شخصیات سے دباﺅڈلوایا گیا۔ ہمیں انصاف
حاصل کرنے کے لیے کئی مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔اللہ کا شکر ہے کہ ہم سرخرو
ہوگئے۔
اگر معاشرے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہیہ اکیلا شاہ زیب
نہیں جو کسی وڈیرے گھرانے کے ظلم کا شکار ہوا۔ دوسروں پر ظلم کرنا
جاگیرداروںاور وڈیروں کے سماج میں معمول کی بات ہے اور ہم ایسے واقعات کو
ٹھنڈے پیٹوں پرداشت کرنے کے عادی ہیں۔ہمارے ملک میں جاگیرداروں، وڈیروں نے
دولت و طاقت کے نشے میں اودھم مچا رکھی ہے۔ غریب اور شریف آدمی کی عزت
محفوظ ہے نہ جان و مال اور نہ بہو بیٹیوں کی آبرو، ان کی دولت و طاقت کے
خوف سے سب خاموش ہیں۔وڈیرہ شاہی اور جاگیردارانہ معاشرے میں کسی کی بہو
بیٹی کو راہ چلتے چھیڑنا معمول کی بات ہے۔کیونکہ وہ وسب کو اپنا کمی کمین
اور کمتر سمجھتے ہیں۔
وڈیروں اور جاگیرداروں کی طرف سے آئے دن خواتین کی انفرادی اور اجتماعی بے
حرمتی اور آبرو ریزی کے واقعات ٹی وی اسکرین اور اخباری صفحات پر دیکھے
جاتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں غریب خاندانوں کی بہو بیٹیوں کے اغوا، آبرو
ریزی، ہاریوں، کسانوں کا قتل اس وڈیرہ شاہی کلچر میں روز کا معمول ہے۔
ہاریوں کے خاندانوں کو نجی جیلوں میں قید کرکے ان سے عشروں تک بیگار لینا،
ان کی بہو بیٹیوں کی عزت لوٹنا، اس قدر غیر اہم واقعات سمجھے جاتے ہیں کہ
کوئی ان کا نوٹس بھی نہیں لیتا، جب کسی نشان دہی پر ہاریوں کے خاندانوں کو
وڈیروں کی نجی جیلوں سے بازیاب کرواکر محترم عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے
تو ہماری آزاد عدلیہ انہیں یہ انصاف دیتی ہے کہ وہ ”آزادی سے زندگی گزار
سکتے ہیں“۔ انہیں عشروں تک اپنی نجی جیلوں میں قید رکھنے والے بدترین
مجرموں کو سزا دینے کی کوئی خبر میڈیا پر نہیں آتی۔ ہمارے ملک کا المیہ یہ
ہے کہ وڈیرہ شاہی نظام ختم نہ کیا جاسکا اور آج بھی وڈیرے اور جاگیردار
لاکھوں ایکڑ اراضی پر قابض ہیں، ان کی طاقت کا عالم یہ ہے کہ باوجود شدید
دباؤ اور مطالبات کے آج تک اس طبقے سے زرعی ٹیکس تک وصول نہیں کیا جاسکا۔
یہ طبقہ 65 سال سے ہاریوں، کسانوں سے زبردستی ووٹ لے کر قانون ساز اداروں
پر قابض ہوجاتا ہے اور سیاسی جماعتیں انہیں اپنے لیے اعزاز سمجھ کر اس لیے
قبول کرتی ہیں کہ ”ان کے پاس الیکشن جیتنے کی طاقت و دولت“ موجود ہوتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں دو طبقے ہیں،ایک ملک کا غریب یا متوسط طبقہ، دوسرا وڈیروں
اور جاگیرداروں اور اسی قسم کے دولت مندوں کا طبقہ ۔شاہ زیب کا تعلق پہلے
طبقے سے تھا اور شاہ رخ کا تعلق دوسرے طبقے سے ہے۔ ان دو طبقوں کے درمیان
محاذ آرائی بہت پرانی ہے۔ اس مخاصمت کا المیہ یہ ہے کہ مظلوم شاہ زیب
اکثریت کے طبقے سے تعلق رکھتے ہوئے بھی کمزور فریق بنتا ہے اور ظالم شاہ رخ
اقلیت کے طبقے سے تعلق کے باوجود طاقتور فریق بنتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
اکثریت کے فرد شاہ زیب کے پاس دولت کے انبار نہیں ہوتے، جبکہ اقلیت کے فرد
شاہ رخ کے پاس دولت کے انبار، وڈیرہ شاہی اور جاگیرداری کا نشہ ہے۔ اس لیے
اس اقلیت شاہ رخ کو اپنے کیے پر کوئی ندامت نہیں ہوتی کیونکہ انہیں اپنی
دولت پر ناز ہوتا ہے۔ شاہ زیب قتل کیس میں تو بہت ہی تگ و دو، احتجاج اور
شاہ زیب کے والد کے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعلقات کی بنا پر انصاف
مل گیا۔ لیکن وڈیروں اور جاگیرداروں کے ظلم و ستم کے رونما ہونے والے
سینکڑوں واقعات میں سے کسی کو انصاف نہیں ملتا۔ بلکہ اس کیس میں بھی وڈیرے
ملزمان سزا سننے کے بعد یوںٹھٹھا کر رہے تھے اور وکٹری کا نشان بنا رہے تھے
جیسے کہہ رہے ہوں کہملک کے تمام قانون ہماری جیب میں ہیں، عدالت نے فیصلہ
تو کردیا عملدرآمد کرانا آسان کام نہیں ہے۔ |