اسلامی مہینوں میں ماہ ِشعبان
المعظم ایک اہم مقام عظمت وفضیلت رکھتا ہے۔یہ وہ مہینہ ہے،جسے رحمت عالم
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنا مہینہ قرار دیا۔سرکاراقدس صلی علیہ تعالیٰ
علیہ وسلم نے اس ماہ مبارک کومحبوب رکھا۔اس کے فضا ئل میں احادیث وارد
ہوئیں،اس ماہ میں اﷲ پاک اپنے بندوں کی مغفرت کرتا ہے،دعائیں مقبول ہوتی
ہیں۔اسی ماہ کی پندرہویں شب کو شب ِبرأت کہا جاتا ہے،یعنی جہنم سے برأت (آزادی)کی
رات۔جس میں رب کریم کی خصوصی عنایتوں اور مہربانیوں کا نزول ہوتا ہے۔
اس برکت والی رات پروردگار عالم رحمت کی تجلی فرماتا ہے،آسمانوں کے دروازے
کھول دیے جاتے ہیں،فرشتگانِ الٰہی عابدین وزاہدین اور نادمین کو ندا کرتے
ہیں،انھیں رضاے الٰہی کی خاطر عبادت و توبہ کے صلے میں بخشش کا مژدہ سناتے
ہیں۔یہ رات قیام کی رات ہے،عبادت کی رات ہے،یادِمولیٰ عزوجل کی رات ہے،ذکر
ِمحبوب صلی اﷲ علیہ تعالیٰ سلم کی رات ہے، رحمت و غفران کی رات ہے،بخت ِخفتہ
کی بیداری کی رات ہے،رب کے حضور گڑگڑانے کی رات ہے،طلب ِمغفرت کی رات
ہے،خود احتسابی کی رات ہے،رب کی رضا و خوش نودی حاصل کرنے کی رات ہے․․․․․․یہ
رات!امت ِمحمدیہ پر خداے قدیر وجبار کے انعام و اکرام کی رات ہے۔
خوش خبری ہے اسے،جس نے اس رات اﷲ و رسول (عزوجل وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ
وسلم)کی رضا حاصل کرلی۔کام یاب ہے وہ،جس نے اس رات کی قدر جانی اور کی۔خوش
قسمت ہے وہ،جس کے نالۂ نیم شبی نے باب ِاجابت ِالٰہی پہ دستک دی،اوروہ
مغفور ہوا․․․․․․اور کتنا محروم ہے وہ،جواس مبارک شب کی برکتیں نہ پا سکا․․․․․․آخر
کون لوگ ہیں،جو اس رحمت وغفران کی شب بھی محروم رہتے ہیں؟ــــ ․․․․․․․․
روایات کے مطابق مشرک،ساحر(جادوگر)،کاہن،زنا پر اصرارکرنے والا،ہمیشہ شراب
پینے والا،بغیر عذر ِشرعی مسلمانوں سے رشتے توڑنے والااورمسلمانوں سے کینہ
وعداوت رکھنے والا اس مبارک شب میں بھی بخشا نہیں جاتا۔اس لیے مسلمانوں کو
چاہیے کہ شب برأت سے قبل صدق دل سے توبہ کریں،روٹھے ہوؤں کو منائیں،پریشان
حالوں کی دست گیری کریں ، یتیموں اور بیواؤں کی امدادکریں، بے کسوں اور درد
مندوں کے درد کا مداوا بنیں، حقوق العباد ادا کریں، اور ہمیشہ اس پر قایم
رہنے کی دعا بھی کریں اور عمل بھی،خود بھی ان باتوں کا خیال رکھیں اور
متعلقین کو بھی آگاہ کریں۔ اس سلسلے میں امامِ اہلِ سنت امام احمد رضاقادری
محدث بریلوی کے ایک مکتوب سے اقتباس نقل کیا جاتا ہے،جواس مبارک شب سے
متعلق اہل ِایمان کے لیے پیغام بھی ہے اوراسلامی تشخص کی بحالی کے لیے نسخۂ
کیمیابھی۔آپ فرماتے ہیں:
’’شب برأت قریب ہے۔اس رات تمام بندوں کے اعمال حضرت عزوجل میں پیش ہوتے
ہیں۔مولیٰ عزوجل بہ طفیل حضور پُر نورشافع ِیوم النشورعلیہ افضل
الصلوٰۃوالسلام مسلمانوں کے ذنوب (گناہ)معاف فرماتاہے۔مگرچندان میں وہ دو
مسلمان جو باہم دنیوی وجہ سے رنجش رکھتے ہیں،فرماتا ہے کہ ان کو رہنے دو جب
تک آپس میں صلح نہ کر لیں۔لہٰذااہل سنت کو چاہیے کہ حتی الوسع قبل غروب
آفتاب ۱۴؍شعبان باہم ایک دوسرے سے صفائی کرلیں،ایک دوسرے کے حق ادا کردیں
یا معاف کرالیں کہ با ِنہٖ تعالیٰ حقوق العباد سے صحائف اعمال خالی ہوکر
بارگاہ عزت میں پیش ہوں،حقوقِ مولیٰ تعالیٰ کے لیے توبۂ صادقہ کافی ہے
التائب من الذنب کمن لاّذنب لہٗ ایسی حالت میں با ِذنہٖ تعالیٰ ضروراس شب
امید ِمغفرتِ تامہ ہے۔بہ شرط صحت ِ عقیدہ……………………اس فقیر ِناکارہ کے لیے
عفو عافیت کی دعا فرمائیں۔فقیر آپ کے لیے دعا کرے گااورکرتا ہے۔
سب مسلمانوں کو سمجھایا جائے کہ وہاں نہ خالی زبان دیکھی جاتی ہے نہ نفاق
پسند ہے،صلح و معافی سب سچے دل سے ہو۔‘‘
اسلاف نے درس دیا، بزرگوں نے بتایا کہ ریااور نفاق ایک ہی چیز ہے،اور بندۂ
مومن نفاق سے پاک ہوتا ہے۔اﷲ کریم کو بھی نفاق ناپسند ہے اس لیے اس کی جانب
سچی توبہ کی جائے ۔یاد رہے توبہ اسے کہتے ہیں کہ جس بات سے توبہ کی جائے اس
کا صدور مستقبل میں تائب سے نہ ہواسے ہی سچی توبہ کہتے ہیں اور یہی علامت
قبولیتِ توبہ کی بھی بزرگوں نے بتائی ہے۔اور قبولیتِ دعا کا بہترین وقت شبِ
برأت احادیث و روایات سے ثابت ہے۔شبِ برأت یا کبھی بھی گناہوں سے توبہ کرنے
کے بعد مسلمان کا کردار و عمل سنتِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روشن
ہوجانا چاہیے،نیکیوں سے رغبت اور گناہوں سے نفرت مسلمان کا وصف ہونا چاہیے،
امن وسکون ،اخوت و بھائی چارگی مسلم معاشرے کی شناخت ہونی چاہیے،ہمارا
کردار پابند ِنظام ِمصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہونا چاہیے، ہمارے افکار
وخیالات چراغ ِمصطفوی کی تابانیوں سے روشن وتاب ناک ہونے چاہیے، ہماری روش
اسلامی ہونی چاہیے، شب برأت سے متعلق بزرگان دین کے یہ پیغام ہمیں خود
احتسابی کی دعوت دیتے ہیں۔ضروری ہے کہ مسلمان انہیں سمجھیں اور عمل
کریں۔یہی وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔ |