ایک مرتبہ زیارتِ حرمین شریفین کے دوران، عصر کے بعد حرم
مکی میں عالم ِاسلام کی نابغۂ روزگارشخصیت مشہورمفسرشیخ محمد علی الصابونی
الحنفی(مصنف ’’صفوۃ التفاسیر‘‘ و’’التبیان في علوم القرآن‘‘ وغیرھ) سے حضرت
سماحۃ الامام الشیخ سلیم اﷲ خان کی ایک مفصل ملاقات ہوئی ، بہت دیر تک عالم
اسلام ،دینی مدارس ،پاکستان کے حالات ،مناہج و نصاب مدارس پر گفتگو جاری
رہی ،قہو ہ ، کھجور اور عطایا وہدایا کا تبادلہ ہوا ،شیخ صابونی مطاف میں
رکن یمانی اورحجر اسودکے درمیان صف اول میں تشریف فرما ہوتے ہیں ،کچھ
کتابوں کا بھی انہوں نے فرمایا، جو اگلے ہی دن اسی وقت اسی جگہ ہمیں ملنی
تھیں۔
ملاقات کے وقت انتہائی گرمی کاموسم تھا،علامہ صابونی صاحب کے پاس ہاتھ
کاپنکھا تھا،وہ مسلسل اپنے بابرکت ہاتھوں سے اسے جھولاکرحضرت شیخ کو ہوا دے
رہے تھے،ہم سب نے بہتیری کوشش کی،کہ ہمیں خدمت کاموقع دیاجائے،لیکن وہ نہ
مانے،البتہ حضرت شیخ نے باصراروہ پنکھاان سے لیا،اوردیرتک جھولاتے رہے۔
علامہ صابونی صاحب کے ساتھ اس مجلس اورمدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ کے
دورے سے یہ اندازہ ہوا کہ عالَم عرب کے اہلِ علم ودانشورحضرات کوپاک وہند
کے اہلِ حق برصغیرکے مکتبہائے فکراوران کے نظریات سے کماحقہ واقف نہیں
کراسکے ہیں،حالاں کہ یہ کام بھی کرنے کاتھا،جس کے بروقت انجام نہ ہونے کی
وجہ سے یہاں کے بہت سے اہل زیغ وانحراف کووہاں مشیخت وامامت کے القاب دئے
جاتے ہیں۔
علامہ صاحب کی کتاب(التبیان في علوم القرآن)جو وفاق المدارس العربیہ
پاکستان کے درجہ سابعہ میں شاملِ نصاب ہے،احقر کو تین چار مرتبہ اسکے
پڑھانے کااتفاق ہواہے، کتاب بے مثال وبے نظیر ہے،تدریس کے ایام میں اسکے
اردو ترجَمہ وتشریح کاکام بھی بحمداﷲ مکمل ہوچکاہے،جس کی کتابت،ترتیب
اورپھرکمپوزنگ بھی عزیزم مولوی عطاء الرحمن شاہ بخاری نے کی ہے،حق سبحانہ
وتعالی کے فضل وکرم سے مذکورہ ترجمہ وتشریح ’’اللمعان‘‘کے نام سے مکتبۂ
لدھیانوی سے چھپ کر ماکیٹ میں آگئی ہے،نیزعربی متن میں ابواب وفصول کے لحاظ
سے بھی کچھ تقدیم وتاخیر ہے، جس کا تذکرہ احقرنے علامہ صاحب سے کیاتھا ،انہوں
نے فرمایاکہ،آپ یہ تبدیلیاں بترتیبِ مذکور کرکے ہمیں ارسال کردیں ،تاکہ ان
پر ایک نگاہ ڈال کر کتاب نئے انداز سے شائع کی جاسکے۔ برادرم مولانامزمل
سلاوٹ صاحب استاذ ورکن شعبۂ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی نے اب یہ کام
کردیاہے،جو بالکل تیار ہے،علامہ صاحب اور ان کے صاحبزادے جناب احمدصابونی
صاحب سے اس بارے فون پر تفصیلی بات بھی ہوگئی ہے،یہ کتاب مکتبۃالبشری والے
اب نئے آب وتاب سے شائع کررہے ہیں۔
بہرحال شیخ صابونی کی شخصیت پر مستقل لکھنے کے لئے ’’ماجستیرودکتوراہ‘‘طرز
کے مقالے کی ضرورت ہے۔ |