متاثرین مالاکنڈ، سیاستدانوں کا کردار

ملکی حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ وطن عزیزد ھماکوں سے گونج رہا ہے۔ اندرون خانہ نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔ بعض ملکی سیاستدان اس صورتحال پر بھی اپنی سیاست چمکانے سے بھی گریزاں نہیں اور کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانےنہیں دے رہے۔ ازلی دشمنوں سمیت نام نہاد دوست امریکہ بھی پاکستان کو اس صورتحال سے دوچار ہوتے ہوئے دیکھ کر اندر ہی اندر خوشی سے پھولے نہیں سما رہا۔ آخر ایسا کیوں کر نہ ہو، جو وہ گزشتہ برسوں میں چاہ رہے تھے وہ اب سمٹ کر لمحوں میں پورا ہونے لگا ہے۔ مسلمان مسلمان سے، پاکستانی پاکستانی سے دست و پا ہے۔ انسانیت کے موضوع پر طویل درس دینے والے ملکی سیاستدانوں کے پینترے ہی بدلنے لگے ہیں۔ کہتے ہیں کہ دوسرے کا درد سمجھنا اتنا آسان بھی نہیں ہے اور دوسروں کے دکھ و درد کو سمجھنے کے لئے دل کی ضرورت ہوتی ہے جو ہر کسی کے پاس پایا جانا بھی آساں نہیں ہوتا۔ متاثرین آپریشن کی ملک کے مختلف حصوں کی جانب نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے۔ لاکھوں گھروں سے بے گھر ہوچکے ہیں اور بے یار و مددگار مدد کے لئے ہاتھ پھلائے کن آنکھیوں سے ہم وطنوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ متاثرین نہ صرف کراچی بلکہ پنجاب، بلوچستان سمیت مختلف علاقوں اور صوبوں کا رخ کر رہےہیں۔ ان مشکلات کی گھڑی میں انسانیت اوراقلیتوں کے حقوق پر آستینیں چڑھا کر بلند و بانگ دعوے کرنے والوں کو بالخصوص اور پوری من حیث القوم سب کو مدد کرنے چاہیے۔ افسوس اس بات کا بھی ہے کہ جہاں انسانوں اور ملک کے شمالی حصے کے عوام پر قیامت صغری ٰ برپا ہے وہی کچھ نادان ہم وطن بھی ایسے نکلے کہ غیروں سے زیادہ ان کو اور تڑپاتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالات کی ستم ظر یفی دیکھیے کہ صوبہ سرحد کے رہنے والے اپنے ملک میں ہی بیگانہ بنے بیٹھے ہیں اور ان پر ہی پابندیاں عائد کرنے کی بات کی جارہی ہے۔ پابندیاں تو ان پر عائد کی جاتی ہیں جو آزاد ہوں اور ان کی آزادی سے دوسروں کو کوئی خطرہ ہو مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ بھلا دو وقت کی روٹی اور چھت کے طلبگار یہ افراد بھی کسی کر ضرر پہنچا سکتے ہیں اور اگر حقیقت میں ایسا ہوتا تو پھر یہ لوگ اپنے گھر بار کبھی نہ چھوڑتے بلکہ طالبان کا ساتھ دے کر وہی پر فورسز سے لڑنے کو ترجیح دیتے تاہم ایسا نہ ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ محب وطن یہ شہری انتہائی عزت و احترام اور قدر کے لائق ہیں جنہوں نے طالبان کا ساتھ نہیں دیا۔ سوات میں آپریشن کے لئے وطن عزیز کی ایک جماعت نے ہی زور دیا اور کسی حد تک اس کو حق بجانب بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن اب جبکہ آپریشن کے نتئجے میں طالبان سے جان چھڑانے والوں افراد پر مسائل آن پڑے ہیں تو سب کو ملکر ان کی خلاصی بھی تو کرنی چاہیے۔ یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ آپریشن کیا جائے لیکن اس وقت اس خونی کارروائی کا نقشہ ذہن میں موجود ہی نہیں ہوتا کہ اس کے نتیجے میں کیاکیا مسائل اٹھ سکتے ہہں۔دنیامیں ایسی مثالیں بھی انتہائی کم ہی ملتی ہیں کہ بندوق کی نال کی زور پر کامیابیاں حاصل کی گئی ہوں اور اگر ایسا ہو بھی گیا تویہ انتہائی مختصر ثابت ہوتی ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ ہمارے وطن عزیز کے تمام سیاسی و مذہبی رہنما مل بیٹھیں اور غور کریں کہ ١٩٩٩ سے قبل مخصوص خود کش حملوں کے علاوہ کوئی دھماکے نہیں ہوا کرتے تھے اور آج صورتحال اس کے مکمل برعکس ہے۔ چار سو خوف و دہشت ہے۔ لوگ صبح گھر سے نکلتے اور شام گھر پہنچتے تک اپنی زندگی کی فکر میں رہتے ہیں۔ شہر کراچی ہو یا لاہوریا پر پشاور ہو یا کوئٹہ کوئی بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مشکلات کے وقتوں میں الزام کسی ایک قوم، جماعت یا شخصیات پر نہ دھرا جائے اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل ڈھونڈا جائے اور یقیناً ایسا نہ ہو ا تو ہمارے ازلی دشمن جو قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہمیں مختلف طبقات اور فرقوں میں تقسیم کرنے کی مذموم کوششوں خدا نہ کرے کہ کامیاب ہوں اور ہمیں پھر سے آزادی سے محروم ہونا نہ پڑے۔

جہاں تک نقل مکانی کرنے والوں کا معاملہ ہے تو یقیناً اسے ملکی دستور کے تناظر میں دیکھنا ہوگا جس میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ ملکی شہری ملک میں کہیں بھی جاسکتا ہے، کہیں بھی کاروبار کرسکتا ہے۔ اب دستور پر مانتے ہوئے اس متفقہ آئین کی نفی کرنے والوں کو عدالتی کٹہرے میں لانا ہوگا۔ جہاں عدالت اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ سچائی کیا ہے اور کون سچ پر ہے۔
M A Azeem
About the Author: M A Azeem Read More Articles by M A Azeem: 12 Articles with 12321 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.