کمپیوٹر انٹرنیٹ کی ایجاد سے پوری دنیا ایک گلوبل ویلیج
بن کر رہ گئی ہے ۔دنیا کے کسی ایک کونے میں ہونے والے واقعہ کی خبر چشمِ
زدن میں دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے۔جس طرح ایک گاؤں میں ہر طرح کے اچھے
برے لوگ ہوتے ہیں اسی طرح انٹرنیٹ پر جہاں بہت اچھے اور معلوماتی مذہبی و
سائینسی پروگرام ،خبریں ،سبق آموز مضامین،اخبارات ،رسائل الغرض ہر طرح کی
تفریح کامواد مل جاتا ہے وہیں یہاں آپ کو تعصب سے بھر پور ویب سائیٹس،اسلام
اور پاکستان سے متعلق منفی پروپگنڈا بھی ملے گا ،مگر کیا ہم اچھے اخلاق
دکھانے یا ان کا بھرپور مثبت جواب دینے کی بجائے کسی ناراض بچے کی طرح اپنا
رخ پھیر لیں یا روٹھ کے ایک طرف ہو کر بیٹھ جائیں؟
یو ٹیوب کے بعد اب گوگل کی بندش نے ان طبقہء فکر سے تعلق رکھنے والوں میں
تشویش کی ایک لہر دوڑا دی ہے کہ جو سراسر اس کا بہترین استعمال کر رہے ہیں
،ایسے علم دوست لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے کہ جو گوگل کو اپنی معلومات
میں اضافے کے لئے استعمال میں لا رہے ہیں۔اچھائی اور برائی ہر جگہ پر ہے
،اسلام کے دشمن بھی ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں ۔ہم اچھے اخلاق اورطر ز عمل سے
ان کو اپنا گرویدہ بنا سکتے ہیں نہ کہ اس قسم کے بیوقوفانہ فیصلے کر کے نہ
صرف علم اور معلومات کے دروازے اپنے اوپر بند کر رہے ہیں بلکہ دوسروں کو
خود پر ہنسنے کا موقع بھی فراہم کر رہے ہیں ۔
دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ استعمال کیا جانے والاانٹرنیٹ سرچ انجن،
گوگل ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق67 فیصد افراد انٹرنیٹ گوگلgoogle کی
مدد حاصل کرتے ہیں اس دوڑ میں یاہو 17 فیصدyahoo دوسرے جبکہ مائیکرو سافٹ
تقریبا 13 فیصدصارفین کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔مشہور برطانوی جریدے
اکانومسٹ نے دعوی کیا ہے کہ حکومتوں سے بھی زیادہ معلومات گوگل کے پاس ہیں
۔
گوگل بند کرنے کی تجویز جس نے بھی دی ہے اس کی یہ تجویز صریحا علم دشمنی پر
مبنی ہے ،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ یو ٹیوب دیکھنے کے لئے بہت سے ناجائز
طریقے دریافت کر لئے گئے ہیں ۔یو ٹیوب کو پاکستان میں 17ستمبر 2012 کو بلاک
کیا گیا 29دسمبر 2012 کو چند گھنٹوں کے لئے کھولا گیا ،مگر پھر حکومتی دباؤ
کی وجہ سے بند کر دیا گیا ۔
یو ٹیوب مشہورِ زمانہ سرچ انجن گوگل کا ذیلی شعبہ ہے ۔گوگل پر بندش کی بات
اس لئے بھی قابل قبول نہیں کہ جس وجہ سے اس کو بند کیا گیا یعنی اسلام دشمن
شخص کی اسلام کے خلاف تیار کی گئی فلم کے جواب میں ،اسی توہین آمیز فلم کو
گوگل نے انڈونیشیا ،بھارت، لیبیااور مصر میں روک دیا ہے ۔جب وہاں یو ٹیوب
پر توہین آمیز مواد نہیں دیکھا جاسکتا تو یہاں کیوں اس سلسلے میں مؤثر
پیشرفت نہیں کی جاسکتی ،PTA نے باوجود گوگل کے کہنے پر کوئی مثبت اقدام
نہیں اٹھائے۔اس سے تویہ ہی ثابت ہوتا ہے کہ اس سب معاملے میں ذاتی مفادات
،اور پیسے کی ہوس شامل ہے اور پھر و ہی ہوا ،اب انکشاف ہوا ہے کہ یہ سب
دولت کا ہی کھیل تھا ۔
اگر آپ اسلام کے اتنے ہی سچے عاشق ہیں تو سوال یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات پر
کتنا عمل کرتے ہیں ۔؟اگر تو آپ سنت ِ رسولﷺ پر عمل پیرا ہیں ،حقوق اﷲ اوراس
سے بڑھ کر حقوق العباد کی ادائیگی کا حق ادا کر رہے ہیں تو شوق سے پابندیاں
لگائیں ،مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔کیا اسلام کی دشمنی صرف وہ ہی ہے کہ جو
غیر ہم سے سلوک کر رہے ہیں ،جھوٹ ،کرپشن ،اقرباء پروری ،ناانصافی
،رشوت،دولت کی ہرس و ہوس نے تو یہاں کے حکمرانوں کو اندھا کر دیا ہے ۔گوگل
پر پابندی لگانے والے اسلام اور رسولﷺ کے ناموس کی تو بات کرتے ہیں مگر
اسلام پر عمل کرنے کی بات نہیں کرتے ۔اس لئے کہ ان کے اپنے عمل دوغلی
پالیسی کا شکار ہیں اگر آپ کو اسلام کی اتنی ہی غیرت ہے تو سب سے پہلے
الیکٹرونک میڈیا کی طرف آئیں ۔اوران پر پابندی لگا کر دکھائیں۔
اس وقت پاکستانی ٹی وی چینل کی وجہ سے اس معاشرے کی نہایت خوفناک صورتحال
اور تصویر ابھر کر سامنے آرہی ہے ۔لوگ گندگی میں مبتلا ٹیلی ویژن کے زرائع
کو ایسے ناپاک استعمال میں لے آئے ہیں کہ جس کے نتیجہ میں گھر گھرمیں گندگی
،اور بت گھس آئے ہیں ۔پہلے اس کا تو سدِباب کر لیں ۔۔۔کھیلوں کے نام پر
لڑکیوں کی اچھل کود اور ڈانس دکھایا جاتا ہے ۔فیشن کے نام پرعورت کی عزت کو
پامال کیا جاتا ہے ۔شادی بیاہ کے نام پر ہندوؤں کی رسومات کو فروغ دیا جا
رہا ہے ۔ڈرامے اور ٹاک شوز میں تہذیب اور ادب آداب کو بالائے طاق رکھ دیا
گیا ہے ۔۔یہ کس قسم کی اسلام کی خدمت اور غیرت ہے۔کہاں ہیں گوگل اور یو
ٹیوب پر پابندی لگانے والے ۔۔۔کیا ان کی غیرت اور جوش اس وقت ہی جاگتا ہے
جب کوئی اسلام کے خلاف بات کرے ،کیا اس وقت خاموش رہنا جائز ہے جب خلافِ
اسلام حرکیتں اور خرافات بکی جائیں ۔جب ڈراموں میں ناچ گانے شراب ،اور پیار
و محبت کا اظہار کیا جائے۔مجرب الا خلاق گانے اور ہوش ربا ڈانس دکھایا جائے
۔
اعداد و شمار کے مطابق مختلف چینلوں کے زریعہ ایک ہفتے میں ۹۹ بھارتی فلمیں
دکھائی جاتی ہے ،جو سراسر گند سے بھری ہوتی ہیں ،کھوکھلی اور روزمرہ مذاق
کو تباہ و برباد کرنے والی ہیں ۔یہ فلمیں محض بیہودہ گندگی اور ایسے توہمات
والی ہیں جن کا توحید کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ۔اور پھر الیکٹرک میڈیا
نے اس پر بس نہیں کیا ترکی اور فحش بھارتی ڈراموں اداکاروں کو پرموٹ کرنے
کا ٹھیکہ بھی اٹھا لیا ہے ۔اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ موجودہ حکومت اس قسم
کے بیہودہ ڈراموں کوکہ جس میں رشتوں کے تقدس کی دھجیاں تک بکھیری جاتی ہیں
مکمل حمایت حاصل ہو گئی ہے ۔وہ اس طرح کہ ترکی اور بھارتی فحش ڈراموں پر ۱۰
فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے بجائے ان پر پابندی لگانے کے ان کی درآمدات کو
ہمیشہ کے لئے جائز قرار دے دیا گیا ہے ،۔۔عقل اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہے
کہ یہ کس قسم کی اسلام دوستی ہے ۔
انڑنیٹ گوگل اور یو ٹیوب تو ایک ایسی ہوا کی مانند ہے کہ اب اس کو روکا
نہیں جا سکتا ،اگر روکیں گے تو عوام ناجائز زرئع استعمال کرنے پر مجبور
ہوجائے گی ۔اس لئے بہتر ہے کہ حکمران بڑھتے ہوئے عوامی مسائل کی طرف توجہ
دیں، لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے نجات دلائیں ۔عوام کو صرف اس لئے نیم جاں نہ
چھوڑ دیں کہ اگلے الیکشن میں آپ کے جھوٹے وعدوں پر اعتبار کرکے ایک دفعہ
پھر صرف ووٹ دینے کے ہی قابل رہ جائے۔ |