نذیر ناجی صاحب ایک پرانے کہنہ مشق صحافی ہیں۔ انہوں نے عمر صحافت میں گزار
دی ہے لیکن نہ جانے کیوں وہ حقائق سے ہمیشہ نظریں چراتے ہیں اور صرف برسر
اقتدار طبقے ہی کی مداح سرائی اور اس کی تمام جائز و نا جائز پالیسیوں کا
دفاع کرتے رہتے ہیں۔ مشرف کے آٹھ سالہ دور میں ان وہ مشرف کی ہاں میں ہاں
ملاتے رہے، اس سے قبل وہ میاں نواز شریف کے دست راست تھے۔ آج کل یہ محترم
بزرگ پاکستان پیپلز پارٹی کی مداح سرائی میں رطب اللسان ہیں۔ ہمیں اس بات
پر کوئی اعتراض نہیں ہے کہ کس کی حمایت کرتے ہیں اور کس کی مخالفت یا آج پی
پی پی کی تعریف کررہے ہیں تو کل کسی اور کی کریں گے۔ ہماری ان سے ایک ہی
درخواست ہے کہ براہ مہربانی کسی کی تعریف کرتے وقت تاریخ اور حقائق کا گلا
نہ گھونٹیں۔ آج کل یہ محترم بزرگ سوات آپریشن کی حمایت میں تاریخ کا جو
بیڑہ غرق کر رہے ہیں وہ قابل توجہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اسلام دشمنی میں
اس قدر آگے چلے گئے ہیں کہ اپنے ایک کالم جو کہ اکیس مئی کو جنگ میں شائع
ہوا بنام ( اس جنگ میں بہت سی جنگیں ہیں ) میں قادیانیوں کو مسلمانوں کا
ایک گروہ قرار دیدیا جبکہ قادیانی فتنہ کو تمام مکاتبہ فکر نے بالاتفاق
کافر قرار دیا ہے لیکن موصوف فرماتے ہیں “ اس کے نتیجے میں تباہ کن فرقہ
واریت کا زہر پھیلنے لگا، ایک گروہ کو آئینی طور پر کافر قرار دے کر اس کے
شہری حقوق سلب کرنے شروع کردئے گئے “ سب کو پتہ ہے کہ آئینی طور پر
قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا تھا لیکن موصوف نے اسلام دشمنی میں اس کو
مسلمانوں کا ایک فرقہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر
رہے کہ قادیانیوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں اور عقیدہ ختم نبوت کے انکار کے
باعث تمام مکاتب فکر کے علماء نے متفقہ طور پر ان کو کافر قرار دیا تھا اور
یہ کوئی ایسا فتویٰ نہیں تھا کہ کسی ایک مفتی یا مولوی نے کوئی فتویٰ دیدیا
بلکہ اس پر پارلیمنٹ میں باقاعدہ جرح ہوئی، اور اس میں مولانا شاہ احمد
نورانی، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد اور دیگر علماء کرام پیش ہوتے تھے
اور قادیانیوں کی جانب سےاس وقت کے خلیفہ غالباً مرزا بشیر حاضر ہوتے تھے (
اس وقت میری یادداشت میں مکمل طور پر درست نام نہیں آرہا ہے ) اور باقاعدہ
مناظرہ ہوتا تھا۔ اس کے بعد اس گروہ کو کافر قرار دیا گیا لیکن نذیر ناجی
صاحب آج تک اس کو مسلمانوں کا ایک گروہ گردانتے ہیں۔ اس سے ہی ان کی اسلام
اور پاکستان دوستی کا بھرم کھل جاتا ہے۔
اپنے ایک اور کالم جو کہ نو مئی کو جنگ اخبار میں شائع ہوا بعنوان ( جنگ
بہت طویل ہے ) میں پینسٹھ کی جنگ کے ایک کردار سپاہی مقبول حسین کا ذکر کیا
ہے یہاں بھی انہوں نے بددیانتی کا ثبوت دیتے ہوئے مکمل بات ظاہر نہیں کی ہے۔
لکھتے ہیں کہ (میں نے سپاہی مقبول حسین کے اعزار میں جنرل کیانی کی طرف سے
برپا کی گئی میں تقریب دیکھی ہے جس میں پاک فوج اور ملک بھر کے دانشور اور
صحافی اسے خراج تحسین پیش کررہے تھے دشمن نے اسے طویل عرصہ قید رکھ کر ظلم
و ستم کے پہاڑ توڑے مگر-وہ ہر نئی اذیت پر پاکستان زدہ باد کےنعرے کے سوا
کوئی لفظ منہ سے نہ نکالتا تھا اور اس کے جسم سے جو خون بہتا اس سے وہ
عقوبت گاہ کی دیواروں پر پاکستان زندہ باد لکھ دیتا- طویل قید کے بعد اسے
رہائی نصیب ہوئی تو وہ بوڑھا، ضعیف اور گونگا ہوچکا تھا- وطن واپس پہنچتے
ہی اس نے اپنے یونٹ میں پہنچ کر کمانڈر سے کہا “ سپاہی مقبول حسین حاضر ہے“
یہ بلاشبہ ایک سچے سپاہی کی داستان ہے اور وہ سپاہی جو وطن پر جان قربان
کردینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ نذیر ناجی صاحب نے اس سپاہی کی داستان تو سنا دی
لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ دشمن کون تھا۔ جی وہ دشمن بھارت ہے جس کو آج کل
ان کے ممدوح جناب آصف علی زرداری کے بقول پاکستان کو کبھی بھارت سے خطرہ
نہیں رہا یہ وہی بھارت ہے۔
آج ہمارے بزرگ نذیر ناجی صاحب سوات آپریش کی پر زور حمایت کررہے ہیں اور
قوم سے اپیل کررہے ہیں اس آپریشن کی حمایت کرے، میڈیا اور فنکار جنگی ترانے
گانا شروع کردے۔ لیکن اکہتر کی جنگ میں جن لوگوں نے پاک فوج کے ساتھ مل کر
بھارتی ایجنٹوں، مکتی باہنی، عوامی لیگ کے خلاف پاک فوج کے آپریشن کی، اس
پاک فوج کی مدد کرنے والے محب وطن عناصر پر لعن طعن کررے ہیں۔ کیا اس لیے
کہ اس وقت کو آپریشن بھارتی ایجنٹوں کے خلاف تھا اور آج کے آپریشن میں
طالبان کی آڑ میں تمام دین پسندوں کی ختم کردینے کی سازش کی جارہی ہے۔؟ اور
اس وقت کا آپریشن ملک بچانے کے لیے تھا کیوں کہ بھارت واضح طور پر باغیوں
کی مدد کر رہا تھا اور پاکستان توڑنے کی سازش کر رہا تھا اور آج کا آپریشن
ملک کی سالمیت کے لیے ایک خطرہ ہے؟ ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ محترم بزرگ
نذیر ناجی صاحب آج کل اکہتر کے سانحہ کا جب بھی ذکر کرتے ہیں تو اس میں پاک
فوج اور اس کے حامیان کو ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں لیکن اس سانحہ کے تین
بڑے مرکزی کرداروں کی کوئی بات نہیں کرتے نمبر ایک بھارت جو کہ پوری طرح اس
سازش میں شریک تھا نمبر دو مجیب الرحمان جو کہ بھارتی لابی کے اشارے پر
چلنا شروع ہوا اور نمبر تین ذوالفقار علی بھٹو جنہوں ایک گروہ کو الیکشن
میں اس کی واضح اکثریت کے باجود غیر جمہوری رویہ اپناتے ہوئے اس کا جمہوری
حق تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ بھٹو صاحب کی مخالفت نہ کرنے کی بات تو
سمجھ میں آتی ہے کہ آج کل پی پی پی کی حکومت ہے اور یہ بزرگ کبھی برسر
اقتدار گروہ کی مخالفت کی بیوقوفی نہیں کرتے ہیں لیکن بھارت نوازی کا
معاملہ کچھ اور ہی بات ظاہر کرتا ہے۔ بہر حال ہماری ان سے یہی گزارش ہے کہ
اگر اللہ نے آپ کو ایک وسیع حلقے تک رسائی دی ہے تو اس کو صحیح استعمال
کرتے ہوئے لوگوں تک اصل اور درست بات پہنچائیں۔ شکریہ |