یہ با ت سچ ہے کہ عمران خان کا سونامی پنجاب بھر میں فلاپ ہو چکا ہے۔۔ سیاسی حوالے
سے جس طرح جدی پشتی سیاستدانوں کی تباہی اور تبدیلی کی توقع کی جارہی تھی
۔۔نتائج اس کے برعکس نکلے ۔۔۔ قیاس آرائیاں ، پیشن گوئیاں خلافِ توقع نظر
آئیں۔۔۔مگر اس بات کا منکر بھی دائرہ سیاست سے خارج تصور کیا جائے گاکہ ۔۔۔
سونامی کا اثر کہیں ہوا نہیں ہوا۔۔ضلع میانوالی میں پی ٹی آئی کے سونامی نےِ
ِِ،،کوچا،، پھیر کر رکھ دیا۔۔1980کی دہائی سے2008تک 35...30سال اقتدار کی کرسی
پر براجمان ، اقتدار کے مزے لوٹنے والے سیاستدانوں، وڈھیروں ، جاگیرداروں ،
سرمایہ داروں پر 11 مئی 2013کے انتخابات میں عبرت ناک شکست کی مرہونِ منت روزِ
روشن کی طرح عیاں ہو گیا کہ عوام کسی کے غلام نہیں اور سیاست کسی کی وراثت نہیں
۔۔۔۔تبدیلی کا نعرہ، سونامی کے دوش پر سوار ایسے ایسے لوگ بڑی بڑی چٹانوں سے
ٹکرا گئے جن کا نام سیاسی حوالے سے کسی (گانڑ مینڑ) میں نہیں تھا ۔۔اگر کوئی یہ
کہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ قبائل تھے ،برادریاں یانامور سیاسی شخصیات تھیں۔۔اس
لئے پی ٹی آئی نے ضلع میانوالی میں کلین سویپ کیا ہے ۔تو۔ یہ تجزیہ بالکل غلط
ہوگا ۔۔میانوالی کے عوام خصوصاََ نوجوانوں نے عمران خان کی انٹرنیشنل
شخصیت،عظیم لیڈر شپ اور تبدیلی کے نعرے پر خلوصِ دل سے لبیک کہا ۔۔ہر بارنوجوان
بزرگوں کی زبان اوردعائے خیرکے پابند ہو ا کر تے تھے ۔۔لیکن ان انتخابات میں
بزرگوں کو نوجوانوں کے جنون کے آگئے شکست تسلیم کرنا پڑی۔۔بہر حال اِس وقت ضلع
میانوالی تین تحصیلوں ( تحصیل عیسیٰ خیل+تحصیل پپلاں+تحصیل میانوالی) پر مشتمل
ہے ۔۔۔ ان تمام تحصیلوں کی کل 56یونین کونسلز ہیں۔۔14 تحصیل عیسیٰ خیل ،14
تحصیل پپلاں جبکہ 28یونین کونسلز تحصیل میانوالی میں شامل ہیں۔قومی اسمبلی کی
2سیٹیں (حلقہ این اے 71،حلقہ این اے 72)صوبائی اسمبلی کی 4سیٹیں ( حلقہ پی پی
43،حلقہ پی پی 44،حلقہ پی پی 45،حلقہ پی پی 46) ہیں ۔۔۔ضلع میانوالی کی کل
آبادی تقریباََ 14 لاکھ15ہزار ہے اور غالباََ کل 7لاکھ 53ہزار8سو27ووٹ درج ہیں
11مئی 2013 کے عام انتخابات میں 6پاکستان مسلم لیگ ن، 6پاکستان تحریک انصاف کے
امیدواروں کے ساتھ ساتھ جماعتِ اسلامی،پی پی پی وغیرہ اور کچھ آزاد امیدوار
میدانِ سیاست میں بر سرپیکار تھے۔ملک بھرکے سیاسی پنڈت ،سیاسی مبصرین کی نظریں
حلقہ این اے 71 پہ لگی ہوئیں تھیں کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین و
بانی عمران خان کا یہ آبائی حلقہ ہے اور اسی حلقہ سے وہ قومی اسمبلی کی سیٹ کے
لئے امیدوار تھے۔۔۔۔عمران خان نے نومبر 1996 ء میں پاکستان تحریک انصاف کی
بنیاد رکھی ۔۔۔ 1997میں قومی اسمبلی کے لئے حلقہ این اے 71میانوالی سے پہلا
الیکشن لڑا ۔۔۔مقبول خان نے زبردست کامیابی حاصل کی ۔۔ حاجی عبیداللہ خان شادی
خیل دوسرے نمبر پر اور عمران خان بُری طرح تیسرے نمبر پر رہے۔۔2002 ء کے
انتخابات میں عمران خان نے حاجی عبیداللہ خان شادی خیل کو زبرست شکست دی اِنہی
انتخابات میں پی ٹی آئی نے حلقہ پی پی 44 کی سیٹ اوپن چھوڑی ۔الحاج گل حمید خان
روکھڑی نے بیک وقت (حلقہ پی پی 44،حلقہ پی پی 45)دونوں سیٹوں پر کامیابی حاصل
کی بعدازاں حلقہ پی پی 44 کی سیٹ خالی کر دی ۔اس دوران ضمنی انتخابات میں
روکھڑی گروپ کے عامر حیات خان روکھڑی اور پی ٹی آئی کے حفیظ اللہ خان( کزن
عمران خان ) کے درمیان مقابلہ ہو ا ۔۔۔ عامر حیات خان روکھڑی کو زبر دست
کامیابی ملی۔۔ عمران خان 2008 ء کے انتخابات میں بائیکاٹ کر گئے ۔۔۔اور آج
سونامی لے کر میدان سیاست میں۔۔ایسے گودے کہ بڑے بڑے سیاسی بادشاہ،
شہنشاہ،پرانے اور تجربہ کار سیاسی کھلاڑی اُن سے ہراساں ہوگئے ۔۔۔عمران خان نے
بیک وقت قومی اسمبلی کی 4سیٹوں پر الیکشن لڑا۔۔۔حلقہ این اے 56میں مسلم لیگ ن
کے حنیف عباسی ، حلقہ این اے پشاور 1غلام آحمد بلور ANP ( سابقہ وزیر ریلوے )
حلقہ این اے 122لاہور ایاز صادق (مسلم لیگ ن) حلقہ این اے 71 حاجی عبیداللہ خان
شادی خیل(مسلم لیگ ن) اُ ن کے مدمقابل تھے۔۔ حلقہ این اے 122لاہور میں ایاز
صادق (مسلم لیگ ن) کے ہاتھوں شکست کے علاوہ تینوں سیٹوں پر زبردست کامیابی حاصل
کی ۔۔۔ حلقہ این اے 71پاکستان مسلم لیگ ن کے امیدوار سابقہ ایم این اے ،ضلع
ناظم میانوالی حاجی عبیداللہ خان شادی خیل ۔۔ ضلع میانوالی کے نامی گرامی اور
بھر پور سیاست دان ہیں۔۔۔۔ میانوالی کے معروف سیاست دان حاجی غلام رسول خان
شادی خیل کے صاحبزادے ہیں۔۔۔۔حاجی غلام رسول خان شادی خیل1985سے
1988،1988سے1990،1990سے 1993۔۔۔1997سے1999 تک ممبر صوبائی اسمبلی(MPA) رہے اور
ایک بھرپور سیاستدان کی طرح زندگی گزاری ۔۔۔۔۔حاجی عبیداللہ خان شادی خیل نے
بطور ایم این اے (1993 ء 1997 ء 2002 ء ) تین بار الیکشن لڑا 1993 ء میں
صرف ایک بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے ۔۔۔۔2005 میں ضلع ناظم منتخب ہوئے۔۔
ضلع ناظم ہونے کی وجہ سے 2008 کے انتخابات میں حصہ نہ لے سکے ۔اپنے بھائی امانت
اللہ خان شادی خیل کو حلقہ این اے 71اور پی پی43دونوں سیٹوں پر کھڑا کیا حلقہ
این اے 71 میں ان کا مقابلہ نوابزادہ ملک عماد خان سے اور پی پی43 میں حفیظ خان
سے تھا ۔۔حاجی عبیداللہ خان شادی خیل کی لاکھ کوشش کے باوجود امانت اللہ خان
شادی خیل دونوں سیٹوں پر الیکشن ہار گئے۔۔۔ MPA پی پی 44عامر حیات خان روکھڑی
کی ناگہانی وفات کے بعد ضمنی الیکشن میں شادی خیل گروپ کے ملک طارق مسعود کنڈ
اور عامر حیات خان روکھڑی کے صاحبزادے عادل عبداللہ خان روکھڑی(پاکستان مسلم
لیگ ن)کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہو ا۔۔ یہ الیکشن بھی شادی خیل گروپ
ہارگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 11 مئی 2013 کے عام انتخابات میں ضلع میانوالی کی صورت
حال کچھ یو ں رہی ۔۔حلقہ این اے 71 میں عمران خان( چیئرمین پاکستان تحریک
انصاف) اورحاجی عبیداللہ خان شادی خیل(مسلم لیگ ن) کے درمیان دیگر کمزور
امیدواروں کی وجہ سے ون ٹو ون مقابلہ ہوا۔انتخابات کے انعقاد سے قبل توقع کی
جارہی تھی کہ عمران خان 10سے 15ہزار کی لیڈ سے کامیابی حاصل کریں گے۔تمام تر
سروے اور تجزیے اُس وقت غلط ہو ئے جب 1لاکھ33ہزار 4 22 عمران خان( چیئرمین PTI)
اور 73ہزا373ووٹ حاجی عبیداللہ خان شادی خیل(مسلم لیگ ن) نے حاصل کئے
۔تقریباََ60ہزار کی لیڈ نے سیاسی مبصرین ، تجزیہ کاروں اور سیاسی شعور رکھنے
والوں کوحیرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔۔۔بابر خان سوانس( تحر یک حقوقِ میانوالی
میں مقدمات کا سامنا اور کافی جیل بھی کاٹ چکے ہیں) جنہوں نے مہم بھی نہیں
چلائی پھر بھی 4926ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے۔۔۔ ۔اگر نواب آف کالا باغ ملک
فواد خان کو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملتا۔ حاجی عبیداللہ خان شادی خیل آزاد الیکشن
لڑتے تو نتائج مختلف ہو تے ۔۔ عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہو جاتا۔۔ حلقہ
این اے 71 میں شادی خیل گروپ کبھی بھی اپنا اینٹی ووٹ تقسیم نہیں کر سکا ۔۔جس
کی وجہ مسلسل ناکامی ہو رہی ہے۔۔۔ حلقہ این اے 72میں اصل مقابلہ امجد علی
خانPTI))اور حمیر حیات خان روکھڑی PMLN))کے درمیان تھا۔۔۔ امجد علی خانPTI) )
نے 1لاکھ24ہزار668جبکہ حمیر حیات خان روکھڑی PMLN))نے 64ہزار990ووٹ حاصل کئے ۔۔
امجد علی خان کی لیڈ بھی تقریباََ60ہزار بنتی ہے۔۔۔ تیسرے نمبر پر ملک سجاد
بھچر 27ہزار 201 اور آزاد امید وار انعام اللہ خان نیازی 8ہزار 1سو84ووٹ لے کر
چوتھے نمبر پر رہے۔۔( انعام اللہ خان نیازی کو جماعت اسلامی کی بھر پور حمایت
بھی حاصل تھی)۔۔۔۔ انعام اللہ خان نیازی میڈیا کے حوالے سے مشہور و معروف شخصیت
ہیں ۔۔ قرباینوں اور خدمات کے باوجود ptiنے اُن کو ٹکٹ نہیں دیا ۔۔ ۔۔ مسلم لیگ
ن کو انعام اللہ خان نیازی نے چھوڑدیا ۔۔ اور پی ٹی آئی نے انعام اللہ خان کے
سر پہ ہاتھ نہیں رکھا۔۔۔
خدا بھی ملا نہ وصالِ صنم* اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
جس کی وجہ سے وہ آزاد حیثیت سے الیکشن لڑے۔۔۔۔۔ اگر وہ وقت کے تقاضا اور حالات
کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے حصہ نہ لیتے تو آج سیاسی میدان میں سرخرو ہو تے۔۔۔
حلقہ پی پی 43 میں معروف 4امیدوار وں ۔امانت اللہ خان شادی خیل(PMLN)عبدالرحمان
خان ببلی(آزاد)جمال احسن خان(PTI)خورشید خان(JI)نے الیکشن لڑا یہاں پر شادی خیل
گروپ اپنا اینٹی ووٹ تقسیم کر نے میں کامیاب ہوا۔۔تین خان صاحبان کی آپس کی
لڑائی نے امانت اللہ خان شادی خیل کو کامیابی دلائی۔۔۔۔امانت اللہ خان شادی
خیل(PMLN)نے 37ہزار ,100عبدالرحمان خان ببلی(آزاد)نے36ہزار3سو82،جمال احسن
خان(PTI) نے31ہزار1سو22اور جماعت اسلامی کے خورشید خان نے 2311ووٹ حاصل کئے ۔۔۔
امانت اللہ خان شادی خیل پہلے بھی MPAمنتخب ہو چکے ہیں۔۔۔۔۔حلقہ پی پی 44 کی
سیٹ میانوالی کی سیاست میں منفر د حیثیت رکھتی ہے۔ روکھڑی خاندان کی یہ سیٹ
مضبوط تصور کی جاتی ہے۔۔تاریخ میں حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل نے روکھڑی
خاندان کے تسلسل کو توڑ کر ریکارڈ قائم کیا۔۔ حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل کی
شہادت کے بعد سیلم اللہ خان پائی خیل نے ضمنی انتخابات میں کامیابی کے بعد یہ
تسلسل برقرار رکھا۔۔پھر 2008 کے انتخابات تک روکھڑی خاندان کو کوئی شکست نہیں
دے سکا۔۔ ۔۔اور ایک مرتبہ پھر 11 مئی 2013 کے انتخابات میں پی پی 44کی تاریخ
میں نیا ریکارڈ رقم ہونے کا ماحول بنا۔۔۔حلقہ پی پی 44 میں دیگر کے ساتھ ساتھ 4
مستندامیدوار آپس میں مدمقابل تھے۔۔۔ڈاکٹر صلاح الدین خان (PTI) نے
56ہزار247،عادل عبداللہ خان روکھڑی (PMLN) نے 40ہزار861 ، رضاالمصطفیٰ خان( (
آزاد) حاجی اکرام اللہ خان پائی خیل کے صاحبزادے ہیں)نے 7ہزار706اور عبدالوہاب
خان نیازی ( جماعتِ اسلامی )نے3ہزار234ووٹ حاصل کئے ۔۔ ان نتائج کے مطابق ڈاکٹر
صلاح الدین خان (PTI) کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی ۔۔سیاسی شعور رکھنے
والے ڈاکٹر صلاح الدین خان کی کامیابی کو کوئی بھی رنگ دیں ۔۔ مگر میں اس کو
ڈاکٹر صلاح الدین خان کی خوش قسمتی اوراُن کی کامیابی کو تاریخی قرار دیتا ہوں
۔۔ ڈاکٹر صلاح الدین خان نے پہلی مرتبہ انتخابات میں حصہ لیا اور نئی تاریخ رقم
کر دی ۔۔۔۔ ڈاکٹر صلاح الدین خان کی سیاسی بصیرت اور اُن کی سیاسی شخصیت مجھ سے
بہتر کون جان سکتا ہے۔میں پی ٹی آئی کا ورکر نہیں ہوں ۔مگر ڈاکٹر صلاح الدین
خان سے میری دوستی اُس وقت سے ہے جب PTI اور ڈاکٹر صلاح الدین خان کانام سن
کرسیاستدان اونچی آواز میں ہنس دیا کر تے تھے ۔۔حتیٰ کہ ڈاکٹر صلاح الدین خان
کے PTI کے ٹکٹ کی بھی سخت مخالفت کی گئی ۔۔۔ آج ڈاکٹر صلاح الدین، ڈاکٹر صلاح
الدین ہو رہی ہے۔۔شاہد اسی کو سیاست کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ امیر عبدللہ سالار نے
51،ڈاکڑ خالد قریشی 401،عطااللہ خان 131،کرنل حسن خان23مجیب اللہ خان87، بابر
خان نے 352ووٹ حاصل کئے ۔۔۔۔ حلقہ پی پی 45 میں ملک احمد خان بھچر(PTI) نے
59ہزار361،علی حیدر نور خان(PMLN) نے31ہزار361،آئی جی (ر) حبیب اللہ خان
(آزاد)نے25ہزار 863ووٹ حاصل کئے ۔۔، ووٹ تقسیم ہو نے کی وجہ سے ،علی حیدر نور
خان(PMLN) کو شکست اور ملک احمد خان بھچر(PTI) کو زبردست کامیابی ملی حالانکہ
علی حیدر نور خان حلقہ میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے مشہور و معروف
تھے۔۔۔۔حلقہ پی پی 46 میں سردار سبطین خان (PTI) نے52ہزار20،ملک فیروز جوئیہ
(PMLN)نے 41ہزار 995 اور صاحبزادہ سعید احمد نے 13ہزار32 ووٹ حاصل کئے ۔۔یہاں
بھی ووٹ تقسیم ہو نے کی وجہ سے ناکامی ملک فیروز جوئیہ (PMLN کو اور زبردست
کامیابی سردار سبطین خان (PTI) کو حاصل ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ محترم قارئین کرام ضلع
میانوالی میں تقریباََ انتخابات کا انعقاد پرُ امن ہو گیا ہے کہیں کہیں کارکنان
اور سپوٹران میں ہلکی پھلکی( تو تو میں میں) اور تھوڑی بہت جھڑپیں بھی ہوئیں ۔۔
الیکشن کیمشن آف پاکستان کے قوانین کی حسبِ روایت بہت کم پاسداری کی گئی۔۔۔۔
امانت اللہ خان شادی خیل(PMLN)پی پی 43کی سیٹ کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف نے
ضلع میانوالی کی قومی/صوبائی اسمبلی کی 5سیٹوں پربڑے مارجن کے ساتھ PMLN کوعبرت
ناک شکست دے کر کلین سویپ کر دیا۔۔۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ممکن ہے کہ شادی خیل
اور روکھڑی گروپ زیادہ تر مخالف الیکشن لڑے ۔۔۔اب مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم پر
مل کر الیکشن لڑنا ایک کڑا امتحان تھا۔۔۔۔ جماعت اسلامی کے 2صوبائی امیدوار وں
کو بھر پور مہم کے باجود تسلی بخش ووٹ نہیں ملے۔۔ جماعت اسلامی ملک کی نامی
گرامی منعظم جماعت ہے ۔۔مگر میانوالی میں سیاسی ماحول کچھ اور ہے ۔۔۔اور دوسرا
جماعت اسلامی کے منشور کی رسائی عام آدمی تک کم ہے اگر جماعت اسلامی کو ضلع
میانوالی میں سیاسی لوہا منواناہے تو عوام سے گھل مل کرمساجد کے ساتھ ساتھ
عوامی پروگراموں کا انعقاد کر نا ہو گاعلاوہ ازیں رکنیت کے معاملے میں بھی نرمی
کا ثبوت دینا ہو گا۔۔۔ پی پی پی کی حکومت چونکہ بڑے بحرانوں پر قابو نہ سکی ۔۔
محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008کے انتخابات میں عوام نے پی پی پی کو
ملک بھر میں کامیابی دلائی۔۔ مگر اس بار بینظیر انکم سپورٹ پرو گرام کے باوجود
میانوالی میں شوکت پرویز عالم ( پی پی پی) کو صرف 924ووٹ ملے۔۔ان انتخابات میں
ایک یہ ریکارڈ بھی قائم ہو ا کہ پائی خیل کی 64سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ
خواتین نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا۔۔ ۔۔ الیکشن 2013کا انعقاد ہو چکا۔۔ جیتنے والے
جیت گئے ہارنے والے ہار گئے اختلاف صرف سیاست کی حد تک ہو نا چاہئے ۔اس کو
ذاتیات یا انا کا مسئلہ ہر گز نہیں بنانا چاہئے ۔ ووٹ دینا ہر شہری کا آئینی
اور جمہوری حق ہے۔۔جو جس کو چاہے آزادی کے ساتھ ووٹ دے سکتا ہے ۔۔۔دہشت۔
دباؤ۔ہراساں کرنا۔انتقامی کاروائیاں۔۔ یہ اچھے اور جمہوریت پسند لوگوں کے کام
نہیں ہیں ۔۔ امیدواروں کو چاہیے کہ وہ اپناایسا عملی سیاسی کردار پیش کر یں کہ
عوام ، ووٹرز خود بخود قائل ہوکر ان کی طرف مائل ہوں۔۔۔ میری میانوالی کے عوام
اور سیاستدانوں سے اپیل ہے کہ جنتا بھی ممکن ہو سکے اپنے علاقہ ضلع اور ملک کی
خوشحالی ،تعمیر وترقی میں کردار ادا کریں ہمارا احتجاج، ہماری جنگ ملک دشمن
عناصر کے خلاف ہو نی چاہیے ۔۔ اگر ہم اپنے ووٹ کی طاقت کا استعمال صحیح ،خلوصِ
دل سے کریں تو پاکستان کو ترقی یا فتہ ملک بنا سکتے ہیں ۔۔ امیدواثق ہے کہ
منتخب نمائندے ضلع میانوالی کے حقو ق کی جنگ اور محرومیوں کا ضرور ازالہ کر یں
گے۔۔۔۔۔۔ ورنہ next الیکشن میں عوام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |