آج کل میانوالی سیاسی نگر کی
آبادی میں اضافہ خلافِ توقع نہیں ۔۔۔ عندلیبانِ سیاست،گلستانِ سیاست میں
زبردستی موسم بہار کا سماں باندھے ہوئے ہیں۔۔دبستانِ سیاست میں طفلِ مکتب
کہلانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔ ہر کوئی مدرس کے رتبہ پر فائز ہونے کی
تگ و دو میں مصروفِ عمل ہے ۔۔تشنگانِ اقتدار۔۔، اقتدار کی کرسی پر براجمان
ہونے کے لئے طرح طرح کی مضبوط حکمتِ عملی، منصوبہ بندی ، ( علمِ باطن صرف
اور صرف خالقِ لم یزل ہی جانتا ہے) اور بظاہر عوامی مفادات کے عین مطابق ہر
قسم کے منشور، مشن اور اغراض و مقاصد کو عوامی اجتماعات میں کھول کھول کے
بیان کر رہے ہیں ۔۔ کوئی سیاست کے ماتھے کا جھومر ہے تو کوئی عوامی امنگوں
کا ترجمان ، شرافت کاپیکر،وفا کا علمبردار ہے ، تو کوئی غریبوں کا خیر خواہ
۔۔نڈر ، بے باک، مخلص، ملنسار وغیرہ اس قسم کے الفاظ جو کہ انتہائی پرانے،
روایتی اور رسمی محسوس ہوتے ہیں ۔۔۔ پرنتو ۔۔فراوانی کے ساتھ بولے اور سنے
جارہے ہیں ، ۔۔۔ یقیناً دھرتی ماں میانوالی میں اچھے، بھاگِ شالی ،نیک چلن
سیاستدان بھی آباد ہیں جو سیاسی نیعم، بصیرت کے مطابق سیاست کی سیما ریکھا
کے اندر رہ کر وِشواس کے ساتھ منزلِ مقصود کی اوٹ رواں دواں ہیں ۔۔ مگر آٹے
میں نمک کے برابرمہان ،سیاست کا مان سمان،جنتا ،سماج سیوک سیاستدان ،اپنے
پوتر مقاصد میں شاہداس لئے کامیاب نہیں ہورہے کہ اُن کو جنتاکی سنگت پوری
طرح میسر نہیں ہورہی اسکا ایک کارن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عوام، کا رزارِ
سیاست میں،انجان۔ اناڑی، نام نہاد کھلاڑیوں کی زیادہ تعداد ،بے اصولی،
چیٹنگ ،بے ترتیب اور غلط کھیل کی وجہ سے بور یت کا شکار ہوکردلچسپی لینے سے
منحرف ہیں۔۔ ضلع میانوالی کی سیاسی تاریخ ، سیاسی طورپربا شعور ،سیاست کے
طالبِ علموں کے سامنے ایک کھولی کتا ب کی طرح ہے ، روزِروشن کی طرح عیاں ہے۔۔
۔۔کہ کونسا سیاستدان کتنی بار اقتدار میں آیا ۔۔۔کون نردوش اور کون دوشی ۔
عوام کس پر شاد اور کس سے نراش ہیں کون کتنے پانی رہا ، کون کتنا بے لوث
قرار پایا۔۔ میانوالی کی جنتا سے یہ بات ڈھکی چھپی نہیں۔۔ اس بات کا فیصلہ
عوام آئندہ متوقع چناؤ میں ضرور کریں گے۔۔ فی الحا ل سیاسی جلسے جلوس موٹر
سائیکل ، گاڑیوں کی ریلیاں آ ب وتاب کے ساتھ عروج و بام پر ہیں۔۔ پاکستان
تحریک انصاف حلقہ NA 71میں محترمہ عائلہ بی بی کی قیادت میں حلقے کے مختلف
علاقوں میں عوامی جلسے جلسوں کاانعقاد۔۔ پی ٹی آئی کے دیگر امیدواروں کے
امیدوار ضلع کے کونے کونے میں پھیلے ہو ئے ہیں ۔۔۔۔ حاجی عبیداللہ خان شادی
خیل اپنے گروپ کا کاروان لے کر عیسیٰ خیل سے چکڑالہ تک بھاگ دوڑ کر رہے ہیں
،ملک عماد خان بھی کسی سے کم نہیں ہیں ۔۔۔ چونکہ ملک صاحب ، لذتِ اقتدار سے
تازہ تازہ آشنا ہیں وہ اس مہان لذت کا مزہ کرکرا ہر گز نہیں کرنا چاہتے۔۔
اس اہم لذت کو بر قرار رکھنے کے لئے مختلف حیلے حربے اُن پر فرض و واجب ہیں۔۔۔
پاکستان پی پی نے بھی کچھ نیا کر نے کا عندیہ دے دیا ہے اور ٹھان لیا ہے کہ
بی بی شہید کے مشن کی تکمیل ضلع میانوالی میں ہی کر نی ہے اور مجھے چھٹی ہس
بتا رہی ہے کہ ۔۔۔ پاکستان پی پی ایساضرور کرے گی ۔۔آخر لوک سبھا ء میں پی
پی پی کو اپنا مقام بھی تو بحال رکھنا ہے ۔اور انکم سپورٹ کے پیسے ۔۔۔؟۔۔
۔۔پاکستان مسلم لیگ ن ضلع میانوالی نے سیاست کا قافیہ ردیف ہی بد ل کر رکھا
دیا ہے۔۔ اور ان لوگوں کی زبان پر عارضی طور پر تالہ لگا دیا جو لوگ یہ کہہ
رہے تھے کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے پا س امیدواران کی کمی ہے ۔۔ حلقہ این اے
71میں ضلعی صدر ساجد خان نیازی ، حلقہ پی پی 44میں موسیٰ خان، حلقہ پی پی
43میں پیر آف کو ٹ چاندنہ سید قمر الزمان شاہ کاظمی کے نام ، ضلعی تنظیم کی
طرف سے نامزد کر کے مرکز کو بھیجوا کے سیاسی پنڈتوں ،مبصرین کو حیرت کی
بلندیوں پر پہنچا دیا ۔۔اور باقی حلقوں میں کیا کرنا ہے؟ پاکستان مسلم لیگ
ن ضلع میانوالی کے قائدین یہ فیصلہ کر کے ہی اٹھیں گے۔۔۔
عبدالرحمان ببلی خان ،حفیظ خان میں سے لازمی کوئی ایک ہی سہی ۔۔ سیاسی فرض
کی انجام دہی کے لئے لڑ بھِڑ کے حصہ ضرور لیں گے اور ن لیگ کو شانہ بشانہ
کرنے کیلئے ترنت اوپائے کی کھوجنا کریں گے اور کر رہے ہوں گے ۔۔ ایک گوشنا
حلقہ NA..71 میں افسوس ناک سما چار سننے کو مل رہے ہیں یا دل گھبرا دینے
والی افوائیں ہیں ۔۔کہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر ۔۔ عمران خان ، حاجی عبیداللہ
خان شادی خیل، ملک عماد خان کی راہ دشوار کر نے کے لئے محترمہ بی بی
سمیرا ملک نے خوشاب سے میانوالی آنے کے لئے ٹکٹ خرید لیا ۔۔۔اگر یہ سما چار
صیحح، سچ ثابت ہو ئے تو P T I، MIANWALIکی قائد محترمہ عائلہ ملک بی بی کی
پر یشانیوں میں اضافہ ہو جائے گا ۔۔محترمہ عائلہ ملک بی بی اور .محترمہ
سمیرا ملک بی بی دونوں حقیقی بہنیں ہیں ۔۔۔پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان
مسلم لیگ ن ۔ فی الحال آپس میں کٹر دشمن ہیں ۔۔ پرنتو سیاست کا کوئی دین
درھم کعبہ ،قبلہ مندر کلیسا نہیں ہو تا سیاست کے سنسار میں کچھ بھی ممکن ہے۔
۔۔ جب ق لیگ سے قاتل لیگ اور قاتل لیگ سے ق لیگ کی واپسی ممکن ہے تو
پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن ،دو بہنیں کیوں نہیں بن سکتی۔۔
حلقہ NA..72میں انعام اللہ نیازی ،امجد علی خان ،حمیر حیات خان روکھڑی ، گل
حمید خان روکھڑی۔ شوکت پرویز عالم ،علی حیدر نور خان ، جاوید خان باغی حبیب
اللہ خان (ر) آئی جی ،سردار سبطین خان، فیروز خان جوئیہ ، حا جی خو رشید
انور خان ، بھچر خاندان کے سیاستدان ودیگر سیاسی قائدین بھر پور زور لگا کے
( بوجھن کی پراہ کئے بغیر) مہم چلانے میں مصروف عمل ہیں ۔۔۔گویا ایک دوسرے
سے بھر پور '' یُد''کرنے کیلئے مکمل تیار ہیں ۔۔۔ ۔محترم قارئین کرام!
ساتھیو! مترو! جنم دن سے لے کر آج تک ضلع میانوالی کی رودادِ غم بڑی تکلیف
دہ ہے ۔۔ اس کے ساتھ ہمیشہ انیعائیں ہو تا آرہا ہے ۔ ہمیشہ سدھار کی کمی
اور بگاڑ کی فراوانی نظر آئی ہے ۔۔ جو ہونا تھا وہ ہوگیا( لنگیاں کوں ملدے
نی ڈس کڈاں گھوڑے )اب ہم اہلیانِ میانوالی کو یوجنا کرنا ہو گی اپنی نسلوں
کی سرکشا او ر روشن مستقبل کے لئے اذہان کے دریچوں کو وا کرکے فکر کی بلندی
اور سوچ کی گہرائی سے مستقل مزاج شُب ، شُب فیصلے کرنا ہوں گے ۔۔۔ ضلع
میانوالی کی گھمبیر سمسیا کا ایک ہی اوپائے ہے کہ باسیانِ میانوالی کو اپنے
وچاروں میں انقلابی تبدیلی لا کر آئندہ متوقع چناؤ میں کسی شُب چِنتک
امیدوار کو اپنا قیمتی ووٹ دے کر لوک سبھا میں اقتدار کی کرسی پر بیٹھنے کا
ادیکار دینا ہو گا۔۔ جوبندی بنانے کی بجائے۔۔جنتا کے ہر آدیش کا پالن کرے۔۔
۔ حقیقی معنوں میں خادم بن کر جنتا کی سیوا کر ے ۔۔حقوق کے لئے آواز بلند
کرے اور میانوالی میں ایسے شُب چنتک سماج سیوک سیاستدان موجود ہیں بس کھوج
لگا کے اُن کو منصہ شہود پر لانے کی ضرورت ہے ۔۔علاوہ ازیں۔ ضلع میانوالی
میں سیاست کے فرسودہ رسم ورواج کا سرواناش کر کے شمشان گھاٹ کی اوٹ لے جا
کر ان کی چِتا کو آگ لگانی ہو گی۔۔سیاسی ساجے داریاں، سیاسی فاتحہ خوانیاں
اور ذاتی گھمسان کی سیاست نہیں ۔ ہمیں ترقی کی اوٹ جانا ہے۔۔۔ ۔۔ ہمیں
گھائل جنتا کے گہرے گھاؤکا مرہم چاہیئے ۔۔۔۔ ضلع میانوالی میں کسی چیز کی
کوئی کمی نہیں ہے ۔۔ تمام قدرتی وسائل کی فراوانی ہے تو ہر قسم کے باہنر ،
با صلاحیت افراد کی بھر پور موجودگی ۔۔۔۔ گویا میانوالی کو پاکستان کا
دوبئی ،پیرس بنانے کے لئے تمام تر لوازمات موجود ہیں ۔۔۔ مگر شومیء قسمت کہ
سیاستدانوں، منتریوں یا منتخب نمائندوں کی توجہ اس طرف ہر بار مبذول نہیں
ہو تی۔۔۔ سٹیل مل میانوالی کی ۔۔ چلی کراچی گئی ۔۔ کالاباغ ڈیم میانوالی
میں تعمیر ہونا ہے مگر ہمارے منتخب نمائندوں نے ڈیم کے حق میں ایک اخباری
بیان تک نہیں دیا۔۔۔ بلکہ ایک سیاستدان نے تو ملک میں انتشار پھیلنے کا
خدیشہ ظاہر کر کے درمیانی راہ اختیار کر لی ۔۔تحریک حقوق ِ میانوالی کے
موقع پر سیاستدانوں کی سیاست کے اندر سیاست کے عظیم نسخے، منتخب نمائندوں
کی چپ سانوں مار مکایا۔۔۔؟بہر حال یہ سیاست دان۔ منتری ، منتخب نمائندوں
کچھ نہیں ہوتے ۔۔۔ جمہوری راجدھانی میں صرف اور صرف شکتی شالی عوام ہوتے
ہیں ۔۔۔کسی سیاست دان کے بھاگِ شالی ہو نے کا فیصلہ عوام ہی کر تے
ہیں۔۔۔مگر عوام کو شاید اس بات کا ابھی اندازہ نہیں کہ وہ واقعی شکتی شالی
ہیں۔۔ورنہ عوام یو ں بے گھتری کے ساتھ اپنے قیمتی ووٹ کا استعمال ہر گز نہ
کرتے ۔۔ لیکن اب مجھے محسوس ہورہا ہے کہ عوام کو شکتی شالی ہونے ، اپنے
حقوق اور اہمیت کا اندازہ بخوبی ہو چکا ہے ۔۔۔ امید واثق ہے کہ عوام اس بار
چناؤ میں اپنے شکتی شالی ہو نے کا ثبوت ضرور دیں گے ۔۔۔ یہ ضلع میانوالی ہم
عوام کا ہے اس کی رکشا ، سرکشاہم عوام نے کرنی ہے ۔اُن کا سروناش ضروری ہے
جو ہمارے لئے اور ہمارے ضلع کے لئے ناسور بن چکے ہیں ۔۔اب یہ ضرور دیکھنا
ہو گا کہ دنیا کہاں پہنچ گی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔ ہمیں اس جد ید ترین
دور میں دنیا کا ہمسفر بن کر چلناہے ۔۔ ۔۔۔ضلع میانوالی میں ایک اور گھمبیر
سمسیا یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے قومی ، صوبائی اسمبلی
کے 6 حلقوں کے لئے کچھ زیادہ ہی راہنما امیدوار ہو نے کا جذبہ رکھتے ہیں۔۔
پورا ضلع ایک طرف ۔۔ حلقہ پی پی 44کی تاروں میں اس وقت کرنٹ 11ہزار 500سے
تجاوز کر رہا ہے ڈاکٹر صلاح الدین خان ، حاجی خورشید انور خان ، امیر خان،
کرنل حسن خان ، حفیظ اللہ خان نیازی اور کچھ اور بھی راہنما ایسے ہو ں گے
جنہوں نے ابھی تک کھلِ عام امیدوار ہو نے کا دعویٰ نہیں کیا ۔۔ جو وقت آنے
پر شاید ( اوکھا سوکھا)اظہار کر بھی دیں ۔۔ بہر حال یہ تو تمام راہنما ؤ ں
کی ذاتی خواہش ہے اصل فیصلہ بذریعہ پارلیمانی بورڈ پاکستان تحریک انصاف کے
چیئرمین عمران خان نے کر نا ہے وہی راہنما بھاگِ شالی شمار ہو گا جس پر
پارلیمانی بورڈ ، اور خان صاحب کی کرِپا ہو گی ۔۔۔ امیدواروں کی نامزدگی کا
انتظار ورکروں ، راہنماؤں سے زیادہ عوامی حلقو ں کو ہے ۔۔۔ عمران خان کی
کِرپا ضلع بھر میں کن کن راہنماؤں پر ہو گی یہ تجسس و اضطرابیت تب ختم ہو
گی جب پارلیمانی بورڈ کا قیام عمل میں آئے گا۔۔۔۔۔ اور with name امیدواروں
کی نامزدگی ہو گی ۔۔۔ در حقیقت الیکشن مہم کا آغاز تب ہی ہو گا۔۔۔آخر میں
بحیثیت صحافی میرے لئے تمام سیاسی ورکرز ، راہنما، پارٹیاں مکرم و معتبر
ہیں میں اُن کی دل سے عزت کرتا ہوں ۔۔ میں نے اس کالم میں جو الفاظ مزاح کے
زمرے میں لکھے ہیں یہ تمام سیاسی ورکرز ، راہنماؤں اور پارٹیاں سے اظہارِ
محبت ہے ۔۔۔ میرا مقصد کسی کی دل آزاری و اتمان کرنا ہر گز نہیں ہے ۔۔ پھر
بھی اگر کسی کو میری کو ئی بات ناگوار گزری ہو تو میں تہہ دل سے معذرت خواہ
ہوں ۔۔۔۔ |