ڈاکٹر عبدالقدیر، یوم تکبیر اور بے حسی کی زنجیر

27 مئی 1998ء کی خوبصورت شام تھی جب راقم اپنے بڑے بھائی جمیل فیضی صاحب کے ہمراہ مری سے لاہور واپس آرہا تھا کہ راستہ میں اسلام آباد رکنا پڑا، رات ہوجانے کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ آج اسلام آباد کو شرف میزبانی بخشا جائے۔ ہم ہوٹل کی تلاش میں سپر مارکیٹ میں پھر رہے تھے کہ ایک بچپن کے دوست محمد آصف کا فون آگیا جو ان دنوں وزیراعظم ہاﺅس میں اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے ساتھ پی اے کے طور پر ڈیوٹی پر مامور تھا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ میں اسلام آباد میں ہوں تو اس نے اصرار کر کے مجھے وزیر اعظم ہاﺅس میں آنے کی دعوت دی جو میں نے بڑے بھائی صاحب کے مشورہ پر قبول کرلی۔ چنانچہ ہم دونوں بھائی وزیر اعظم ہاﺅس پہنچ گئے اور رات کا کھانا وہیں کھایا، کھانے کے دوران پرویز رشید صاحب بھی آگئے، ان کے بارے میں اب مجھے یاد نہیں آرہا کہ وہ کس ”ڈیوٹی“ پر مامور تھے۔ کھانے کے دوران گفت و شنید کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ ان دنوں چونکہ بھارت نے نیا نیا ایٹمی دھماکہ کیا تھا اور پاکستان کے اندر سے حکومت پر عوام کا دباﺅ تھا کہ وہ بھی فوری طور پر ایٹمی دھماکہ کر کے بھارت کو دندان شکن جواب دے۔ بات چیت کے دوران ہم دونوں بھائیوں کا بھی یہی خیال تھا کہ یہ انتہائی مناسب وقت ہے کہ ایٹمی دھماکہ کردیا جائے کیونکہ اگر اس وقت چپ سادھ لی گئی تو بعد میں شائد ایسے حالات نہ ہوں کہ پاکستان کبھی ایٹمی دھماکہ کرسکے۔ نیز عوام کا مورال بلند رکھنے کے لئے بھی ایٹمی دھماکہ انتہائی ضروری ہے۔ کھانے کے بعد چائے کے دور میں بھی یہی بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ گفتگو کے دوران آصف نے بتایا کہ وزیر اعظم کو تمام فون کالز چونکہ وہ ہی ٹرانسفر کرتا ہے اس لئے اس کے علم میں ہے کہ پوری دنیا کے حکمران خصوصاً بل کلنٹن اور جاپان کے وزیر اعظم اور شہنشاہ کی بھی کالز متواتر موصول ہورہی ہیں اور وزیر اعظم پر بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ دباﺅ ہے کہ پاکستان دھماکہ نہ کرے۔ وزیر اعظم آج کل شدید اندرونی و بیرونی دباﺅ کا سامنا کررہے ہیں اور شاید چند دنوں میں اس بارے کوئی فیصلہ ہوجائے گا۔ چونکہ آصف نے ہماری رہائش کا بندوبست پنجاب ہاﺅس میں کردیا تھا چنانچہ ہم آصف کو اپنا مشورہ کہ پاکستان کو فوری دھماکہ کردینا چاہئے دے کر رات بسر کرنے کے لئے پنجاب ہاﺅس چلے گئے۔

اگلی صبح 28 مئی کو ہم دونوں بھائی لاہور کے لئے روانہ ہوگئے۔ راستہ میں بھی یہی باتیں ہوتی رہیں کہ پاکستان کو فوری جواب دینا چاہئے۔ جب ہم گوجرانوالہ کھانا کھانے کے لئے رکے تو اچانک مختلف اطراف سے ہوائی فائرنگ اور نعروں کی آوازیں سنائی دیں اور ہم فوراً سمجھ گئے کہ پاکستان نے ”جواب“دے دیا ہے۔ خبریں سننے پر پتہ چلا کہ پاکستان نے اپنا جواب ایک دھماکہ سے نہیں بلکہ کئی دھماکوں سے دیا ہے۔ پورے ملک میں خوشی کے شادیانے بج رہے تھے۔ ایک جشن تھا جو ہر طرف برپا تھا۔ بلاشبہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان کے ساتھیوں نے ایک محیرالعقول کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ بے سروسامانی کی حالت، بین الاقوامی پابندیوں اور اپنی جان کو شدید خطرات کے باوجود ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا کام سرانجام دے کر ایک قومی ہیرو کا درجہ حاصل کرلیا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع کیا جانے والا ایٹمی پروگرام نواز شریف کے دور میں اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ بھارت جو ایک دھماکہ کرنے کے بعد پاکستان کو صاف اور واضح دھمکیاں دے رہا تھا، اس کی بولتی بند ہوچکی تھی۔ امریکہ اور اس کے حواریوں کے سینوں پر سانپ رینگ رہے تھے کہ ایک مسلمان ملک کیوں کر ایٹمی طاقت بن پایا؟ دھماکوں کے بعد پاکستان پر شدید اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں اور اس کا مقابلہ پوری قوم نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کیا۔ پاکستان کے مخالف منہ میں انگلیاں دبائے ہوئے تھے کہ یہ سب کیسے ہوگیا؟ دھماکوں کے بعد جناب مجیب الرحمان شامی کی قیادت میں ایک کمیٹی نے 28 مئی کو یوم تکبیر کا نام دیا اور دھماکوں کی خوشی منانے کے لئے اس دن سرکاری چھٹی کا اعلان کیا گیا۔ بلاشبہ 28 مئی ایک جشن کا دن ہے اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو ہیں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد نواز شریف حکومت صرف ایک ”یوم تکبیر“ کا جشن منا سکی کیونکہ اسی جرم کی پاداش میں 28 اکتوبر 99ء کو ان کی حکومت کو گھر بھیج دیا گیا۔ جس طرح پہلے ذوالفقار علی بھٹو کو امریکہ کے آلہ کاروں نے ایٹمی پروگرام شروع کرنے کے ”جرم“ میں ”نشان عبرت“ بنایا اسی طرح ایٹمی دھماکے کرنے کے ”جرم“ میں نواز شریف کو بھی تختہ دار تک پہنچانے کا منصوبہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے فیصلے ”کچھ اور“ تھے۔ سعودی عرب اور کچھ دیگر اسلامی ملکوں (جو ایک مسلم ریاست کے ایٹمی طاقت بننے پر خوش تھے) کی مدد اور تعاون سے نواز شریف کی جان بخشی ہوگئی۔ نواز شریف کی جان تو بچ گئی لیکن قومی بے حسی کا ایک ایسا باب کھل گیا جو ابھی تک بند نہیں ہوسکا۔ امریکہ اور اس کے حواریوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹمی پھیلاﺅ کا ”مجرم“ قرار دیا اور انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ پاکستان میں آمرانہ حکومت نے امریکی تائید میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بندوق کی نوک پر ”اقرار جرم“ کروایا اور ہیرو سے زیرو بنانے کی گھناﺅنی کوشش کی۔ اتنے بڑے بڑے واقعات ایک تسلسل کے ساتھ رونما ہورہے تھے لیکن چند لوگوں کے علاوہ پاکستانی قوم اپنے گھروں سے نہ نکلی۔ ہر شخص کو اپنی جان اور عزت ”پیاری“ تھی۔ چنانچہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ”مشرفی“ آمریت اور امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو قید تنہائی کی سزا دی گئی، ایک قومی ہیرو کو مجرم بنانے کی کوشش اور سازش کی گئی لیکن پاکستانی قوم ایمان کے ”آخری“ درجے پر فائز رہی اور اپنے دلوں میں اس کو برا جاننے پر اکتفا کرتی رہی۔ وکلاء تحریک کی بدولت جب سیاسی قیادت وطن واپس آنے میں کامیاب ہوئی اور نئے الیکشن کی داغ بیل ڈالی گئی تو دوسری کچھ جماعتوں کے ساتھ ساتھ بالخصوص ایٹمی دھماکے کی خالق جماعت مسلم لےگ (ن) نے ججز بحالی کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب کا نام بھی اپنی الیکشن مہم میں استعمال کیا لیکن الیکشن کے بعد صرف امریکی آشیرباد کے لئے انہیں بھلا دیا گیا۔ بے حسی کی ایک ایسی ان دیکھی زنجیر ہے جس میں پوری قوم جکڑی ہوئی ہے۔ راقم سمیت کچھ دوستوں نے ڈاکٹر صاحب کی رہائی تحریک شروع کی لیکن چند لوگوں کے سوا کسی نے ساتھ دینا تو درکنار مظاہروں میں شمولیت سے بھی انکار کردیا!

ایک بار پھر 28 مئی آن پہنچا ہے، قوم یوم تکبیر منا رہی ہے۔ میاں نواز شریف ملک میں موجود ہیں، مرکز میں حکومت کے اتحادی اور پنجاب حکومت کے ”مالک“ ہیں۔ ان کو چاہئے کہ جس طرح وکلاء تحریک کی کامیابی میں انہوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے اسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی اور ان کے منصب پر بحالی کے لئے بھی اپنا کردار ادا کریں اور اپنا وعدہ پورا کریں۔ آزاد اور بحال سپریم کورٹ کو بھی از خود نوٹس لینا چاہئے کہ آخر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو کس جرم میں قید و بند کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان کی حفاظت کے نام پر اسیری میں رکھا جارہا ہے، اور سپریم کورٹ کے لئے اس لئے نوٹس لینا بھی ضروری ہے تاکہ وہ لوگ جو چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کو ڈیل کا نام دینے کی کوشش کررہے ہیں، ان کو بھی جواب دیا جا سکے۔ پوری قوم کو بھی بے حسی کی زنجیر توڑ کر حکومت سے مطالبہ کرنا چاہئے کہ امریکی دباﺅ مسترد کیا جائے اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو نہ صرف ان کے شایان شان پروٹوکول دیا جائے بلکہ ان کو ان کے عہدے پر باعزت طریقہ سے بحال کرتے ہوئے ان سے روا رکھے جانے والے سلوک کی معافی مانگی جائے۔ کیونکہ زندہ قومیں اپنے ہیروز کی عزت کرتی ہیں نہ کہ ان کی توہین....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207275 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.