تاریخ کے مطالعہ سے اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ زمانہ ماضی سے لے کر
آج تک چہروں پر ناک ہمیشہ رہی ہے- بطور ثبوت آپ کسی بھی مجمع میں چلے جائیں،
آپ کو ہر چہرے کے ساتھ ایک ناک دکھائی دے گی- چاروں طرف ناکیں ہی ناکیں نظر
آئیں گی- ناک انسانی چہرے کا غالباً مہمل ترین حصہ ہے- بنی نوع انسان کو
جتنا نقصان و پریشان ناک نے کیا ہے کسی اور چیز نے نہیں کیا-
کچھ لوگ بالکل ناک میں بولتے ہیں- کئی ناک کے ذریعے خراٹے لیتے ہیں- کچھ
ہمیشہ ناک کی سیدھ میں چلتے ہیں- کئی لوگوں کو ناک میں نکیل ڈال کر مطیع
کیا جا سکتا ہے- انسان ناک گھِس کر منتیں کرتا ہے- توبہ کرتے وقت ناک رگڑتا
ہے- ناک میں اگر دَم آجائے تو ناک سے تین سیدھی لکیریں کھینچتا ہے- خاندان
بھر کی ناک بنا رہتا ہے- اپنی ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتا- کسی کی
بیہودہ حرکت سے خاندان کی ناک کٹ جاتی ہے- موم کی ناک کو جدھر چاہیں موڑ
لیں- ناک ہمیشہ آگے ہوتی ہے، سَر کے پیچھے نہیں ہوتی- ناک کا بال ناک سے
زیادہ قیمتی ہوتا ہے- بعض لوگ دوسروں کے معاملے میں خواہ مخواہ اپنی ناک
ٹھونس دیتے ہیں- ناک ساکن ہے لیکن چہرہ متحرک ہے، اس لیے جہاں چہرہ جاتا ہے،
وہیں ناک کو بھی جانا پڑتا ہے- ناک صرف اور صرف سونگھنے کے لیے ہے مگر بہت
سے لوگ اپنی ناک سے ہی بہت کچھ تاڑ جاتے ہیں-
بعض لوگوں کی ناکوں کا رُخ آسمان کی طرف ہوتا ہے جیسے ناک کے رُخ ہی بہشت
جائیں گے- ایک دو جانوروں کو چھوڑ کر سب کے نتھنے ہوتے ہیں- مکمل ناک فقط
انسان کے حصے میں آئی ہے- لیکن پھر بھی حیوانات کی قوتِ شامہ ہم سے تیز ہے-
میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ناک ہی فساد کی جڑ ہے، اسی سے دوستی
ٹوٹتی ہے، اسی سے غیرملکی، ملکی بن بیٹھتے ہیں، اسی ناک کو اونچا رکھنے کی
خاطر٬متاثرین آپریشن کو ‘طالبان‘ کہہ کر ان کو ایک علیحدہ ‘جناح پور‘ کی
ترغیب دی جا رہی ہے- ناک کی اونچائی قائم و دائم رکھنے کے لیئے ملکی مفاد
کو بھی پس پشت پھینکنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی، اگر ناک نیچی ہونے
کا خطرہ ہو تو اس کو اونچا کرنے کے لیئے ‘غیرملکیوں‘ کا بھی ساتھ دینے میں
کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی اس کی ایک مثال تو کراچی میں‘طالبانائزیشن
ڈھول‘ ہے، ظاہر ہے یہ ناک کو سر بلند رکھنے کے لیئے ہی پیٹا جا رہا ہے
کیونکہ ملک وعوام کی خاطر ایسا کرنا زیب نہیں دے سکتا ہے اور یہی
طالبانائزیشن ڈھول ‘کراچی‘ میں بھی ‘ڈراون حملوں‘ کی راہ ہموار کر رہا ہے،
باالفاظ دیگر، ‘استعمار‘ کو ملک میں در آنے کی ترغیب و بہانہ و جواز مہیا
کر رہا ہے-
مُکدی گل، یہ ناک ہی ہے جس سے لڑائیاں، جنگیں، اور دنگل ہوتے ہیں- ناک ہی
کی بدولت لڑکی اپنے شوہر سے خود خلع مانگتی ہے اور شوہر اپنی بیوی کو طلاق
دیتا ہے- ناک ہی کنبوں میں پھوٹ ڈلواتی ہے- ناک ہی غیرت پر قتل کی ابتدا
کرنے والی ہے- الغرض جسطرح حکیم کہتے ہیں قبض سو بیماریوں کی جڑ ہے، اسی
طرح میں کہتا ہوں انسانی ناک ہی فتنہ فساد، خون خرابہ کی ذمہ دار ہے اور
مذاکرات میں ناکامی بھی صرف اسی ناک کی وجہ سے ہوتی ہے- لیکن دوسری طرف
مجھے اس بات کا بھی احساس رہتا ہے کہ ‘ناک‘ کے بغیر انسان کی زندگی، زندگی
نہیں، بلکہ وہ ‘یتیمانہ زندگی‘ ہے- |