کشمیر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان مائل بہ عسکریت کیوں؟
(الطاف حسین ندوی کشمیری, srinagar kashmir)
گذشتہ دو مہینے سے کشمیر میں جو نوجوان فوج
اور پولیس کے ساتھ مختلف معرکہ آرائیوں میں جاں بحق ہو ئے ہیں ان کی عسکریت
میں شمولیت آج کل موضوع بحث بنی ہو ئی ،وزیر اعلیٰ سے لیکر مرکزی وزیر
داخلہ تک اس نئی صورتحال کے حوالے سنجیدہ بیانات سامنے آئے ہیں اور بادی
النظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حقیقتاََ یہ لوگ کشمیر کے حوالے سے فکر مند
ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے سوائے اس کے کہ ایک عرصے سے بھارت بھر کا میڈیا
2014ء کو کشمیر میں نئی خونین عسکری دور کے آغاز کے طور پر پیش کررہا ہے
اور ان کے خیال میں افغانستان سے امریکی فوجی انخلأ کے بعد ہی القائدہ اور
طالبان کی فوج کشمیر آزاد کرنے پہنچ جائے گی ،تجربہ یہ ہے کہ بھارت اسے
چلینج سمجھ کر قومی سطح پر نہ صرف تیاری اور ذہن سازی کر رہا ہے بلکہ وہ اس
حوالے سے فوج سے لیکر سیاست دانوں تک کو تیار بہ تیار رہنے کی کوشش میں لگا
ہوا ہے اس لیے کہ دنیا بھر میں مغربی میڈیا کے بعد اگر کسی میڈیا کو وار
مشنری کہا جا سکتا ہے وہ صرف بھارتی میڈیا ہے جس کا کشمیر کے گھٹن زدہ
ماحول میں جی رہے لوگوں کو وسیع تر تجربہ ہے ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ عسکریت میں شامل
کیوں ہو رہے ہیں حریت کانفرنس کے چیرمین سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ یہ
بھارت کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے غیر حقیقت پسندانہ رویہ اپنانے کے سبب ہو
رہا ہے ان سے قبل کئی لوگ اس صورتحال کو ایک دوسرے انداز میں پیش کرتے ہو
ئے اس سے پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کے ناروا رویے کی وجہ قرار دیتے ہیں
اور ابھی یہ سلسلہ تھمنے نہیں پاتا ہے کہ بھارت بھر کے میڈیا نے بھی یہی
موضوع کئی روز سے اپنے لیے منتخب کر رکھا ہے ا ن حضرات کو تعجب ہو رہا ہے
کہ لکھے پڑھے کشمیری نوجوان بندوق اُٹھا کر عسکری تنظیموں میں شامل ہو رہے
ہیں،حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ کوئی انکشاف نہیں ہے پہلے بھی
عسکری میدان میں لکھے پڑھے لوگ ہی سر گرم عمل تھے اب بھی وہی لوگ اس میدان
میں قائم ہیں البتہ پہلے کے مقابلے میں اب میڈیا کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہو
چکا ہے اور دن بھر کے چوبیس گھنٹوں میں خبروں اور نئے تبصروں کے متلاشی اور
خوگر رپورٹر بسااوقات ایک پرانی چیز کو نئے انداز میں پیش کرتے ہو ئے یہ
تاثر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ یہ بات بالکل ایک نیا انکشاف ہے بالکل
وہی معاملہ’’ تازہ دریافت‘‘کا بھی ہے ۔
کشمیر کی دہائیوں پرانی عسکریت کے برعکس ہم اگر 1989ء میں شروع کی گئی
عسکریت کو ہی لے لیں اس میں شامل پچاس ساٹھ ہزار کے قریب نوجوانوں کی
اکثریت لکھے پڑھے لوگوں کی تھی ،اور جہاں تک قیادت کا تعلق ہے ایک آدھ کے
سوا باقی سب لکھے پڑھے لوگ ہی تھے ،چاہئے وہ کشمیر کی سب سے بڑی عسکری
جماعت حزب المجاہدین ہو یا جیش محمدﷺیاجے ،کے ،ایل ،ایف اور لشکر طیبہ اور
دوسری چھوٹی بڑی تنظیمیں ۔۔۔۔عسکری قیادت میں اشفاق مجید،اعجاز احمد
ڈار،ماسٹر محمد احسن ڈار ،سید صلاح الدین ، شمس الحق ،علی محمد ڈار ،محمد
مقبول الائی ، محمد اشرف ڈار،کمانڈر مسعود تانترے،ریاض الرسول،انجینئر
محمود الزمان،کمانڈر امتیازاحمد،انجینئر فردوس کرمانی ،کمانڈر سیف اللہ
،ناصر الاسلام ،پروفیسر معین الاسلام اور پائلٹ ندیم خطیب کتنے نام گنائے
جائیں جنہوں نے ایک کاز کے لیے زندگیاں قربان کردیں اور یہ بھی حق ہے کہ
1990ء میں جن حضرات نے بندوق اٹھائی تھی ممکن ہے کہ ان میں بہت سارے لوگ کم
لکھے پڑھے یا ان پڑھ بھی شامل ہوئے ہوں اولاََ یہ بحث ہی غیر ضروری ہے اس
لیے کہ کسی تحریک میں لکھے پڑھے لوگوں کی شمولیت یا عدم شمولیت کوئی اہمیت
نہیں رکھتی ہے نہ ہی یہ کوئی ’’میعار حق‘‘ہے البتہ جو 1990ء میں کم لکھے
پڑھے عسکری تحریک میں شامل ہو ئے تھے وہ علاقائی سطح پر بااثر ہو نے کے
ساتھ ساتھ بہت اعلیٰ دماغ لوگ تھے حالانکہ اس بحث سے دلچسپی رکھنے والے لوگ
اگر ایک سال پیچھے 1989ء کی اسمبلی وزرأ کا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں تو
انھیں یاد آئے گااور ہماری نئی نوجوان نسل کو سخت حیرت ہو گی کہ اس اسمبلی
میں اس وقت ایک ان پڑھ شخص وزیر حج و اوقاف پورے جلال کے ساتھ براجمان
تھالہذا یہ حکمرانوں کی حالت تھی عوام کی قابل فہم ہونی چاہیے۔
حال ہی میں جو نوجوان سیکورٹی فورسز کے ساتھ معرکہ آرائیوں میں جاں بحق
ہوئے ہیں ان میں اکثر نوجوان جدید تعلیم سے آراستہ تھے اور دو نوجوان دینی
درسگاہوں کے فضلأ تھے اور ہلال احمد نامی نوجوان دارالعلوم دیو بند کی
فراغت کے ساتھ ساتھ ایک مفتی بھی تھااب سوال پیدا ہوتا ہے جیسا کہ وزیر
اعلیٰ نے بھی اس حوالے سے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کے تجزیے کی بات کی
ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے ؟میرے نزدیک یہ سوال بھی کوئی زیادہ نیا
نہیں ہے مجھے فوج نے 1996ء میں گرفتار کر کے چھے مہینے تک مختلف انٹراگیشن
سینٹر وں میں قید رکھا جہاں ملٹر ی انٹیلی جنس اور آئی ،بی کے لو گ بڑے
عجیب و غریب بلکہ کہنا چاہئے بے سر وپا سوالات پوچھتے تھے جن میں ایک یہ
بھی ہوتا تھا کہ لکھے پڑھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے نوجوان بندوق کا
راستہ کیوں اختیار کرتے ہیں ؟دراصل ان لوگوں کے ذہن میں ممبئی فلم انڈسٹری
کی بنائی ہوئی فلموں کا اثر گہرا ہوتا ہے جس میں عسکریت پسندوں کو جاہل
،گنوار،ان پڑھ ،ہوس پرست ،شرابی ،زن پرست ،بے رحم ،زانی اوردولت کے بھوکوں
کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے گہرا تجزیہ کرنے کے بجائے یہ لوگ خود اپنے آپکو
بیوقوف اور اپنی قوم کو گمراہ کرنے میں زیادہ دلیر ہوتے ہیں حالانکہ اب تو
القائدہ کے وجود میں آنے اور اس میں ارب پتی عربوں اور یورپی لکھے پڑھے
نوجوانوں کی شمولیت کے بعداس غبارے سے ہی ہوا نکل گئی ہے اب دنیا کو گمراہ
کرنے والی ’’بالی وڈ اور ہالی وڈ‘‘کے پاس من پسند موضوع نہیں ہے لہذا وہ
لوگ اس ناحیے سے کوئی فلم بنانے کے لیے تیار نہیں ہیں اس لیے کہ میڈیا
رپورٹس اور خود مغربی صحافیوں کی بیان کردہ کہانیوں کے نتیجے میں ان کی عمر
بھر کی کہانی ڈراموں اور افسانوں سے زیادہ کچھ بھی معلوم نہیں ہوتی ہے ۔
جہاں تک تازہ انکشافات (اور ہمارے نزدیک کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ پرانی
باتوں کو نئے الفاظ میں ڈالکر پیش کیا جاتا ہے )کا تعلق ہے اس حوالے سے اب
تک سید علی گیلانی سمیت کئی لوگوں نے بہت اہم اور قابل توجہ باتیں کہیں ہیں
مگر ان سب پر یہ بات غالب ہو گی کہ دنیا میں جس طرح سویت یونین کے
افغانستان سے نکل جانے اور 11ستمبر کے بعد افغانستان اور عراق میں امریکہ
کے داخل ہونے کے بعد صورتحال انتہائی تیزی کے ساتھ بدل رہی تھی بالکل اسی
طرح عالم عرب میں’’ عوامی انقلاب ‘‘کے بعد دنیا میں نظریوں اور پالیسیوں
میں بہت تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہو ئی ہیں اور اب ساری دنیا کے لیے
بالعموم اور برصغیر ہندوپاک اور افغانستان کے لیے بالخصوص حالات بدل رہے
ہیں ان حالات کا ’’مثبت یا منفی‘‘اثر ساری دنیا پر بالعموم اور ’’سہ تانی
خطے یعنی افغانستان ،پاکستان اور ہندوستان‘‘پربالخصوص بہت زیادہ اور دور رس
مرتب ہوں گے بھارت کی پوری کوشش یہی نظر آتی ہے کہ وہ اس نئی تبدیلی کے
منفی اثرات سے محفوظ رہے ۔بالکل اس نئی تبدیلی کے اثرات جموں و کشمیر میں
بھی مرتب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ،کشمیرمیں بھی قدرتی طور پر بعض حادثات کے
پس منظر میں 2008ء،2009ء اور2010ء کے پرُ امن عوامی انقلابات کو دلی کی
نااہلی اور متکبرانہ کشمیر کش پالیسی کے نتیجے میں قیادت سے لیکر عوام تک
ہر ایک دلی کی ’’ڈھونگ سے مزئین مذاکراتی عمل‘‘سے مایوس ہو کر فطری طور پر
یہ سوچنے پر مجبور کردیا گیا کہ آخر کشمیر کے بنیادی مسئلے کو ہر دو
طریقوں’’بندوق یا پر امن مذاکرات‘‘کے ذریعے حل نہ کرنے کی بنیادی وجہ کیا
ہے،دیوار کے ساتھ دھکیلنے کے اس ’’دلی کے مکروہ کھیل‘‘نے ہر ایک کے
لیے2014ء کا سال قیاس آرائیوں سے بھرپور سال بنادیا ہے اور سب سے بڑھکر یہ
کہ القائدہ اور طالبان کے لیے میدان فراہم کردیا ہے اور غالب گمان یہ ہے کہ
جہاں کشمیر اورپاکستان میں بعض حضرات کے لیے ان کی مداخلت خوش آئند ہو سکتی
ہے وہی بھارت بھی اس نئی صورتحال سے زیادہ ناخوش نہیں ہوگا اس لیے کہ بندوق
دلی والوں کو کشمیریوں کے سینے پر مونگ دلنے کا سہانا موقعہ فراہم کرتا
آیاہے اور نئی تازہ صورتحال میں پر امن جدوجہد ’’عارضی طور ہی صحیح‘‘دلی کے
لیے گلے کی ہڈی بن چکی تھی ۔
کشمیر کی نئی نوجوان نسل کے دل و دماغ میں یہ بات رچ بس چکی ہے کہ دلی والے
تبھی کشمیر مسئلے کو حل کرنے پر راضی ہوں گے جب ان کے لیے کشمیر میں
افغانستان جیسے ہی حالات پیدا ہو ں گے اور یہی بات بارک اوباما کے
افغانستان سے فوجی انخلأ کے اعلان پر متحدہ جہاد کونسل کے چیرمین سید صلاح
الدین احمد نے کہی تھی کہ نیٹو افواج افغانستان سے کسی سیاست کاری کے نتیجے
میں نہیں نکل رہے ہیں بلکہ یہ صرف جہاد کا نتیجہ ہی ہے ،اس میں دو رائے
نہیں کہ حالیہ ایام میں جو نوجوان عسکری معرکہ آرائیوں میں جام شہادت نوش
کر چکے ہیں ان میں اکثر نوجوان لکھے پڑھے تھے اور کئی کے لیے روز گار کے
مواقع بہت قریب تھے ،ان کے دوستوں اور رشتہ داروں سے یہ معلوم ہوا کہ یہ
نوجوان ابتدأ سے ہی اسلام پسند تھے اور ان کا طالب علمی کے ہی دور میں جہاد
کی جانب رجحان پایا جا رہا تھا ،پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں کے
نوجوان کشمیر میں پہلے بھی تحریک سے وابستہ تھے اور اب بھی ان کا رجحان اس
جانب ہے البتہ یہ بات طے ہے کہ مقامی تنظیموں کے بجائے کشمیر کے نوجوانوں
کا بیرونی بین الاقوامی شہرت یافتہ تنظیموں کے ساتھ دلچسپی ابھی محدود ہے
شاید اس لیے کہ ابھی وہ تنظیمیں کشمیر میں فعال اور سر گرم نہیں ہیں اور
اگر کہیں ہیں بھی تو بہت محدود۔۔۔۔ہاں اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ اگر
کشمیر میں القائدہ یا طالبان دونوں یا دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنا نیٹ
ورک قائم کرنے میں کامیاب ہوا تو کشمیر میں ہزاروں لکھے پڑھے اعلیٰ تعلیم
یافتہ نوجوان ان جہادی تنظیموں میں اسی طرح شامل ہوں گے جس طرح اسی قبیل کے
لوگ افغانستان ،عراق اور اب شام میں شامل جنگ ہو چکے ہیں اس کی ایک بنیادی
وجہ یہ بھی ہے کہ بقول اے ،جی نورانی کے دلی کے پاس کشمیر کے لیے کچھ بھی
نیا نہیں ہے وہی پرانی گھسی پٹی باتیں اور out of date statementsجن کو
سنتے سنتے کشمیر کے لوگوں کے کان پک چکے ہیں اور تنفر کا عالم یہ ہے کہ جب
بھی ٹی وی اسکرین پر کوئی نیوز ریڈر اس طرح کی خبریں لے کر نمودار ہوتا ہے
تو کشمیر کے لوگ بلاتوقف چینل بدل دیتے ہیں اور یہی کچھ اخبارات پڑھنے
والوں کا حال ہے گویا انھیں سرخی دیکھ کر ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اس کے ذیل
میں کیا لکھاہوگا اس لیے کہ یہ کشمیریوں کا چھے دہائیوں پر پھیلا ہوا وسیع
ترتجربہ ہے ۔ |
|