کل دو بندوں کو گرایا تھا، لاش بوری میں ڈالی اور محمود
آباد والی کچراکونڈی میں پھینک دی۔
آج ایک سیٹھ کو پرچی دی ہے،پر اسے میری بات سمجھ نہیں آرہی ۔
دو دن اور رکوں گا پھر اس کے نام کی بوری بھی تیار کرلوں گا۔
میں اپنے علاقے کا سب سے بڑا گینگ لیڈر ہوں۔
نہ نہ نہ، جو خود کو مجھ سے بڑا سمجھتے ہیں وہ بڑے نہیں ہیں، وہ تو بس خالی
خولی مُہرے ہیں اور ان سالوں کا کیا، آج اِدھر تو کل اُدھر۔
میرے علاقے میں میری مرضی کے بغیر پرندہ پَر نہیں مارسکتا۔ ایس ایچ او
بھیگی بلی کی موافق میرے سامنے کھڑا رہتا ہے۔ جب بھی حکومت نے سختی کی کہ
شہر میں امن وامان کی صورت حال بہتر کرو، جھٹ میرے پاس فون پر فون آنے لگتے
ہیں ۔کہ ذاکر لنگڑا سب ٹھیک کردے گا۔
نہیں نہیں، میرا تعلق کسی جماعت سے نہیں۔ میں تو ان لیڈروں کو خود سے بڑا
لٹیرا مانتا ہوں۔
توبہ! میں تو لوگوں کو مارتے اور لوٹتے ہوئے کبھی کبھی اپنے کانوں کو ہاتھ
بھی لگالیتا ہوں، پر میں نے دس سال بدمعاشی کی زندگی میں ایسے ابلیس نہیں
دیکھے۔ کبھی کسی نے مجھے استعمال کیا تو کبھی کوئی اور کسی کے سر کی قیمت
دے گیا۔ پر خدا کا خوف کسی کو نہیں۔
یہاں تک کہ کسی اشتہاری کو پکڑنا ہو تو پولیس میرے پاس ان کاؤنٹر کی رقم
جمع کرواکے چلی جاتی ہے۔
مجھے خدا کا خوف آتا ہے، جب میں کسی کی جمع پونجی چھین کر اپنی تجوری میں
ڈالتا ہوں یا جب خون سے میرے ہاتھ رنگے ہوتے ہیں،تو بہت خوف آتا ہے۔ خدا
قسم اس کی ذات سے خوف آتا ہے، پر میں اب پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ ذاکر لنگڑا
پیچھے ہٹ گیا تو یہ اوپر بیٹھے لوگ سب کچھ ختم کردیں گے۔ یہ تو مجھے
استعمال کرتے ہیں، میں ان کے کام کا نہیں رہوں گا تو یہ مجھ پر زمین تنگ
کردیں گے۔ مجھے اپنی جان کی فکر نہیں، میرے ساتھ میرے گینگ کے سارے لوگ
مارے جائیں گے۔
میں اب اس زندگی سے نہیں نکل سکتا۔ ہاں میں اس زندگی میں مر ضرور گیا ہوں۔
مر تو میں اسی وقت گیا تھا جب میرے باپ کو کوئی نوکری نہیں دیتا تھا۔ میں
نو سال کا تھا۔ میرا باپ سرکاری اسپتال میں وارڈ بوائے تھا۔ نئی حکومت آئی
پرانی گئی، سارے پُرانے بندوں کو فارغ کردیا گیا۔ میرے باپ کو بھی نکال
پھینکا۔ سال گزرا، دو سال گزرے، میرا باپ یہاں وہاں کام ڈھونڈتا رہا پر
کوئی کام نہ ملا۔ میری ماں گھروں میں کام کرنے لگی۔ ہم آٹھ بہن بھائی تھے۔
باپ نے نشہ شروع کردیا اور ایک روز گھر میں اطلاع آئی کہ ابا کو کسی نے مار
دیا ہے۔ میں اس کی لاش لینے اسی اسپتال پہنچا جہاں ملازمت کے لیے ابا نے دو
سال تک جوتیاں گھسیں تھیں، لیکن اس کے لیے اسپتال میں کوئی جگہ نہ بنی۔ اس
روز ابا کو کم از کم اسپتال میں جگہ تو مل گئی تھی۔ پر وہ مردہ تھا، اور بے
یارومددگار اس اسپتال کی ایک سلیب پر پڑا تھا۔ اس سلیب سے خون بہہ بہہ کر
زمین پر گر رہا تھا۔ میرے دونوں ہاتھ خون میں لت پت ہوگئے تھے۔
پر رویا میں اس وقت بھی نہیں تھا۔
جیسے تیسے انتظام کرکے ابا کو دفنایا۔گھر کے بُرے حالات تو تھے ہی، اب مزید
خراب ہوگئے۔ میں ایک مکینک کی دکان پر لگ گیا۔ دکان کا مالک مجھے پیٹتا
ذلیل کرتا، جتنا میں کام کرتا تھا مجھے اس سے تین گنا کم پیسے ملتے تھے۔
پر رویا میں اس وقت بھی نہیں تھا۔
بڑی بہن ہر وقت کھانستی رہتی۔ جہاں میں رہتا تھا اس علاقے میں زیادہ تر
لوگوں کو کھانسی تھی اور وہاں معذور بچے پیدا ہونا عام بات تھی، کیوں کہ اس
علاقے کے پاس بڑے بڑے کارخانے تھے، جن سے عجیب سی بساند آتی تھی۔ ان
کارخانوں کی ساری گندگی ہماری بستی کے پیچھے بہنے والے نالے میں بہتی رہتی۔
جب کوئی بچہ کھیل ہی کھیل میں نالے میں بہتی اس گندگی کو چھولیتا تو اس کا
ہاتھ جل جاتا، مگر بستی کی کم عقل مائیں چیخنے چلانے اور اپنے بچوں کو
مارنے پیٹنے اور نالے کے پاس جاکر کھیلنے سے روکنے کی ناکام کوشش کے سوا کر
بھی کیا سکتی تھیں۔
میری بہن کو نہ جانے کیا ہوا، ایک دن وہ بہت کھانسنے لگی۔ میں اسے دیکھ رہا
تھا۔ ماں کام پر گئی تھی۔ میں کچھ بول نہ سکا۔ اسے سہارا دے کر اٹھایا اور
پانی کے چند قطرے اس کے منہ میں ڈالے۔ وہ میرے ہاتھوں ہی میں بے جان ہوگئی۔
پررویا میں اس وقت بھی نہیں تھا۔
مجھے اپنے چھوٹے بھائی سے بہت پیار تھا۔ میرے گھنگریالے بالوں والا بھائی
اپنی گول گول آنکھیں گھماتے ہوئے کئی شرارت کرتا تو مجھے وہ بہت پیارا
لگتا۔ وہ اب سات سال کا ہوگیا تھا۔ میں نے اسے اسکول میں داخل کروادیا اور
پُرسکون ہوگیا کہ چلو کہ اب میرا ایک بھائی تو پڑھے گا۔ ایک روز اس کی لاش
گھر آگئی۔ اس کا چہرہ خون سے لال تھا۔ اسکول کے ماسٹر نے سبق یاد نہ کرنے
پر اسے اتنا مارا تھا کہ اس کا سر پھٹ گیا۔ زخم ایسی جگہ لگا تھا کہ وہ اسی
وقت مرگیا۔
پر رویا میں اس وقت بھی نہیں تھا۔
اس کی لاش ہاتھوں پر اٹھائے پولیس اسٹیشن پہنچا تو تھانے دار نے ایف آئی
کاٹنے کے پیسے مانگے۔ پیسے تو میرے پاس میت کو دفنانے کے نہ تھے، ایف آئی
آر کہاں سے کٹواتا۔ بھائی کی لاش گھر میں چھوڑ کر اپنے سیٹھ سے پیسے مانگنے
گیا۔ اس نے پیسے دینے سے انکار کردیا۔
پررویا میں اس وقت بھی نہیں تھا۔
گیراج میں میز پر چھری رکھی تھی۔ میں اس وقت اپنے حواسوں میں نہ تھا۔ میں
نے چھری اٹھائی اورسیٹھ کو ٹھنڈا کردیا۔ اس کے غلک کی رقم ایک تھیلی میں
ڈالی اور سیدھا اس ماسٹر کے پاس گیا جس نے میرے بھائی کو مارا تھا۔ وہ مجھے
دیکھ کر پریشان ہوگیا۔ جس چھری سے میں نے سیٹھ کو مارا تھا اسی سے ماسٹر کا
کام تمام کردیا۔نوٹوں سے بھری تھیلی لیے گھر پہنچا۔ دروازے پر ہی ماں کو
تھیلی پکڑا کر آخری بار پیار کیا اور کہا کہ بھائی کو دفنا دینا۔
پررویا میں اس وقت بھی نہیںتھا۔
پھر میں نکل پڑا کراچی کی سڑکوں پر۔ مجھے کون پکڑتا، آج تک کون پکڑا گیا
ہے، ویسے بھی میں تو گم نام تھا، نامعلوم۔
ایک واردات کی، دوسری کی، لوگ ملتے گئے۔ میں امیر ہوتا گیا، پر مجھے کسی نے
نہیں پکڑا۔
کیا ابا کو نوکری سے بلاوجہ نکلوانے والوں کو پکڑا گیا تھانہیں ناں! مجھے
محنت سے کم اُجرت دینے پر استاد کو کسی نے پکڑانہیں ناں! تو مجھے کون
پکڑتا۔ کارخانے کی گندگی بستی کے قریب نالے میں ڈالنے پر کارخانے کے مالک
کو کسی نے پکڑا نہیں ناں! میرے بھائی کی جان لینے والے ماسٹر کو کسی نے
پکڑاتو مجھے کون پکڑتا۔
ذاکر اب ذاکر لنگڑا بن گیا ہے۔ جب میرے پاس اپنی شناخت تھی اس وقت کسی
ادارے کو میرا خیال نہ آیا، تو آج تو میری شناخت بھی اصلی نہیں۔ اب کون سا
ادارہ میرے قریب آئے گا۔
حکومت بدل گئی ہے۔ کہتے ہیں اب ناانصافی نہیں ہوگی۔ نہ ہو، مگر میرے شہر
میں کوئی فرق نہیں پڑنے کا۔
آہاتھک گیا۔ میں نے ٹی وی پہ دیکھا تھا سیاست دانوں کو تقریر کرتے ہوئے۔
بڑی دھانسو تقریر کی تھی۔ واہ بھئی مزا آگیا۔ پتا چلا ہے کہ تبدیلی لانے
والے نے اس تقریب کے لیے ڈیڑھ لاکھ روپے کی شیروانی سلوائی۔
کتنے ہی ننھے مُنے ذاکر ڈیڑھ روپے کی ٹافی کھانے کے لیے ترستے ہیں، پھر بڑے
ہوکر ڈیڑھ لاکھ روپے کے سپنے دیکھنے لگتے ہیں اور ذاکر لنگڑا بن جاتے ہیں۔
ڈیڑھ لاکھ روپے کی شیروانی اور تبدیلی
ہاہاہا۔ لابھئی! لسٹ پکڑا، آج کسے بھتّے کی پرچی دینی ہے |