دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرے برطانیہ

وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے برطانیہ پر زور دیا ہے کہ وہ تقسیم ہندوستان کا فریق ہے اور اس وجہ سے اس پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کرے اور اپنی عالمی ذمہ داری پوری کرے، گزشتہ روز وائس آف جرمنی کو اپنے انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ بھارت نے نہ صرف ریاست جموں و کشمیر پر بلا جواز، ناجائز اور غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے بلکہ پورے مقبوضہ کشمیر کو اس نے ملٹری کیمپ میں تبدیل کر دیا ہے جو اب کشمیریوں کیلئے جہنم کدہ بن چکا ہے اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھی داخلے کی اجازت نہیں اور اپنے جابرانہ اقدامات کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا امن بھی دائو پر لگا رکھا ہے جس سے برصغیر کے اڑھائی ارب انسانوں کی جانیں ایٹمی فلیش پوائنٹ پر دائو پر لگی ہوئی ہیں۔

مسئلہ کشمیر دنیا کا وہ ِرستہ ہوا نا سور ہے جو برطانیہ کے نا مکمل آزادی ایجنڈا کا نقص ہے، دراصل عالمی استعماری و استبدادی قوتوں نے گزشتہ دو صدیوں کے دوران دنیا میں جہاں بھی قبضہ جمایا وہ قومیں ، ان کے علاقے تقسیم ہو کر ان کا جغرافیہ اور تہذیبی اقدار کو بھی بدلنے کی کوشش نا تمام کی گئی، ایشیا، افریقہ، شمالی امریکہ سمیت جہاں بھی برطانوی، ہسپانوی، فرانسیسی اور ولندیزی نو آبادیاتی نظام نے پنجے گاڑھے وہاں کے لوگوں کو غلامی میں جکڑ کر ان سے خوئے اسد الہی نکال کر فطرت روباہی سے معمور کر دیا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کشمیر ہو یا فلسطین، قبرص ہو یا آئر لینڈ ، ہر جگہ استبدادی فرعونیت نے وہ حشر سامانیاں پیدا کیں کہ چنگیز اور ہلاکو کی بدروحیں بھی کانپ جاتی ہیں، اس ظلم و ستم کا مرکزی نقطہ یہ تھا کہ ایک خدا، ایک رسولۖۖ اور ایک قرآن کو ماننے والوں کو بطور خاص اس کا نشانہ بنایا کر ان پر تاریکی کی وہ دبیز چادر تانی کئی ایسے انسانی لہو کی وہ دیوی بنا دیا گیا کہ 1947ء سے آج تک 66 برسوں کے دوران لاکھوں انسانوں کی قربانی کے بعد وہ ہل من مزید کا مطالبہ کر رہی ہے۔

تاج برطانیہ نے 3 جون 1947ء کو جب آزادی ہند کا اعلان کیا تو اس کے ساتھ ہی ہندوستان میں وہ قوتیں سرگرم ہو گئیں جن کا مقصد ایسے علاقوں کی آزادی کو سبوتاژ کرنا تھا جو بھارتی علاقوں میں گھرے ہونے کے باوجود الحاق پاکستان کے متمنی تھے۔ حیدر آباد دکن، ریاست جونا گڑھ اور کشمیر ان میں سرفہرست تھے، کشمیر کا المیہ یہ تھا کہ یہاں ڈیڑھ صدی سے ڈوگرہ خاندان کا تسلط تھا مگر اکثریت مسلمان تھی اورنتیجتاً اس علاقے کو بھارتی تسلط میں دیا گیا یہاں اپنوں کی غداری اور عسا کر پاکستان کی ایک برطانوی کمانڈر جنرل گریسی کی ہندو نواز پالیسی سے یہ خطہ آزاد ہونے سے بچ رہا مگر اس کی کشمیریوں کو لمحہ موجود تک کیا قیمت ادا کرنا پڑی وہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے۔

برطانیہ کو ام الجمہوریت کہا جاتا ہے، اسی برطانیہ نے 1949 ء میں جب کشمیری اپنی آزادی کی منزل پانے والے تھے اقوام متحدہ کے ذریعے جنگ بندی کرا دی تھی اور کشمیریوں سے حق خود ارادیت دینے کا وعدہ کیا تھا وقتی طور پر کشمیریوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی مگر جب برسوں کے مطالبات کے بعد کشمیریوں کے ساتھ عالمی ادارے کی کہہ مکریناں اور لیت و لعل کے حربے بڑھتے گئے تو آخر کار انہیں عسکریت کی راہ کا انتخاب کرنا پڑا، بھارت نے بھی کشمیر کو چھائونی میں بدل دیا، وہاں سے ہی سیاسی میدان میں جب مقتدر کشمیری رہنمائوں نے نئی دہلی کے ساتھ کشمیر کے اسلامی تشخص اور متنازعہ حیثیت کو بدلنے کا گٹھ جوڑ شروع کیا تو حریت قیادت میدان میں آ گئی جس کی پشت پر لاکھوں کشمیری موجود ہیں، میر واعظ عمر فاروق، آسیہ اندرابی،سید علی گیلانی، شبیر شاہ اور دیگر لیڈر بھارتی جبر کے سامنے کھڑے کلمہ حق بلند کر رہے ہیں جبکہ انہی کی صفوں میں فاروق عبداللہ، عمر فاروق اور اسی قماش کے وہ میر جعفر اور میر صادق بھی موجود ہیں جو لاکھوں کشمیریوں کی قربانی کے بعد بھی اپنی ملت کو ہندو بنیئے کی غلامی میں دینے سے سرموانحراف نہیں کر رہے ہیں۔

مسئلہ کشمیر کی وجہ سے برصغیر کے اربوں لوگ محض انگلی دبانے کے نشانے پر ہیں، اڑھائی ارب انسانوں کا جیون دائو پر لگا ہو ہے، اگر بھارتی نیتائوں نے اب بھی ہوش کے ناخن نہ لئے اور اگر مسئلہ کشیمر کے تنازعہ پر برصغیر کی دو ایٹمی قوتیں آپس میں ٹکرا گئیں تو اس کے تصور سے ہی رونگٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ برصغیر کی عہد جدید کی وہ نئی مہا بھارت نہیں بلکہ مہا سنسار جنگ ہوگی جس میں نہ کوئی کورو رہے گا اور نہ پانڈو اور نہ ہی جدید استعماری راون سے سیتا جی کو بچانے کیلئے ہی کوئی کرشن جی مہاراج ہی میدان میں کود سکے گا۔وزیراعظم آزاد کشمیر کا یہ مطالبہ بالکل حق بجانب ہے کہ برطانیہ اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اپنا کلیدی کردار ادا کرے، آخر اسی برطانیہ اور امریکہ کی ایماء پر 202 آزاد ملکوں کی نمائندہ اقوام متحدہ نے انڈونیشیا میں تیموراور سوڈان میں جنوبی سوڈان کا بھی مسئلہ توحل ہی کیا تھا تو پھر مسئلہ کشمیر کے حل میں ٹال مٹول چہ معنی دارد؟ لہذا دنیا بھر کی آزادی پسند قوتوں کا یہ مطالبہ ہے کہ لاکھوں کشمیریوں کو نہ صرف حق خود ارادیت دیا جائے بلکہ ان کی آزادی کو یقینی بنانے کے اقدامات بھی کئے جائیں۔

اس وقت صدر آصف علی زرداری کی ہمشیرہ محترمہ اور پیپلزپارٹی کی سیاسی امور کی انچارج فریال تالپور آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد میں ڈیرے لگائے بیٹھی ہیں اور حکومت کی طرف سے انہیں ایک سربراہ مملکت کے پروٹوکول سے نوازا جا رہا ہے، ان کی مظفرآباد تشریف آوری کا کلیدی و اساسی نقطہ مجید حکومت کو تحریک عدم اعتماد سے محفوظ و مامون رکھنے کیلئے بیک ڈور کوششوں کو بار آور ثابت کرنا ہے، اس سلسلے میں انہوں نے پارٹی کا اجلاس بھی جمعرات کو بلایا تھا مگر اس میں سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان اور فاروڈ گروپ نے شرکت نہ کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا تھا، دوسری طرف حکمران پیپلزپارٹی بھی واضح دو گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے، راجہ فاروق حیدر بھی مرکز میں نون لیگ کی حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی پراسرار سرگرمیوں میں مصروف نظر آ رہے ہیں اور خدشہ یہی ہے کہ وہ کل کے بجائے آج ہی قانون ساز اسمبلی میں مجید حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے آرزو مند ہیں اس کا صاف اور واضح مطلب یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں بھی پولیٹیکل میوزیکل چیئر کا منحوس کھیل شروع ہو گیا ہے،بظاہر نظر نہ آنے والی کنگ میکر قوتیں کن کے سر پر اقتدار کا کرائون رکھیں گی اور کن کا اقتدار مظفر آبادمیں بہنے والے نیلم اور جہلم کے دریائوں میں ڈبو دیں گی ابھی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر اس اقتدار کی جنگ کے اکھاڑے کے باہر ایک اور قوت کھڑی مسکرا رہی ہے اور وہ مسلم کانفرنس ہے اور اگر کشمکس حصول اقتدار نے طول پکڑا ، اسلام آباد نے اپوزیشن کو آکسیجن فراہم نہ کی اور اسلام آباد کے جی سکس میں واقع ایوان صدر اسی طرح مظفر آباد کے اقتدار اعلی کے معاملات میں ملوث رہا تو اس میں سراسر نقصان آزاد کشمیر کے عوام کا ہوگا کیونکہ آزاد کشمیر کے عام آدمی کو مہنگائی، سماجی افراتفری اور انارکی نے جس طرح جکڑ رکھا ہے اس کا تقاضا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت کسی دوسرے معاملے میں الجھے بغیر عوام کی ترقی، خوشحالی،ریاست میں امن و امان اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے لیکن اقتدار کے اس مذموم کھیل کا دورانیہ مزید بڑھا تو خطہ کشمیر کے حالات کو خراب ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا،تحریک آزادی کے بیس کیمپ میں افراتفری سے مقبوضہ کشمیر میں جاری حریت جنگ کے مقدس مشن کو بھی نقصان پہنچے گا اور بھارتی سینا وادی میں جس خوف سے لرزاں ہے وہ بھی جاتا رہے گا اور غلامی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا،لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ آزاد کشمیر کے تمام سیاسی سٹیک ہولڈر مل بیٹھ کر اور مذاکرات سے اپنے سیاسی تنازعات کو حل کریں اور احمقانہ فیصلوں سے جگ ہنسائی کا سامان پیدا کرنے سے باز رہیں۔

Mohammed Obaidullah Alvi
About the Author: Mohammed Obaidullah Alvi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.