ان دنوں ایران میں انتخابات کی گہما گہمی ہے،لوگ جابجا
الیکشن کمپین میں مصروف نظر آرہے ہیں اور ہم اپنی سیلانی طبیعت کے باعث ایک
مرتبہ پھر تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی جا پہنچے۔وہاں ہم نے پاکستانیوں
کی ذلت اور رسوائی کے جو مناظر دیکھے انہیں بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔
پاکستان ایمبیسی میں دیکھے جانے والےیہ مناظر اتنے دردناک تھے کہ ہم ایرانی
انتخابات کے جوش و خروش کو بھول گئے۔
بات کچھ یوں ہے کہ کہتے ہیں کہ کہیں پر ایک صاحب کے پاس بہت دولت تھی، دوست
احباب کا حلقہ بھی بہت وسیع تھا، برادری بھی اچھی خاصی تھی، کمپین بھی خوب
چلاتے تھے لیکن اس کے باوجود الیکشن میں ہمیشہ ہارجاتے تھے۔ انہیں یہ "مسئلہ"
سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر وہ ہمیشہ ہار کیوں جاتے ہیں۔ کئی مرتبہ ہار جانے
کے بعد انہیں احساس ہوگیا کہ اس مسئلے کو حل کئے بغیر اب چارہ نہیں۔ بلاخر
انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لئے دوستوں سے مشورے کئے، برادری کے کھڑپینچوں
سے مدد مانگی، بیوروکریٹوں کو رشوت دی، نعرے لگانے والے اور کمپین چلانے
والوں کے لئے مال و دولت کی تجوریاں کھول دیں، پیروں فقیروں سے دعائیں
کروائیں، مسجدوں میں نیازیں بانٹیں اور اللہ اللہ کرکے ایک مرتبہ پھر
الیکشن میں کود گئے، البتہ اس مرتبہ بھی الیکشن کے نتائج پر کوئی اثر نہیں
پڑا اور وہ پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی شکست سے دوچار ہوگئے۔
اس مرتبہ شکست کھانے کے بعد انہوں مختلف سیاسی ماہرین سے رجوع کیا، اخباروں
کے صحافیوں سے مشاورت کی، برادری کے بوڑھوں سے بات چیت کی، دوستوں کی
محفلوں میں یہ شکایت کی کہ انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ آخر
مسئلہ کیا ہے، کئی دن گزر گئے تو ایک روز ایک صاحب نے دستِ ادب باندھ کر ان
سے عرض کیا کہ جناب مجھے آپ کے مسئلے کا پتہ چل گیا ہے۔۔۔۔
مسئلے کا حل ڈھونڈنے والے نے کہا کہ میں نے ان چند سالوں میں آپ کے ساتھ رہ
کر دیکھا ہے کہ آپ کمپین بھی اچھی چلاتے ہیں، دل کے بھی سخی ہیں، ہاتھ کے
کھلے ہیں، سوجھ بوجھ اور تعلیم کے اعتبار سے بھی آپ میں کوئی کمی نہیں، بس
آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ میں تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ سن کر موصوف
نے دوبارہ ایک جلسہ عام کا اعلان کیا اور تقریر میں لوگوں سے کہا کہ میرے
بارے میں کچھ افراد کا کہنا ہے کہ میرے اندر تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے،
حالانکہ اگر مجھ میں تکبر ہوتا تو میں تمہارے جیسے دو ٹکے کے لوگوں سے بار
بار ووٹ مانگنے کیوں آتا۔
یہ تو تھا ان صاحب کا مسئلہ، اب ذرا ہمارا مسئلہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
تقریباً اڑھائی سال کے بعد ہمیں دوبارہ تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی
جانے کا شرف حاصل ہوا، اب باہر سے گندی کرسیاں اٹھا دی گئی تھیں، لوگوں کو
گیٹ سے اندر داخل ہونے کی اجازت دی جا رہی تھی اور غیر ملکیوں کو بڑے
پروٹوکول کے ساتھ الگ سے نمٹایا جاتا تھا۔ ہم نے یہ دیکھا تو خوشی سے پھول
گئے کہ لو جی پاکستان ترقی کرگیا، پاکستان ایمبیسی میں انقلاب آگیا ہے اور
ہمارے جیسے لوگوں کا تو مسئلہ ہی حل ہوگیا ہے۔
بہرحال ہم اندر ہال میں بیٹھے ہی تھے کہ اپنے اردگرد کچھ اور پاکستانیوں کو
بھی منہ بسور کر بیٹھے ہوئے دیکھا، لوگوں کے چہروں پر چھائی ہوئی اداسی اور
مرجھاہٹ کو دیکھ کر ہمیں اپنی عاقبت کی بھی فکر لاحق ہوگئی، کچھ افراد سے
پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ ایمبیسی نے ٹائمنگ 9 سے 11 بجے تک کی لکھی ہوئی
ہے، ہر روز لوگوں کو نو سے گیارہ بجے تک بلاوجہ بٹھایا جاتا ہے۔ درمیان میں
عملے کا ایک آدمی کچھ دیر کے لئے نمودار ہوتا ہے، فارم تقسیم کرکے دوبارہ
غائب ہو جاتا ہے۔ ہم نے یہ سنا تو کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ لوگوں کو بٹھا
کر ٹائمنگ پوری کی جاتی ہے، لیکن ایک صاحب بولے کہ آگے تو سنیں، جو شخص
فارم دیتا ہے اسے خود بھی نہیں پتہ کہ ان فارموں کو کیسے پر کرنا ہے، وہ
فارم دیتے ہوئے آنکھیں جھپکتا رہتا ہے اور زیرِ لب کچھ بڑبڑاتا رہتا ہے اور
اس کے بعد اندر چلا جاتا ہے۔ فارم وصول کرنے کے بعد لوگ ایک دوسرے کا منہ
تکتے رہتے ہیں کہ ان فارموں کو کیسے پر کریں چونکہ ہر فارم کے اوپر نام،
والد کا نام، پاسپورٹ نمبر، مسلمان ہونے کا بیان حلفی، انگوٹھے کا نشان
وغیرہ لکھا ہوتا ہے۔
فرض کریں اب جس شخص نے بچے کا پاسپورٹ بنوانا ہے وہ مسلمان ہونے کی بیان
حلفی بچے کی طرف سے کیسے لکھے؟ چنانچہ بعض لوگ بچے کی طرف سے یہ فارم پر
کرتے ہیں، بعض بچے کے باپ کی طرف سے اور بعض بچے کی ماں کی طرف سے اور اس
دوران وہ جتنا بھی متعلقہ شخص سے کچھ پوچھنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ شخص جنتر
منتر کی طرح کچھ پڑھ کر چلا جاتا ہے اور مسئلہ ویسے کا ویسا ہی باقی رہتا
ہے۔
لوگ بغیر کچھ سمجھے اپنی اپنی صوابدید کے مطابق فارم پر کرتے ہیں اور اس کا
انتظار کرنے لگتے ہیں۔ بلاخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتی ہیں اور 11 بجے سے
کچھ دیر پہلے وہی آدمی ایک ایک شخص کو بلا کر فارم چیک کرنا شروع کرتا ہے
اور دھڑلے سے فارموں کو مسترد کرتا جاتا ہے، اب کی بار وہ پہلے کی طرح
آہستہ آہستہ نہیں بولتا بلکہ تند و تیز لہجے میں لوگوں کو ڈانٹتا ہے کہ تم
نے فارم غلط پر کیا ہے، نالائق آدمی۔۔۔ جاو ۔۔۔اب وقت ختم ہوگیا ہے۔۔۔ 11
بج چکے ہیں۔۔۔ اکثر لوگ یہاں پر ہی مار کھا جاتے ہیں اور اسی ہاہو میں کچھ
کے فارم جمع ہو جاتے ہیں اور کچھ بے چارے فارموں کی صورت میں اپنی ناکام
حسرتوں کو سمیٹے ہوئے واپس لوٹ آتے ہیں۔
ٹھیک 11 بجے وہ شیر کچھار سے باہر آتا ہے اور لوگوں کو بکریوں کی طرح گیٹ
سے باہر کر دیتا ہے۔ لیجئے آج کل پاکستان ایمبیسی میں اس طرح 11 بجائے جا
رہے ہیں۔
جن لوگوں کے فارم جمع ہو جاتے ہیں، ان میں سے بعض کو چند دن بعد فون آتا ہے
کہ آپ اپنی فیملی کے ساتھ دوبارہ تشریف لائیں، ایک فارم مزید پر کرانا ہے،
یا پھر ایک فارم کے کچھ خانے نامکمل رہ گئے ہیں اور یا پھر آپ کی بیگم کا
انگوٹھا ایک فارم پر نہیں لگا۔ اب جنہیں واپس نہیں بلایا جاتا وہ جب
پاسپورٹ لینے کے لئے آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاسپورٹ پر کبھی بچے کی جگہ
ماں کا نام کبھی اس کے بھائی کا نام اور اگر تین چار بچوں کے پاسپورٹ
بنوانے ہوں تو پھر تو خدا ہی خیر کرے، پورے کا پورا خاندان بھی بدل سکتا
ہے۔۔۔
بہر حال یہ تو وہ باتیں ہیں، جو جاتے ہی لوگوں نے ہمیں بتائیں۔ اب وہ
ملاحظہ کیجئے جو ہم نے دیکھا اور ہمارے اوپر بیتا۔ ہمارے دائیں طرف بیٹھے
ہوئے ایک صاحب اپنے بچے کا پاسپورٹ بنوانے آئے تھے، وہ بیان حلفی فارم لے
کر اس کی ماں کی طرف سے پر کر رہے تھے کہ "میں مسلمان ہوں"۔۔۔ دوسرے صاحب
انہیں سمجھا رہے کہ پچھلی دفعہ ہم نے یہ فارم بچے کی ماں کی طرف سے پر کیا
تھا اور بعد میں پاسپورٹ میں بھی بچے کی ماں کا ہی نام لکھا ہوا تھا۔ دوسرے
صاحب کہہ رہے تھے کہ ہم نے یہ فارم بچے کی طرف سے پر کیا تھا، دو دن بعد
ہمیں کہا گیا کہ فیملی کے ہمراہ دوبارہ تشریف لائیں اور ہم سے آج یہی فارم
دوبارہ بچے کی ماں کی طرف سے پر کروایا گیا ہے۔ اب رہ گئے باپ کی طرف سے
فارم پر کرنے والے تو ان میں سے ایک صاحب توہ مارے بائیں جانب بیٹھے تھے،
کہنے لگے ہم نے تو باپ کی طرف سے یہ فارم پر کیا تھا اور آج یہ پاسپورٹ لے
کر جا رہے ہیں۔
چنانچہ ان کی بات سن کر کچھ نے باپ کی طرف سے ہی وہ فارم پر کر دیا۔ خدا
خدا کرکے فارم وصول کرنے والے صاحب تشریف لائے اور انہوں نے دیکھتے ہی
دیکھتے فارموں کو ناقص قرار دینا شروع کر دیا، لوگوں نے کہا کہ جب ہم
پوچھتے ہیں تو آپ بتاتے نہیں ہیں، وہ بولے کہ میرے پاس اتنا ٹائم نہیں ہے،
تم لوگوں کو سمجھ ہی نہیں آتی، پتہ نہیں تمہارے دماغوں کو۔۔۔
آپ یقین جانیں یہ وہی صاحب تھے کہ جو تھوڑی دیر پہلے کسی سوال کا جواب دیتے
ہوئے اس طرح سرا سیمہ ہوجاتے تھے کہ سوال پوچھنے والے کو کچھ سمجھ ہی نہیں
آتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن اب وہ اس طرح سے بول رہے تھے کہ
الاماں۔
ہمارے سامنے کیسے کیسے معزز طالب لوگوں کو انہوں نے رسوا کیا۔ان میں سے
اکثر وہ تھے جن کی عمریں ہی درس و تدریس میں صرف ہوگئی ہیں اور جن کا
اوڑھنا بچھونا ہی تعلیم اور کتاب ہے، ان لوگوں پر وہ صاحب اپنا علمی رعب
جھاڑ رہے تھے کہ تم لوگ کیا پڑھتے ہو؟ دیکھتے نہیں کہ یہاں left thumb لکھا
ہے۔
سب آگے سے سر جی، سر جی کر رہے تھے اور "سر جی" فارموں کو ناقص قرار دے رہے
تھے، یعنی آج کل سر جی کے ہاتھ بھی کیا خوب مشغلہ آیا ہوا ہے۔
11 بجے ہمیں بھی سر جی نے طلب کیا، فارموں کو دیکھا اور بولے کہ اب تو 11
بج چکے ہیں، میرے پاس بالکل وقت نہیں، ہم نے سر جی سے عرض کیا کہ "سر جی"
آپ نے ہمیں یہاں 9 بجے سے مرغا بنایا ہوا ہے۔ اگر آپ یہ فارم وصول کرلیں
تو۔۔۔ بولے مجھے آپ لوگوں نے فارغ سمجھا ہوا ہے، میں بہت مصروف آدمی
ہوں۔۔۔ہوں۔۔۔ہوں۔۔ہوں۔۔۔
بہرحال آپ سمجھ گئے ہونگے کہ آج کے دن پاکستان ایمبیسی سے ناکام حسرتیں لے
کر لوٹنے والوں میں ہم بھی شامل ہیں۔
اب آپ بتائیں کہ ہمارا مسئلہ کیا ہے۔؟
پاکستان ایمبیسی پاکستانیوں کے ساتھ ایسا کیوں کرتی ہے۔؟
کیا ایمبیسی رجوع کرنے والوں کے لئے ٹوکن جاری نہیں کرسکتی، تاکہ لوگ اپنی
اپنی باری پر متعلقہ شخص کے سامنے بیٹھ کر اپنے فارم پر کریں۔
کیا موجودہ "سر جی" کی جگہ کوئی معقول "سر جی" دستیاب نہیں ہوسکتے۔؟
کیا ایمبیسی کی طرف سے جاری شدہ مبہم فارمز کی جگہ نئے فارم جاری نہیں
ہوسکتے۔؟
کیا ضروری ہے کہ لوگوں کو 9 سے 11 بجے تک مرغا بنا کر ایمبیسی میں بٹھایا
جائے اور گیارہ بجے انہیں کہا جائے کہ اب وقت ختم ہوگیا ہے۔؟
کیا فارم تقسیم کرنے، وصول کرنے اور پر کرنے کے عمل کو بہتر نہیں بنایا
جاسکتا؟ تاکہ لوگوں کو بار بار ایمبیسی کے چکر نہ لگانے پڑیں۔
آئیے ملکر اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، البتہ جہاں تک ہماری رائے
ہے، ہماری رائے کے مطابق ہم لوگ بھی الیکشن لڑنے والے صاحب کی طرح کمپین
بھی اچھی چلاتے ہیں، دل کے بھی سخی ہیں، ہاتھ کے کھلے ہیں، سوجھ بوجھ اور
تعلیم کے اعتبار سے بھی ہم میں کوئی کمی نہیں، بس ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم
میں تکبر کے بجائے عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔
"سر جی" 9 بجے سے 11 بجے تک ہمیں مرغا بنائے رکھتے ہیں، فارم پر کراونے میں
مدد نہیں کرتے، کسی کی نہیں سنتے اور ہم "سر جی" سر جی" کرتے رہتے ہیں۔
ہمیں اپنے مسئلے کا پتہ نہیں لیکن ایمبیسی والوں کو پاکستانیوں کے اس مسئلے
کا پتہ چل چکا ہے کہ ہم لوگوں میں بلا کی عاجزی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ہم
جیسے عاجزی اور انکساری کے پتلوں کو کو دبانے کے لئے "سر جی" کو ہمارے اوپر
مسلط کر رکھا ہے۔
ہماری عاجزی اور انکساری کی انتہا دیکھئے کہ پاکستان ایمبیسی میں ہر روز
لوگوں کو جن میں اکثریت طالب علموں کی ہوتی ہے ، ان کی شخصیت کشی کی جاتی
ہے اور انہیں ذلیل کیا جاتا ہے، لیکن پاکستانیوں کی کوئی تنظیم اس "شخصیت
کشی اور ذلت" کے مسئلے کو نہیں اٹھاتی۔ ہم تمام منصف مزاج سیاسی و دینی
جماعتوں اور بالخصوص طالب علم تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اپنے
اجلاسوں، سیمینارز اور پروگراموں میں تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی کے
پاکستانیوں کے ساتھ اس شرمناک رویے کی مذمت کریں اور ای میل، فیکس نیز ہر
ممکنہ ذریعے سے ارباب حل و عقد تک اس سلسلے میں اپنا احتجاج ضرور پہنچائیں۔
نوٹ:۔
پاکستان ایمبیسی کے ناہل اسٹاف کے بارے میں لوگوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے
کئی مرتبہ شکایات درج کرائی ہیں لیکن ان کی کوئی نہیں سنتا، سب آپس میں ملے
ہوئے ہیں،بجائے مشکلات کو کم کرنے کے لوگوں کے لئے مزید مشکلات کھڑی کی
جارہی ہیں،ہر روز ایک نیا قانون گھڑ کر لوگوں کے گرد مزید شکنجہ کسا
جاتاہے۔ پاکستان ایمبیسی کے عوام کُش قوانین کے بارے میں ہم اگلے چند دنوں
میں دوبارہ ایک تازہ ترین رپورٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہونگے۔
یاد رہے کہ پاکستان ایمبیسی میں پاکستانیوں کی ذلت کو اپنی آنکھوں سے
دیکھنے کے بعد ہم نے ایرانی انتخابات کے بجائے پاکستان ایمبیسی کے مظالم کو
منظر عام پر لانے کا فیصلہ کرلیاہے۔
پتہ نہیں وہ وقت کب آئے گا جب ہمارے اعلی حکام اپنی ملت کی آبرو اور وقار
کے مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے۔ |