سری لنکن فوج نے سری لنکا پر قبضے کی بھارتی کوششیں اور ”را “ کی سازشیں
ناکام بنا دیں
امریکی حمایت یافتہ علیحدگی پسند دہشت گرد تنظیم لبریشن ٹائیگرز آف تامل کا
صفایا ‘ باغیوں نے ہتھیار ڈال دیئے
25سال سے”را “ کے لئے سری لنکا میں علیحدگی پسندی اور دہشت گردی کی خدمات
انجام دینے والا تامل ٹائیگرز کا بانی ویلوپئی پربھا کرن ہلاک
توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی خاطر خطے میں موجود ممالک میں دہشت گردی
کو فروغ دینے والا بھارت 25سالہ سازشوں کے باجود بھی سری لنکا کو شکست و
ریخت سے دوچار کرنے میں ناکام رہا
بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را “ خطے میں موجود تمام ممالک میں انتشار کے
فروغ کےلئے دہشت گردی کو جنم دے رہی ہے جس سے پوری دنیا کا امن برباد ہونے
کا خطرہ ہے
” را “ پر عالمی سطح پر پابندی لگا کر اس کا خاتمہ نہیں کیا گیا تو ”را “
کی سازشوں کی وجہ سے پھوٹنے والا دہشت گردی کا طوفان کسی دنیا کو ایٹمی جنگ
کے خطرے سے دوچار کردے گا
سری لنکا میں بھارت کو اس وقت شدید ہزیمت اور شکست کا سامنا کرنا پڑا جب
بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی کی پیدا کردہ باغی تنظیم ”ایل ٹی ٹی ای ) لبریشن
ٹائیگرز آف تامل نے سری لنکا کی فوج کے ساتھ جاری اپنی مسلح جھڑپوں میں
شکست تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کردیا اور ایل ٹی ٹی ای کا
بانی و سری لنکا میں ”را “ کا ایجنٹ ویلو پلئی پربھا کرن کے سرکاری فوج کے
ہاتھوں مارے جانے کی اطلاعات کے بعد ایل ٹی ٹی ای کے بین الاقوامی امور کے
سربراہ سلوراجہ پدما بھن نے شکست کا اعتراف کرتے ہوئے جنگ بندی اورہتھیار
ڈالنے کا اعلان کردیا ۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کا خاتمہ اور ”را “ کے
ایجنٹ پربھاکرن کی ہلاکت یقیناً بھارت کے لئے کسی بہت بڑے صدمے سے کم نہیں
ہے کیونکہ کشمیر سمیت پاکستان٬ بنگلہ دیش اور سری لنکا کو اپنا اٹوٹ انگ
قرار دے کر اکھنڈ بھارت کے خواب کی تکمیل کے لئے بھارت ہمیشہ سے اپنے پڑوسی
ممالک کے خلاف چانکیائی سازشوں میں مصروف عمل رہا ہے اور بھارتی انٹیلی جنس
ایجنسی ”را “ کا قیام بھی اسی لئے عمل میں آیا تھا کہ وہ ان ممالک میں
اندرونی خلفشار و انتشار پیدا کر کے انہیں اندرونی طور پر اس قدر کمزور کر
دے کہ بھارت جب چاہے آسانی سے ضرب لگا کر ان پر قبضے کی اپنی چانکیائی
خواہش کو عملی جامع پہنا سکے ۔
اور اپنے اس مقصد میں ”را “ نے ابتدائی کامیابی اسی وقت حاصل کرلی تھی جب
ایک سازش کے تحت مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا بیج بو کر یہاں پاکستان
مخالف جذبات کو فروغ دے کر ”مکتی باہنی “ کے ذریعے علیحدگی کا بیج بویا گیا
جس کے نتیجے میں 1971ء میں پاکستان سقوط جیسے سانحہ سے دوچار ہوا جبکہ سری
لنکا پر سرخ لکیر بھی ”را “ نے اسی دور میں کھینچی تھی جب بھارت نے اپنی
فضائی حدود میں پاکستانی جہازوں کی پرواز پر پابندی لگا دی تھی اور جہاز
مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان جانے کےلئے کولمبو کا راستہ اختیار کرنے پر
مجبور ہوئے اور سری لنکا نے نہ صرف پاکستانی جہازوں کو اپنی فضائی حدود کے
استعمال کی اجازت دی بلکہ کولمبو میں انہیں ری فیولنگ کی سہولت بھی مہیا کی
بس پاکستان کے ساتھ سری لنکا کا یہ برادرانہ برتاؤ بھارت کو قطعاً پسند
نہیں آیا اور ”را “ نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنے کی
سازشوں کے ساتھ ساتھ سری لنکا کے خلاف بھی سازشوں کا جال بننا شروع کردیا ۔
1971 ء میں پاکستان کو سقوط کے سانحہ سے دوچار کرنے کے بعد بھارتی آنجہانی
وزیراعظم اندرا گاندھی نے 18مئی 1974ء کو 15 کلو ٹن پلوٹینم ڈیوائس کا
ایٹمی دھماکہ کر کے پوری دنیا کو چونکا دیا اور شدت پسند ہندؤں کے لئے
”دیوی “ کا روپ اختیار کرلیا٬ اندرا گاندھی کو اپنا دیوی کا یہ روپ اس قدر
بھایا کہ وہ بھارت کے سدت پسند ہندوؤں سے اپنی پرستش کرانے کے لئے اس جنون
میں مبتلا ہوگئی کہ بھارت کے گرد موجود ممالک پر قبضہ کر کے انہیں بھارت
میں شامل کرلیا جائے تاکہ عوام حقیقی معنوں میں اندرا گاندھی کی پوجا و
پرستش شروع کردیں اور واقعی ایک دیوی کی طرح پوجا جانے لگے اس مقصد کی
تکمیل کے لئے اس مقصد کےلئے اندرا گاندھی نے ”را “ سے تعلق رکھنے والے اپنے
دو خاص معتمدوں آر این کاؤ اور پارتھا سارتھی کو سری لنکا کو کمزور کر کے
بھارت میں شامل کرنے کا مشن سونپا اور وہی کھیل کھےلنے کی کوشش کی جس کی
مدد سے اس نے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کیا تھا ۔
”را“ نے سری لنکا میں اپنے پہلے آپریشن کا آغاز اندرا گاندھی کے پہلے دورِ
حکومت میں1976-77 ء میں شروع کیا اور ایک خصوصی و خفیہ مشن کے تحت سری لنکا
میں تامل نوجوانوں کو سری لنکا کے حکومتی نظام کے خلاف بھڑکایا اور ان میں
احساس محرومی پیدا کیا جانے لگا اور ورغلائے گئے نوجوانوں کو بھارتی تربیتی
کیمپوں میں پہنچایا جاتا جہاں انہیں تربیت کی فراہمی کے بعد اسلحہ دے کر
سری لنکن آرمی کے خلاف گوریلا جنگ میں اُتار دیا جاتا یوں ”را “ نے آہستہ
آہستہ سری لنکا میں ”تامل ٹائیگرز نامی “ علیحدگی پسند فورس کی تشکیل شروع
کردی یا دوسرے لفظوں میں غداروں کے ٹولے کو جنم دینا شروع کردیا بالکل اسی
طرح جس طرح بنگلہ دیش میں ”مکتی باہنی “ قائم کی گئی تھی ۔ یوں بھارتی
انٹیلی جنس ”را “ نے سری لنکا کو بھی مشرقی پاکستان جیسے علیحدگی پسند
جذبات و نظریات سے دوچار کرکے فوج اور باغیوں کے درمیان ایک ایسی جنگ کا
آغاز کرایا جو پچیس سال جاری رہی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق سری لنکا
کے بجٹ کا 65 فیصد حصہ ہر سال اس علیحدگی پسندی سے نمٹنے میں صرف ہوتا رہا
اور سری لنکا کی ترقی کی رفتار منجمد ہوکر رہ گئی۔ ان پچیس برسوں میں اس
جنگ میں علیحدگی پسندوں٬ سری لنکن فوجی جوانوں اور عام شہریوں سمیت سات
لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے اور ان ہلاک شدگان کی ہلاکتوں کی تمام
تر ذمہ داری ”را “ اور بھارتی حکومت کے سر جاتی ہے جس نے اپنے توسیع
پسندانہ عزائم کی خاطر خطے میں موجود ممالک میں شدت پسندی اور دہشت گردی کو
فروغ دے کر خطے کا امن برباد کررہی ہے اور انسانی جانوں کے اتلاف کے اسباب
پیدا کررہی ہے مگر اقوام متحدہ سمیت دنیا کا کوئی ایسا پلیٹ فارم یا فورم
نہیں ہے جہاں بھارت اور ”را “ کی اس جارحیت پر مذمت کی جائے یا بھارت اور
”را “ کو طالبان و القاعدہ کی طرح خطرناک قرار دے کر ان کے خلاف تادیبی
کاروائی کی جائے ۔
سری لنکا میں علیحدگی پسندی کے نظریات کو فروغ دینے اور تخربی سرگرمیوں
سمیت بغاوت پیدا کرنے کے بعد ”را “ نے 1983ء میں سری لنکا اور بھارتی صوبے
تامل ناڈو کے مختلف تامل گروپوں اور تخریب کاروں کو ملاکر ”ٹی یو ایل ایف
فرنٹ “ بنادیا تاکہ سری لنکا کے خلاف ایک منظم باغی تحریک چلائے جاسکے ۔
جون 1983ء میں تامل ناڈو کے اراکین اسمبلی نے ”را “ کی ہدایت پر سری لنکن
تامل لیڈروں کی اندرا گاندھی سے ملاقات کا اہتمام کیا ۔ جس کے بعد سری لنکا
پر دباؤ ڈالنے اور تامل گوریلوں کو بھارتی سپورٹ کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے
اندرا گاندھی کے حکم پر وزارت خارجہ نے سری لنکا کے ہائی کمشنر کو بلا کر
ڈانٹ ڈپٹ کی کہ سری لنکا میں بھارتی مفادات کو زک پہنچانے کے لئے تاملوں پر
تشدد کی پالیسی اپنائی گئی ہے جس کا فوری خاتمہ کیا جائے ۔ یہ سری لنکا کی
اندرونی معاملات میں بھارت کی جانب سے پہلا کھلا مظاہرہ تھا جس نے سری لنکا
میں موجود سنہالیوں اور تاملوں کے درمیان باقاعدہ نفرت کی دیواریں کھڑی
کردیں اور تامل گوریلوں نے ”را “ کی رہنمائی اور پلاننگ میں سنہالیوں اور
ری لنکن آرمی پر منظم حملوں کا آغاز کردیا جس کے لئے اسلحہ و گولہ بارود
سمیت ‘ تربیت و وسائل کی فراہمی ”را “ کے ذریعے بھارتی حکومت کی جانب سے کی
گئی۔ جس کے جواب میں سری لنکا کے نواحی قصبوں میں موجود کچھ سنہالیوں کو
خرید کر ”را “ نے تاملوں پر جوابی حملے کی ڈبل گیم کھیلی اور تامل کی املاک
و جائیداد اور ٹرانسپورٹ کو سنہالیوں کے ہاتھوں تباہ کرایا اس طرح سری لنکا
میں تاملوں اور سنہالیوں کے فسادات کا آغاز ہوگیا تین روز جاری رہنے والے
ان فسادات میں و خونریزی ہوئی اس کی تمام تر ذمہ داری بھارت اور اس کی
انٹیلی جنس ایجنسی کے سر جاتی ہے اور یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ بھارتی
ایجنسی ”را “ نے اسے مزید وسعت دینی شروع کردی اس مقصد کے لئے ”را “ نے
جولائی 1983ء کے بعد سے تامل گوریلوں کے گروپوں کے خصوصی تعلقات تامل ناڈو
کی لیڈر شپ سے کرائے گئے بھارتی ریاست تامل ناڈو میں قائم ”را “ کے تربیتی
کیمپوں میں تامل گوریلوں کو تربیت فراہم کی جانے لگی جس کے باعث 1984ء سے
تربیت یافتہ تامل گروپوں نے سری لنکن فوج کے تمام کیمپوں اوت نقل و حمل پر
نظر رکھنی شروع کردی اور رابطے کے لئے ”را “ کی جانب سے مہیا کردہ جدید طرز
کے وائرلیس سیٹس اور واکی ٹاکی کا استعمال کیا جانے لگا پھر ”را “ کی ہدایت
پر تامل ٹائیگرز نے سری لنکن آرمی پر مسلح حملوں کے آغاز کے ساتھ ساتھ
بارودی سرنگوں کے ذریعے فوجی کانوائے اڑانے کا کام بھی شروع کردیا جو یقینی
طور پر سری لنکا کے خلاف بغاوت تھی جسے بھارت نے جنم دیا تھا ۔ ”را “ کے
تربیت یافتہ تامل گوریلے سری لنکن آرمی کی پٹرولنگ پارٹیوں پر گرنیڈ
پھینکنے لگے اور لسانی فسادات و حالت جنگ کی سی کیفیت نے اس پرسکون جزیرے
کے امن و امان کو تہہ و بالا کرنا شروع کردیا اور تامل مہاجروں کے قافلے
سری لنکا سے بھارت منتقل ہونے لگے جہاں ان میں موجود نوجوانوں میں احساس
کمتری کو ابھار کر ان میں بغاوت کے جراثیموں کے آبیاری کے بعد تربیت کے
ذریعے مزید تامل دہشت گرد پیدا کئے جانے لگے سری لنکا سے ملحق بھارتی سرحدی
علاقوں میں ”را “ تربیتی کیمپ قائم کرکے تامل شدت پسندوں کو تربیت ‘ اسلحہ
اور فوجی کمک فراہم کرنی شروع کردی۔
سری لنکا میں بڑھتی ہوئی علیحدگی پسندی اور مضبوط ہوتی ہوئی تامل ٹائیگرز
کی قوت کے پیچھے موجود بھارتی جارحیت اور ”را“ کی سازشوں کے پیش نظر مارچ
1985ء میں سری لنکن صدر جے وردھنے نے اس وقت کے بھارتی وزیراعظم آنجہانی
راجیو گاندھی سے سری لنکا میں پھیلائی گئی ” دہشت گردی “ کے خاتمے کے لئے
مدد طلب کی یہ وہ وقت تھا جب سری لنکن آرمی تامل باغیوں پر قابو پانے کے
نزدیک تھی اور تامل علیحدگی پسندوں کی پسپائی ”را “ کی شکست کا سبب بن رہی
تھی اسلئے ”را “ نے بڑی چالاکی سے چانکیائی سیاست کا مظاہرہ کرتے ہوئے
18جون 1985ء کو بھارتی حکومت کی مداخلت کے ذریعے سری لنکن آرمی اور تامل
گوریلوں کے درمیان ”سیز فائر “ کرا دیا ۔ جس کا بنیادی مقصد تامل گوریلوں
کی ازسرِ نو تنظیم سازی کے لئے وقت حاصل کرنا تھا جس میں ”را “ مکمل طور پر
کامیاب رہی اور اس نے ’‘سیز فائر “ کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف تامل گوریلوں
کی ری گروپنگ کی بلکہ انہیں بھاری و جدید اسلحہ اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس
کر کے انتہائی خطرناک بھی بنا دیا نتیجتاً جا فنا اور بٹی کلا کے گنجان
جنگلوں میں تامل گوریلوں کے ہیڈ کوارٹرز قائم ہوگئے اور سری لنکا کے
درودیوار ان کی وحشت انگیز کاروائیوں سے کانپنے لگے ۔ ”را “ نے انتہائی
مہارت سے سری لنکن آرمی و انٹیلی جنس کے مخبروں کے بارے میں معلومات حاصل
کر کے تامل باغیوں کو فراہم کرنی شروع کردی جس کی مدد سے تاملوں نے مخبروں
کو چن چن کر ہلاک کیا اور سری لنکن انٹیلی جنس و آرمی تاملوں کی نقل و حرکت
کی خبر رسانی سے محروم ہوگئی دوسری جانب بھارتی حکومت اور ” را “ کی جانب
سے فراہم کردہ جدید مواصلاتی آلات و نظام کی اور ”را “ کی فراہم کردہ
معلومات و رہنمائی کے زریعے ایسا نظام ترتیب دیا کہ سری لنکن فوج کے ہر
کانوائے کی موومنٹ کی اطلاعات اس تک پہنچنے لگیں اور انہوں نے مسلح حملوں
کے ذریعے سری لنکن آرمی کو جو نقصان پہنچایا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حتیٰ کہ
بھارتی سرمائے اور اسلحہ سے تامل ٹائیگرز اتنے مضبوط ہوگئے کہ انہوں نے
جافنا میں باقاعدہ بھرتی مراک کھول لئے جہاں بہترین مراعات و معاوضے کے عوض
تامل نوجوانوں کو سری لنکن آرمی سے لڑنے کے لئے بھرتی کیا جانے لگا۔ بھارت
اور ” را “ کی سری لنکا کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی اور تامل
گوریلوں کی پشت پناہی کے بیشمار ثبوت منظر عام پر آنے اور سری لنکن حکومت
کی جانب سے اس معاملے پر اعترضات اٹھائے جانے کے باوجود بھی نہ تو کبھی ان
اعتراضات کو درخور اعتنا سمجھا اور نہ ہی کبھی عالمی برادری نے کسی بھی
فورم پر سری لنکا میں جاری بھارتی مداخلت و جارحیت کی کوئی مذمت کی ۔
سری لنکا کے ہاتھوں بھارت کی شکست
اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے بھارت نے سری لنکا میں دہشت گردی
اور تخریب کاری کا جو بازار گرم کیا دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی
جون 1987ء میں بھارت نے سری لنکا پر بحری اور فضائی حملے کی تمام تیاریاں
مکمل کرلیں تھیں مگر امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی سری لنکن
خارجہ پالیسی نے بھارت کو حملے سے باز رکھا
سری لنکا میں بھارتی فوج کو امن کے نام پر مسلط کرنے کے لئے بھارتی ایجنسی
” را “ نے انتہائی کامیابی سے سری لنکا کے امن کو تباہ کرکے ایسے حالات
پیدا کئے کہ بھارت اپنی ڈیڑھ لاکھ فوج سری لنکا بھیجنے میں کامیاب ہوگیا
تامل باغیوں کے خلاف آپریشن کی آڑ میں بھارتی امن فوج نے سری لنکا کے تمام
شمال مشرقی علاقوں اور دیہات پر قبضہ کر کے بھارتی عملداری قائم کردی تھی
دوسال تک سری لنکا کے عوام پر زبردستی مسلط رہنے والی بھارتی فوج نے اس
مختصر سے عرصہ میں تامل باغیوں کی سرکوبی کی نام پر دو لاکھ سے زائد افراد
کو ہلاک کیا جبکہ بھارت کے 1300 فوجی ہلاک اور 3000 سے زائد زخمی ہوئے
29جولائی 1987ءکو قیام امن کے نام پر قبضے کی خواہش کے تحت سری لنکا میں
بھیجی جانے والی بھارتی فوج دسمبر1989ء میں انتہائی ہزیمت و ذلت کے ساتھ
سری لنکا سے واپسی پر مجبور ہوئی ۔
دوسری قسط
(گزشتہ سے پیوستہ)
اس دوران ”را “ نے یو پی کے تربیتی مراکز میں تامل چھاپہ ماروں کو زمین سے
فضا میں مار کرنے والے سام میزائل کے استعمال کی تربیت فراہم کی اور ایسے
دس کیڈر تیار کردیئے جو اس کام میں مہارت کے حامل تھے اس کے بعد ان دس
کیڈروں کو جافنا بھیج دیا گیا تاکہ وہ سری لنکن آرمی کی جانب سے تامل چھاپہ
ماروں پر فضائی حملوں کی صورت میں سری لنکن طیاروں کو سام میزائلوں کی مدد
سے مار گرائیں ۔ مئی 1987ء میں انڈین ڈائریکٹر آف ملٹری آپریشن نے آرمی ہیڈ
کوارٹر میں سری لنکا میں تخریب کاری کو منظم کرنے کے لئے ایک باقاعدہ سیل
قائم کردیا اور جون 1987ء میں بھارت کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز پی
پی جوشی نے سری لنکا کی المیت کے خلاف ایک سازش تیار کی جسے ” آپریشن پون “
کا نام دیا گیا جس کے تحت لیفٹننٹ جنرل وپندر سنگھ کو سری لنکا پر حملے کے
لئے حملہ آور فوج کی کمان سونپ کر 36 انفنٹری ڈویژن٬ 54 انفنٹری ڈویژن٬ 2
آرمڈ بریگیڈ اور 340 انڈیپنڈنٹ انفنٹری بریگیڈ گروپ کو فرسٹ کور ہیڈ کوارٹر
کی مشترکہ کمان کے تحت مدراس میں اس کی کمان قائم کردی گئی ۔
انڈین نیوی کے 5 فریگیٹ٬ لوڈنگ شپ ٹینکس٬ 6 آبدوزیں٬ بارہ پٹرول بوٹس
12چھوٹے جہاز اور 9 ہوائی جہازوں پر مشتمل ایک بحری بیڑہ تیار کیا گیا اور
ائیر فورس کے 6 جیگوار٬ 6 کینبرا٬ 4 لیوشن٬ 76 اے این آئی٬ گیارہ 30 اے
این٬ بتیس 7 اے ایچ 748 ایم آئی اور ہیلی کاپٹروں پر مشتمل ائیر فورس کا
بیڑہ الگ سے تیار کیا گیا یہ ساری کی ساری فوج سری لنکا پر حملے کی تیاری
مکمل کرچکی تھی اور سری لنکا پر بھارتی ترنگا لہرانے کے لئے بیتاب تھی مگر
بھارتی ارادوں کو بھانپتے ہوئے سری لنکا نے اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی
کی اور امریکہ و مغرب سے رابطے بڑھانے شروع کر دیئے جس نے بھارت کے ارادوں
پر خاک پھیر دی اور ”را “ نے بھارتی وزیراعظم کو رپورٹ پیش کی کہ موجودہ
حالات میں سری لنکا پر حملہ بھارت کی اپنی سالمیت کے لئے نقصان دہ ثابت
ہوسکتا ہے یہی وجہ تھی کہ نومبر 1987ء میں بنگلور میں ہونے والی سارک
سربراہی کانفرنس میں بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی نے سری لنکا کے جے وردھنے
سے رابطے بڑھانے کی بھرپور کوشش کی جسے سارک سربراہوں نے بھی محسوس کیا۔
بھارتی پالیسی میں تبدیلی کی بڑی وجہ تامل گوریلوں کا بھارتی ریاست میں
بڑھتا ہوا اثر و رسوخ تھا اور جنوبی بھارت کی ریاستوں میں راجیو گاندھی کی
مقبولیت انتہائی تیزی سے بڑھ رہی تھی ایسے میں سری لنکا پر حملہ یا سری
لنکا کی جانب سے تامل گوریلوں کے خلاف فوجی کاروائی تامل ناڈو کے بھارت سے
علیحدگی کے اسباب پیدا کرسکتی تھی اسلئے ”را “ کی رپورٹ پر بھارت نے سری
لنکا پر حملے کے منصوبے کو مؤخر کرتے ہوئے سری لنکا سے راہ و رسم بڑھانے
شروع کردیئے تاکہ سری لنکن حکومت پر اخلاقی دباؤ کے ذریعے اس سے اپنی مرضی
کے فیصلے کرائے جاسکیں۔ یہ بھی بھارت کی منافقانہ اور چانکیائی سیاست کا
ایک اہم رخ ہے کہ جب بھارتی قوت سے کسی پر قابض نہیں ہوسکتے تو اس سے دوستی
کرتے ہیں اور دوستی کی آڑ میں موقع پاکر ایک روز پیٹھ میں چھرا گھونپ دیتے
ہیں مگر سری لنکا کے صدر جے وردھنے نے بھار ت اور ”را “ کی سیاسی چالوں کو
ان پر ہی پلٹاتے ہوئے 26مئی1987ءکو آرمی٬ نیوی اور ائیر فورس کی مدد سے
”آپریشن لبریشن “ کا آغاز کردیا اور آٹھ ہزار فوجیوں کی مدد سے جافنا کے
علاقے دادا ماراشی سیکٹر میں واقع تامل ہیڈ کوارٹر پر کئے جانے والے اس فل
اسکیل فوجی حملے کے حوالے سے سری لنکن صدر جے وردھنے کا کہنا تھا کہ ”جنگ
کسی ایک فریق کے خاتمے تک جاری رہے گی چاہے ہم جیتیں یا ہاریں “ ۔ گو کہ اس
آپریشن کے خلاف بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے جے وردھنے کے نام بھیجے
گئے اپنے ایک پیغام میں اس فوجی آپریش کو روکنے اور ایسا کرنے کی صورت میں
سری لنکا پر حملہ کرنے کی دھمکی بھی دی تھی مگر جے وردھنے نے اسے کوئی
اہمیت نہیں دی حملے کی دھمکی کے ناکام ہونے کے بعد سری لنکا پر عالمی دباؤ
بڑھانے کی غرض سے بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے 28 مئی کو نئی دہلی میں
ایک پریس کانفرنس میں سری لنکن حکومت پر کیچڑ اچھالنے کے ساتھ ساتھ باغیوں
کے خلاف فوجی آپریشن کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے سری لنکا
کو دھمکانے کی کوشش کی اور با لآخر بھارت کی مسلسل دھمکیوں اور تامل باغیوں
کی فوجی معاونت کے ساتھ ساتھ ”را “ کی جانب سے سری لنکا میں انجام دی جانے
والی تخریبی سرگرمیوں نے سری لنکن حکومت کو جافنا پر فوجی کاروائی کے خاتمے
پر مجبور کردیا دراصل آپریشن روکنے کی بنیادی وجہ بھارت کی وہ دھمکی تھی جس
میں راجیو گاندھی نے جے وردھنے سے کہا تھا کہ اگر جافنا پر فوجی کاروائی نہ
روکی گئی تو بھارت تامل ٹائیگرز کو زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل
سام 6 اور 7دے دیگا۔
یوں سری لنکا کو دھونس و دھمکیوں کے زریعے تامل ٹائیگرز کے خلاف آپریشن سے
دستبردار کرانے کے بعد بھارت نے بہت تیزی سے باغیوں کو مضبوط کرنا شروع
کردیا اور بھارت کی پشت پناہی کے سبب جافنا سمیت سری لنکا کے دیگر کئی
علاقوں میں تامل باغیوں نے وحشت و بربریت کی وہ داستانیں رقم کیں کہ روح
چنگیزی بھی کانپ اُٹھے٬ ہزاروں افراد کو ذبح کیا گیا٬ خواتین کی آبرو ریزی٬
دہشت گردی٬ تشدد اور لاقانونیت کے ساتھ ساتھ فوجی کانوائے پر حملوں کے
تسلسل نے سری لنکا کو مجبور کردیا کہ وہ بھارت کی بات مان لے یوں جولائی
1987ء میں سری لنکا و بھارت کے درمیان ہونے والے متنازعہ امن معاہدے کا
آغاز ہوا اور 29 جولائی 1987ء کو راجیو گاندھی نے کولمبو میں اس معاہدے پر
دستخط کردیئے چونکہ معاہدے کے متن کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا تھا اسلئے
ہر فریق شک و شبہ کا شکار تھا تامل گوریلوں پر یہ بات واضح نہیں تھی کہ یہ
معاہدہ ان کے حق میں ہوا ہے یا ان کے خلاف جبکہ سنہالیوں نے اس معاہدے کو
سری لنکا کی سالمیت کے صریحاً خلاف قرار دیا کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ یہ
معاہدہ بھارت کی جانب سے سری لنکا کے اندرونی معاملات میں فوجی مداخلت ہے
یا اس معاہدے کے ذریعے انہیں مداخلت کی دعوت دی گئی ہے بہر کیف 5 اگست
1987ء کو ایک تقریب میں تامل گوریلوں نے اپنے ہتھیار سری لنکن حکومت کے
حوالے کردیئے اور قایم امن کے نام پر بھارت نے ایک بڑی فوج سری لنکا بھیج
دی چونکہ یہ سارا ڈرامہ بھارت کا رچایا ہوا تھا جس کا مقصد سری لنکا میں
اپنی فوجیں اتارنا تھا اسلئے اس مقصد کی تکمیل کے لئے بھارت اور ”را “ نے
تامل باغیوں کی تنظیم ایل ٹی ٹی ای کو اعتماد میں لیا تھا مگر امن معاہدے
کے بعد ایل ٹی ٹی ای اور بھارت کے درمیان اعتماد کا فقدان پیدا ہوگیا اور
دونوں کے درمیان فاصلے اس قدر بڑھ گئے کہ ایل ٹی ٹی ای اور سری لنکا میں
موجود بھارتی فوج کے درمیان مسلح تصادم ہوا جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت
نے سری لنکا میں موجود اپنی فوج کو حکم دیا کہ ایل ٹی ٹی ای پر کریک ڈاؤن
کا منصوبہ بنایا جائے اور انہیں جافنا سے باہر دھکیل دیا جائے۔ ایسا صرف
اسلئے ہوا کہ بھارت کی چانکیائی فطرت ہے کہ وہ اپنے مفاد کے لئے کچھ چیزیں
پیدا کرتا ہے یعنی مورتیاں بناکر انہیں بھگوان کا درجہ دیتا ہے اور جب
بھگوان سے اس کی منو کامنائیں پوری ہوجاتی ہیں تو پھر بھگوان کی انہی
مورتیوں کو خود اپنے ہی ہاتھوں ڈھا بھی دیتا ہے۔ یہی وہ صورتحال ایل ایل ٹی
ٹی ای کے ساتھ بھی پیش آئی پہلے بھارت نے سری لنکا میں اپنی فوجی مداخلت کا
جواز پیدا کرنے اور اپنی فوجیں سری لنکا میں بھیجنے کے لئے ایل ٹی ٹی ای
قائم کی اسے مضبوط و منظم کیا اور جب بھارت کو اس کا گوہر مقصود حاصل ہوگیا
تو اب ایل ٹی ٹی ای اس کے لئے ایک فاضل بوجھ بن گئی جس کا صفایا ہی اس کی
چانکیائی سیاست کا سب سے بہترین اصول قرار پاتا ہے ۔
نومبر1987ء تک بھارتی فوج سری لنکا میں اپنے قدم انتہائی مضبوطی سے جما چکی
تھی اسلئے فروری 1988ء میں فیصلہ کیا گیا کہ تامل گوریلوں کے خلاف کاروائی
کو وسعت دی جائے تاکہ بھارت کی بحالی امن فوج کو سری لنکا میں پھیلنے اور
مزید علاقوں میں اپنے قدم جمانے کا موقع مل سکے یوں بھارتی احکامات کے تحت
سری لنکا میں موجود بھارتی فوج نے شمال مشرقی سری لنکا پر اپنا تسلط قائم
کرلیا گو کہ اس حوالے سے سری لنکن صدر جے وردھنے نے شمال مشرقی سری لنکا
میںبھارتی فوج کے بڑھتے ہوئے تسلط پر اپنے تحفظات کا اظہار بھی کیا مگر
بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے اس پر توجہ دینے کی بجائے مارچ 1988ء میں
سری لنکا میں مزید ایک لاکھ بھارتی فوج بھیج دی۔
دسمبر1988ء میں ہونے والے انتخابات میں پریما داسا سری لنکا کے صدر منتخب
ہوئے جو بھارت کے بارے میں بہت زیادہ شکوک و شبہات رکھتے تھے اور بھارت کو
بھارت ہی کے انداز سے شکست دینے کے لئے 2 اپریل 1989ء کو انہوں نے تامل
گوریلوں کے خلاف عارضی جنگ بندی کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ ایل ٹی ٹی ای
کے رہنماؤں کے ساتھ رابطے بھی استوار کئے بھارت پر جب ایل ٹی ٹی ای اور صدر
پریما داسا کے درمیان خفیہ رابطوں کا انکشاف ہوا تو سری لنکا میں موجود
بھارتی فوج نے ایل ٹی ٹی ای پر اپنے حملوں میں مزید شدت پیدا کردی تاکہ ایل
ٹی ٹی ای اور سری لنکن حکومت کسی متفقہ نتیجے پر نہ پہنچ سکیں مگر سری لنکن
حکام اور ایل ٹی ٹی ای کے درمیان ہونے والی گفت و شنید کا بنیادی نکتہ ہی
یہی تھا کہ بھارتی فوج کو اب سری لنکا سے رخصت ہوجانا چاہئے۔ جس کے اتباع
میں سری لنکن صدر پریما داسا نے یکم جون 1989ء کو بھارتی فوج کی واپسی کا
اعلان کر کے سری لنکن عوام کو ہی نہیں بلکہ بھارت کو بھی حیران کردیا۔ اپنے
اعلان میں انہوں نے کہا کہ ”جولائی 1989ء کا مہینہ ختم ہوگا تو بھارتی امن
فوج کی سری لنکا میں آمد کو دوسال پورے ہو جائیں گے٬ بھارتی حکومت سے میری
درخواست ہے کہ وہ جس قدر جلد ہو جولائی کے آخر تک تمام بھارتی امن دستوں کی
واپسی کے عمل کو تکمیل تک پہنچا دے۔ مین جائی کے اواخر تک بھارتی فوج کے
آخری سپاہی کو سری لنکا سے واپس جاتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں “ ۔
بھارتی امن فوج کی سری لنکا سے واپسی کے مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے دہلی نے
نہ صرف تامل گوریلوں کے خلاف جنگ میں شدت لانے اور سری لنکا میں لسانی
فسادات کی آگ کے شعلوں کو تیز کرنے کی ہدایت کردی بلکہ سری لنکا پر حملے کی
منصوبہ بندی کے تحت بھارت کا نیول فلیگ شپ ” آئی این ایس ویرات “ کولمبو کے
قرب و جوار میں گشت کرنے لگا ۔
سری لنکا کی صورتحال کو مکمل طور پر بھارت کے کنٹرول میں لانے کے لئے ”را “
نے سہہ جہتی پروگرام ترتیب دیا جس میں امن فوج کی واپسی کے سری لنکن حکام
کے اعلان کے خلاف مظاہرے کرانا اور حکام کے خلاف بغاوت کو جنم دینا٬ سری
لنکن حکومت پر اس الزام کو ثابت کرنا کہ وہ تامل گوریلوں سے نمٹنے میں
ناکام رہی ہے اور ان سے نمٹنے کی اہل نہیں اسلئے بھارتی فوج کی سری لنکا
میں موجودگی ازحد ضروری ہے۔ سری لنکا میں ایک ایسی سٹیزن والنٹری فورس کی
تشکیل و تربیت کی جائے جو بھارتی نگرانی و کنٹرول کے تحت سری لنکا میں
بھارتی مفادات کے لئے لڑ سکے۔ اس مقصد کے لئے جافنا صوبے کے چھ اضلاع میں
سے ہر ضلع میں پانچ ہزار تامل نوجوانوں کو بھرتی فوج میں بھرتی کرنے کا
منصوبہ بنایا گیا۔ اسی طرح ”را “ نے تامل نیشنل آرمی کو بھی منظم کرنا شروع
کردیا تاکہ مختصر سی مدت میں ایک بہترین فورس اسے حاصل ہوسکے ۔
تامل باغیوں کے خلاف بھارتی فوج کی کاروائی اور سری لنکا میں ”را “ کی
سازشوں کے ساتھ ساتھ ایل ٹی ٹی ای کی اپوزیشن میں تامل نیشنل آرمی کی تنظیم
سازی نے ایل ٹی ٹی ای کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ بھارت سے زیادہ سری
لنکن صدر پریما داسا تاملوں کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ و دیانتدار
ہیں نتیجتاً سری لنکا میں بھارت افواج کے خلاف وہ تبدیلی پیدا ہونی شروع
ہوگئی جس کے باعث 18ستمبر کو کولمبو میں بھارتی ہائی کمشنر سری لنکا کے
خارجہ سیکریٹری کے ہمراہ یہ اعلان کرنے پر مجبور دکھائی دیئے کہ 20 ستمبر
1989ء کو بھارتی امن فوج اپنے تمام آپریشنز روک دیگی اور دسمبر 1989ء تک
سری لنکا سے بھارتی فوجیں واپس چلی جائیں گی ۔
تیسری قسط
سری لنکا کے ہاتھوں بھارت کی شکست
2 جنوری 2009ء کو سرکاری فوجوں نے ایل ٹی ٹی ای کے مرکز کیلی نوچی پر قبضہ
کیا تو ایل ٹی ٹی ای کا سربراہ پربھا کرن سری لنکا سے فرارہوکر بھارت آگیا
جہاں اسے سرکاری مہمان کی حیثیت سے غیر ملکی صدور و وزیراعظم جیسی پذیرائی
دی گئی۔
16مئی وہ تاریخ ساز دن جب سری لنکن فوج نے بھارتی ایجنسی ”را “ کی پیداکردہ
دہشت گرد تنظیم تامل لبریشن ٹائیگرز کو فنا کردیا
16مئی کو سری لنکا کی فوجوں نے ”آپریشن فائنل “ کا آغاز کیا تو باغیوں کے
حوصلے پست ہوگئے اور شمالی ساحلوں کے جنگلات میں فوجی کاروائی کے دوران ایل
ٹی ٹی ای کا سربراہ پربھاکرن اپنی بیوی اور بیٹے سمیت فرار ہوتے ہوئے فوج
کی گولہ باری سے ہلاک ہوگیا
بھارت نے نہ صرف شمال مشرقی سری لنکا بلکہ مالدیپ ‘ نیپال ‘ چین ‘ بھوٹان ‘
بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی تخریبی کاروائیوں اور سازشوں کو جنم دے کر
بھارت اپنے پڑوسی ممالک کو مسلسل غیر مستحکم کرنے میں لگا ہوا ہے ۔
رپورٹ : عمران چنگیزی
یوں 1300فوجی جوان ہلاک کرانے اور 3000 سے زائد فوجیوں کو زخمی کرانے کے
بعد ہزیمت کے ساتھ بھارتی فوج سری لنکا سے واپس آگئی مگر جتنا عرصہ بھارتی
فوج سری لنکا میں رہی اس نے قیام امن کے نام پر اپنی کاروائیوں میں پانچ
لاکھ سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔
سری لنکا سے بھارتی فوج کا انخلا تو ہوگیا مگر جو آگ بھارتی انٹیلی جنس
ایجنسی ” را “ نے بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کےلئے سری لنکا
میں لگائی تھی اس کے نتیجے میں سری لنکا قیام امن سے محروم رہا گو کہ
بھارتی فوج کی واپسی کے بعد ایل ٹی ٹی ای اور سری لنکا حکومت کے درمیان
جولائی 1990ء میں ایک ایسا معاہدہ ہوا جس سے کچھ عرصہ کے لئے سری لنکا میں
امن قائم ہوگیا مگر پھر ” را “ کی سازشوں سے ایل ٹی ٹی ای اپنے معاہدے سے
منحرف ہوگئی اور سری لنکا آگ و خون میں جلتا رہا اس دوران بے شمار مواقع پر
یہ شواہد سامنے بھی آئے کہ تامل باغیوں کو آج بھی بھارتی حکومت کی مکمل
معاونت و سپورٹ حاصل ہے اور بھارتی حکومت تامل باغیوں کو تربیت کے ساتھ
ساتھ اسلحہ و گولہ بارود بھی فراہم کررہی ہے مگر دنیا کے کسی بھی پلیٹ فارم
پر بھارت کی اس جارحیت کی مذمت کی گئی نہ دنیا کے امن کے ٹھیکیداروں نے سری
لنکا کے امن کو برباد کرنے کی بھارتی سازشوں کا کبھی کوئی نوٹس لیا۔
سری لنکا میں بھارت کا گھناؤنا کردار آج بھی بھارتی عوام کے لئے سوالیہ
نشان ہے۔ بھارت ایک کثیر القومی٬ کثیر المذہبی اور کثیرالسانی ملک ہے٬
سیاسی اعتبار سے بھارت بھارت اُلجھا ہوا٬ معاشی اعتبار سے کمزور اور ثقافتی
طور پر گو نا گوں حیثیت کا حامل ہے۔ بھارت کی یکجہتی کانچ کی طرح نازک ہے
اور اگر عالمی رجحان کے تحت قومیتوں کو حق خود اختیاری دینے پر عملدرآمد
شروع ہوگیا تو بھارت ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی سلامتی کو
برقرار رکھنے کے لئے بھارت اپنے پڑوسی ممالک کے خلاف ہمہ وقت سازشوں میں
مصروف ہے اور اپنے ہمسایوں کو مسلسل غیر مستحکم کرنے میں لگا ہوا ہے۔ اس
سلسلے میں بھارت نے نہ صرف شمال مشرقی سری لنکا بلکہ مالدیپ ‘ نیپال ‘ چین
‘ بھوٹان ‘ بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی تخریبی کاروائیوں اور سازشوں کو
جنم دیا ہے۔
1990ء میں سری لنکا سے بھارتی فوجوں کی واپسی کے بعد ایل ٹی ٹی ای کو”را “
نے اس قدر امداد فراہم کی کہ انہوں نے سری لنکا کے شمالی شہر جافنا پر قبضہ
کرلیا اور پھر1991ءمیں ”را “ اور راجیو گاندھی کے اختلافات کے باعث ”را “
نے ایل ٹی ٹی ای کو استعمال کرتے ہوئے ایک تامل خاتون کے ذریعے بھارتی
وزیراعظم ”راجیو گاندھی “ کو خود کش حملے میں ہلاک کرادیا 1993ء میں ہی ایل
ٹی ٹی ای کے ایک خود کش حملے میں سری لنکا کے صدر رانا سنگھے پریما داسا کو
بھی نشانہ بنایا گیا جس کے بعد نئے منتخب ہونے والے صدر چنریکا کمار تنگے
نے ایل ٹی ٹی ای کے باغیوں سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا مگر تامل ٹائیگرز نے
سری لنکن بحریہ کے جنگی جہاز کو ڈبو کر تیسری تامل جنگ چھیڑ دی جس میں سری
لنکن فوج نے پوری قوت سے تامل باغیوں کو کچلتے ہوئے جافنا شہر کو تاملوں کے
قبضے سے آزاد کرالیا مگر جنگ کا یہ سلسلہ 2001ء تک چلتا رہا جس میں تامل
باغیوں کی قوت ”را “ کی مدد سے شمال مشرقی علاقوں تک پھیلتی چلی گئی ۔
2002ء میں ناروے ثالثی کے باعث سری لنکن حکومت اور تامل باغیوں میں تاریخی
جنگ بندی ہوئی مگر مہندر راج پکشے کے صدر بننے کے بعد سری لنکا ایک بار پھر
2006ء میں چوتھی تامل جنگ سے دوچار ہوگیا اور جنیوا مذاکرات کی ناکامی کے
بعد سری لنکن فوجوں نے ایل ٹی ٹی ای کے قبضے والے علاقوں پر یلغار کر کے
انہیں پسپا کرنا شروع کردیا اور 2008ء کے آغاز کے ساتھ ہی تامل باغیوں کے
ساتھ جاری سرکاری جنگ میں شدت آتی چلی گئی اور قیام امن کے لئے سری لنکن
حکومت نے ہر خطرے سے نبردآزما ہونے کے عہد کے ساتھ ہی تامل باغیوں کا صفایا
کرنا شروع کردیا 2 جنوری2009ء کو سرکاری فوجوں نے ایل ٹی ٹی ای کے مرکز
کلپنوچی پر قبضہ کیا تو ایل ٹی ٹی ای کا سربراہ پربھا کرن سری لنکا سے فرار
ہو کر بھارت آگیا جہاں اسے سرکاری مہمان کی حیثیت سے غیر ملکی صدور و
وزیراعظم جیسی پذیرائی دی گئی خوب مہمان نوازی کی گئی مگر جب پربھا کرن کی
غیر موجودگی کے باعث ایل ٹی ٹی ای 16 اپریل کو یکطرفہ اعلان جنگ بندی کرنے
پر مجبور ہوئی اور سرکاری فوجوں نے اس جنگ بندی کو ماننے سے انکار کردیا تو
”را “ نے شکست کے خوف کے پیش نظر ایک بار پھر پربھا کرن کو اس جنگ کا
ایندھن بنانے کے لئے سری لنکا واپس بھیج دیا تاکہ اس کی موجودگی تامل
ٹائیگرز کے حوصلے کا سبب بنے اور ایل ٹی ٹی ای مکمل شکست سے محفوظ رہے مگر
16 مئی کو سری لنکا کی سرکاری فوجوں نے سمندری راستوں کا محاصرہ کر کے
باغیوں کی راہ فرار کی تمام راہیں مسدود کرنے کے بعد ان کے خلاف ’‘آپریشن
فائنل “ کا آغاز کیا تو باغیوں کے حوصلے پست ہوگئے اور جنوبی ایشیا میں خود
کش حملوں کی موجودہ اور سری لنکا میں تین دہائیاں دہشت گردانہ و تخریب
کارانہ کاروائیوں سے اپنی وحشت و بربریت کا راج قائم کرنے والی یزیدانہ
تنظیم تامل ٹائیگرز 16مئی کو اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی۔ سری لنکن میڈیا
کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے شمالی ساحلوں کے جنگلات میں تنظیم کے
خونخوار اور وحشی درندے پربھاکرن اپنے بیٹے بیوی اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ
ایمبولینس میں فرار ہونے کی کوشش میں سری لنکن فوج کی گولہ باری میں کا
نشانہ بن کر ہلاک ہوگیا۔ یوں ایک درویش فلسفی کی یہ کہاوت سچ کے روپ میں
تازیانہ عبرت بنکر صد فیصد درست ثابت ہوئی کہ دہشت گرد فرعون کی شکل میں ہو
یا یزیدیت کا پیروکار ہو وہ بش کی صورت میں تہذیب یافتہ دور کا قاتل اعظم
ہو یا بیت اللہ محسود کی صورت میں مذہبی فتنہ گر یہ سارے انسانیت کے دشمن
اور خدا کے باغی ہوتے ہیں اور ان ساروں کی بربریت کچھ عرصہ تک اپنی دھاک تو
بٹھا کر واہ واہ کے ڈونگرے حاصل کرتی ہے مگران باغیان خدا اور غداران
انسانیت کا انجام ہمیشہ ذلت آمیز اور بھیانک ہوتا ہے۔
یوں چھاپہ مار جنگ میں خود کش حملوں کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا آغاز
کرنے والی”را “ کی پیدا کردہ دہشت گرد جماعت کا عہد ظلمت بھی ختم ہوگیا۔
سری لنکا کے شمال اور مشرق میں اپنی علیحدہ ریاست ایلام کے ظہور کے لئے
تامل ٹائیگرز کی یہ لڑائی جنوبی ایشیا کی طویل ترین جنگ تھی جس میں چھاپہ
مار ایک طرف خود کش حملوں‘ اغوا برائے تاوان‘ قتل و غارت اور جبر و ستم کا
جنگ و جدال سجائے ہوئے تھے تو دوسری طرف دہشت گرد بحری اور فضائی حملوں سے
بھی معصوم انسانوں اور مخالفین کا خون بہاتے تھے۔ پربھا کرن نے15 ہزار
جانثاروں پر مشتمل نجی ملیشیا قائم کر رکھی تھی جنہوں نے خود کش حملوں کا
ظالمانہ ہتھکنڈہ ایجاد کر کے سری لنکن تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ تامل
ٹائیگرز کا دعویٰ تھا کہ وہ سری لنکا میں سنہالی اکثریت کے ستائے ہوئے
اقلیتی باشندوں تامل کے حقوق کی جنگ کر رہے ہیں مگر آزاد زرائع حقیقت کا
دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔
سری لنکا میں جاری تامل جنگ کا اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو یہ بات سامنے
آتی ہے کہ تامل قبیلہ جنوبی ہندوستان میں آباد تھا جنہیں نو آبادیاتی دور
میں بھارت سے چائے کی کاشت کے لئے سری لنکا بھیجا گیا تھا۔ تامل سری لنکا
کی معیشت پر چھائے تھے اور سنہالی اکثریت تامل ساہوکاروں کی معاشی بیڑیوں
میں جکڑی ہوئی تھی۔ 1948 میں سری لنکا کو آزادی ملی تو سنہالی اکثریت
اقتدار میں آگئی جو تاملوں کو ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہ ہوسکی۔ طرفین کے درمیان
مذہبی فرقہ واریت بھی وجہ تصادم تھی۔ سنہالی بدھ مت جبکہ تامل ہندو مت کے
پجاری تھے۔ سری لنکن فوج اور تامل ٹائیگرز کے درمیان خونی کشا کش کا
آغاز1984 میں ہوا جب بھارت کی ایما و مدد سے پربھا کرن نے جافنا اور اسکے
گرد و نواح میں تاملوں کی نمائندگی کرنے والے تمام گروہوں کو اپنی سالاری
میں متحد کیا اور پھر سری لنکن فوج کو جافنا سے مار بھگایا۔ پربھاکرن نے
اپنی فوج میں بچوں و عورتوں کو بھرتی کیا جن کے گلے میں ایک زہریلے مواد
سائنائیڈ کی گولی لٹکی ہوتی تھی جو گرفتاری کے خدشے سے بچنے کے لئے منہ میں
ڈال کر اپنی جان ختم کرلینے کے لئے استعمال ہوتی تھیں۔ تامل ٹائیگرز نے سری
لنکن فوج پر پہلا خود کش حملہ1987ء میں کیا جس میں چار درجن فوجی اگلے جہان
کو سدھار گئے۔ بھارتی حکومت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل اور سری
لنکا پر قبضے کے لئے پربھا کرن کے سر پر دست شفقت رکھ کر نہ صرف اس کی
بھرپور مالی معاونت کی بلکہ تامل ٹائیگرز کو فوجی تربیت اور اسلحہ سمیت فضا
سے زمین پر مار کرنے والے میزائل اور جدید کمیونیکیشن سسٹم کی فراہمی کے
ذریعے انہیں ناقابل شکست بنا کر سری لنکا میں دہشت و بربریت کا بازار گرم
کرکے قیام امن کے نام پر وہاں اپنی فوج تعینات کرنے میں کامیابی بھی حاصل
کرلی مگر پھر تامل ٹائیگرز نے طاقت کے زعم میں بھارت کو بھی آنکھیں دکھانی
شروع کردیں جس کے نتیجے میں بھارتی فوج اور تامل ٹائیگرز کے درمیان رنجش کا
بازار گرم ہوگیا جس کا بھیانک نتیجہ1991 میں راجیو گاندھی کی موت کی شکل
میں سامنے آیا۔ راجیو کو ایک تامل خود کش حملہ آور خاتون نے ہلاک کردیا اور
پھر خود کش حملوں کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں سری لنکا
کے کئی اعلیٰ حکومتی عہدیدار موت کی وادیوں میں اتار دئیے گئے۔ سری لنکن
صدر پریماداسا بھی اٍسی وحشیانہ جبلت کا شکار ہوئے۔ 2001ء جولائی میں تامل
ٹائیگرز نے کولمبو کے ہوائی اڈے پر خود کش حملوں کی ایسی سیریز منعقد کی جس
کی خونی باؤلنگ نے درجنوں انسانوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیا۔ اس سیریز میں26
جہاز بھی آگ و خون میں کلین بولڈ ہوئے۔
نائن الیون کے بعد دنیا کا نقشہ ہی تبدیل ہوگیا۔ پربھا کرن بھی حکمت عملی
تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے اور مذاکرات پر آمادہ ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ
پربھا کرن نے اس صدارتی الیکشن میں بائیکاٹ کر کے سیاسی غلطی کی جس میں
راجہ پکشے کے مقابلے میں وکرما سنگھے تھے جنہوں نے تامل ٹائیگرز کے ساتھ
امن معاہدہ کیا تھا۔ پربھا کرن وکرما سنگھے کی حمایت کر کے اسے جتوا سکتے
تھے مگر بائیکاٹ کی وجہ سے وکرما سنگھے کی جیت کا ستارہ شکست کے بلیک ہول
میں غرق ہوگیا۔
راجہ پکشے نے تامل ٹائیگرز کا قلع قمع کرنے کا منشور پیش کیا تھا جسے عوامی
پذیرائی نصیب ہوئی۔ اگست2005 میں سری لنکن وزیر خارجہ لکشمن کدیر گمار تامل
ٹائیگرز کی سفاکیت کی غذا بنے تو یورپی یونین کے32 ملکوں سمیت عالمی برادری
نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را “ کی پیدا کردہ اس جماعت تامل ٹائیگرز کو
دہشت گرد ٹولہ قرار دیا۔ سری لنکن فوج کے سربراہ جنرل سارتھ فونسا پر
قاتلانہ حملہ ہوا تو راجہ پکشے اور سری لنکن فوج کا پارہ چڑھ گیا اور انہوں
نے عالمی برادری سے مدد طلب کی۔ ہندوستان کی تامل آبادی کسی دور میں پربھا
کرن کی حمایتی تھی مگر راجیو گاندھی کے قتل کے بعد یہ صورتحال بدل گئی تھی۔
یوں تامل ٹائیگرز کو بھارتی سائیڈ سے کوئی حمایت نہ ملی۔ سری لنکن فوج نے
فائنل معرکہ کے لئے جنگی قوت میں اضافہ کیا۔ جدید بحری جہاز گن شپ ہیلی
کاپٹرز اور جدید فوجی آلات کی خریداری پر177ارب خرچ کئے گئے۔ فوج نے پہلی
کامیاب کاروائی میں تامل ٹائیگرز کے انتظامی ہیڈ کوارٹر کیلی نوچی کو تباہ
کرکے علاقے کو اپنے کنٹرول میں کیا اور پھر بحریہ نے تامل بحریہ کے جہازوں
کو تباہ کیا۔سری لنکن فوج ایک مشن کے تحت آگے بڑھتی رہی جبکہ پربھاکرن شمال
کی چھوٹی ساحلی پٹی تک محدود ہوگیا اور پھر سری لنکن فوج کے فائنل معرکے
میں وہ اہل و عیال سمیت ہلاک ہوگیا یوں سری لنکا میں بھارتی دہشت گردی کے
ایک مستحکم کردار کا خاتمہ ہوگیا مگر اپنی تمام تر سازشوں کے باوجود بھارت
سری لنکا کو پاکستان کی طرح سقوط کے سانحہ سے دوچار کرنے میں ناکام رہا اس
کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ ایک ایسے موقع پر جب سری لنکا میں تامل باغیوں کے
خلاف سری لنکن آرمی پوری قوت سے مصروف تھی تو بھارت اور اس کی انٹیلی جنس
ایجنسی کی توجہ تامل باغیوں سے ہٹ کر پاکستان میں موجود طالبان کی جانب
مبذول ہوچکی تھی اور وہ پاکستان کو ایک بار پھر سقوط کے سانحہ سے دوچار
کرنے کے لئے پاکستان کے پختون علاقوں میں وہی کھیل کھیل رہا تھا جو اس نے
سری لنکا کے تامل علاقوں میں شروع کیا تھا اور پاک افغان سرحد کے ساتھ
موجود 26 بھارتی سفارتخانے ان طالبان کی اسی طرح تربیت و مدد کررہے تھے جس
طرح تامل ناڈو میں تامل گوریلوں کی کی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان
بھی بھارت اور ”را “ کی سازشوں کے طفیل اپنے ہی ہم وطنوں سے جنگی معرکے کا
شکار ہوچکا ہے اور طالبان و ان کے ہمنواؤں نے بھارتی ایما پر غیر ملکی
اسلحہ ‘ تربیت اور پیسے کے بل بوتے پر سوات۔ لوئر دیر اور مالا کنڈ میں
اپنی خود ساختہ شریعت نافذ کرنے کے چکر میں سینکڑوں سیکیورٹی اہلکاروں اور
معصوم انسانوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بنایا ہے جبکہ یہ بات اب کسی سے
ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں مکتی باہنی اور سری لنکامیں
ایل ٹی ٹی ای (تامل تائیگرز ) کی پشت پر بھارت موجود تھا اسی طرح پاکستانی
طالبان کو بھی بھارتی امداد حاصل ہے جو افغانستان میں پاکستان کی سرحد کے
ساتھ قائم 26 بھارتی سفارتخانوں کے ذریعے کچھ پاکستانی غداروں کی مدد سے
پاکستان میں موجود طالبان تک باقاعدگی سے پہنچ رہی ہے کیونکہ بھارت پاکستان
کو ایک بار پھر دولخت کرنے کے لئے اب کی بار مشرق سے نہیں بلکہ شمال سے
حملہ آور ہوا ہے اور اس بار اس کا شکار بنگالی اور مشرقی پاکستان نہیں بلکہ
پختون اور سرحد کے بیشتر علاقے ہیں اس حوالے سے جنرل (ر) مرزا اسلم بیگ کا
کہنا ہے کہ بھارت سرحد میں پختون مکتی باہنی تیار کررہا ہے۔ جس کی وجہ سے
مسلح افواج کو پاکستان کی سلامتی کی خاطر ان طالبان کے خلاف آپریشن کرنا
پڑا گو کہ اس آپریشن میں حکومت اور مسلح افواج کو قوم کی بھرپور حمایت حاصل
ہے مگر اس کے باوجود کچھ بھارتی و اسرائیلی وظیفہ خوار سیاستدان اس آپریشن
کی بھرپور مخالفت کرکے اسے سنگین غلطی قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں ایسے
عاقبت نا اندیشوں کو سری لنکا کے حالات کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ ایسے ہی
عسکریت پسندوں نے 25سال تک سری لنکا کو کس طرح جہنم بنائے رکھا تھا اور اگر
سری لنکن حکومت ان کا صفایا کرنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو وہ پورے سری لنکا
میں پھیل کر نہ صرف سری لنکا کی عوام کو انسانی حقوق سے محروم کردیتے بلکہ
پھر ان کے قدم کہیں رکتے نہیں اور وہ سری لنکا سے نکل کر مزید آگے کی جانب
پیشرفت بھی یقینی طور پر کرتے ۔
سری لنکا میں جاری تامل جنگ اور پاکستان میں جاری طالبانائزیشن کا اگر بغور
مطالعہ کیا جائے تو پربھا کرن اور صوفی محمد کے کردار اور عسکریت پسندوں و
تامل ٹائیگرز کے درمیان بڑی حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں نے اپنے
مقاصد کے لئے اپنے مسالک کے دین کو ڈھال بنایا۔ دونوں اپنی افواج اور قوم
کے لئے وبال جان ثابت ہوئے۔ خود کش حملے دونوں کے نزدیک قابل اعجاز ہیں۔
کیا انسانیت کو صدموں سے دوچار ہونے والوں کو انسان کہنا درست ہوگا؟ تامل
ٹائیگرز کی کاروائیوں سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنے۔ طالبان کی درفطنیوں سے
بیس لاکھ پاکستانی اپنے ملک میں دربدر ہوگئے۔دونوں نے انسانیت کو ایذار
سانی پہنچائی۔
دوسری جانب پربھا کرن نے جو غلطی صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کی شکل میں کی
تھی وہی مولانا صوفی محمد اور ان کے پیروکاروں نے نظام عدل سے انحراف کرکے
کی۔ سری لنکن فوج کی طرح پاک فوج بھی کامیابی سے ہمکنار ہوگی۔ یوں مولانا
صوفی محمد اور نام نہاد شریعت محمدی کے مسلح لشکر کو تامل ٹائیگرز و
پربھاکرن کے انجام سے سبق سیکھ کر ہتھیار ڈال دینے چاہئیں ورنہ انہیں بھی
بہت جلد پربھا کرن کے انجام سے دوچار ہونے پڑے گا۔ دونوں نے جہالت ‘ضد و
انا سے کام لیا۔ پربھا کرن اور مولانا صوفی محمد مولانا فضل اللہ ایسی خونی
سوچ اور متعصب رویوں کے حامیوں کے لئے حضرت قطب الدین کا یہ قول فکر آموز
ہے۔ آپ نے کہا تھا انسانی جبلت میں دانائی کی نسبت جہالت زیادہ بھری ہوئی
ہے اسے دور کر کے انسانیت کا درجہ حاصل کرنا چاہئے ۔ |