مکالمہ جو بھلایا نہیں جا سکے گا
(Dilpazir Ahmed, Rawalpindi)
|
انسانی تاریخ میں دو قوتیں اکثر سچائی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی رہی ہیں: ابا پرستی اور تعصب یہی دو بیماریاں مکہ کے سرداروں کے دل و دماغ پر بھی مسلط تھیں۔ نبی کریم ﷺ کی صداقت اُس دور کے سب سے سخت دلوں کو بھی ہلا دیتی تھی، لیکن سچ قبول کرنے کے لئے صرف دلیل کافی نہیں ہوتی— دل کی ضد اور مفاد کا بوجھ بھی ہٹانا پڑتا ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں کچھ ایسے سوالات اور وساوس تھے جنہوں نے قریش کے ذہنوں میں کھلبلی مچا رکھی تھی۔ انہی حالات کے پس منظر میں ایک تاریخی مکالمہ ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ ابو جہل کے انکار کی اصل وجوہ عقل یا دلیل کا فقدان نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے "ابا پرستی، قبیلائی غرور اور سرداری کا نشہ" تھا۔ مکہ کی رات خاموش تھی، دارالندوہ کے ستونوں کے سائے طویل ہو رہے تھے۔ اسی فضا میں عمر بن ہشام (ابو جہل) اور ابنِ اخنس آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ ابنِ اخنس نے پہلا سوال وہی اٹھایا جو مکہ کے ہر شخص کے ذہن میں گونج رہا تھا: “اے ابو الحکم! محمد بن عبداللہ (ﷺ) کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے۔ مگر کیا ہمارے آبا و اجداد غلط تھے؟ کیا اتنی نسلوں نے تین سو ساٹھ معبود یوں ہی پوجے؟” یہ سوال صرف ایک شخص کا نہیں تھا، بلکہ پوری قوم کی نفسیات کا آئینہ تھا۔ مگر ابا پرستی نے عقل کی راہ بند کر رکھی تھی۔ ابو جہل نے ایک سرد طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا: “محمد (ﷺ) کا کلام دل کو ہلا دیتا ہے۔ وہ جو پڑھتا ہے… اس کی تاثیر انسان پنہاں نہیں رکھ سکتا۔ لیکن اگر ہم مان لیں تو سوچو— قریش کی سرداری کا کیا بنے گا؟ بنو ہاشم پہلے ہی فخر سے کہتے ہیں کہ نبوت انہی میں ہے۔ اگر ہم بھی مان جائیں تو قیادت ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گی۔” یہ جملہ اس حقیقت کا اعتراف تھا جو تاریخ بار بار کہتی ہے: "قبیلہ پرستی سچائی کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے۔" ابنِ اخنس نے پھر دریافت کیا: “تو کیا تمہیں دل سے یقین نہیں کہ وہ سچا ہے؟” ابو جہل نے ایک لمحہ خاموشی کے بعد اعتراف کیا: “دل کہتا ہے وہ سچا ہے۔ لیکن اگر مان لیا تو ہمارے لات، عزیٰ اور منات کا نظام ٹوٹ جائے گا۔ تجارتیں بدل جائیں گی، پرانی روایات ختم ہو جائیں گی۔ اور سب سے بڑھ کر… قریش کی سرداری — میری سرداری — ختم ہو جائے گی۔” یہ وہ لمحہ تھا جب سچائی نے دروازہ کھٹکھٹایا، مگر ضد نے اسے بند کر دیا۔ ابنِ اخنس نے افسوس سے کہا: “تو تم عقل کو چھوڑ کر مفاد اور قبیلے کی محبت کو تھامے ہوئے ہو؟” ابو جہل نے جواب دیا: “میں عقل کو نہیں چھوڑ رہا، میں اپنی طاقت کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اگر خدا چاہتا ہے تو میری بادشاہت مجھ سے لے لے، مگر میں خود اسے اپنے ہاتھوں نہیں چھوڑوں گا۔” یہ مکالمہ محض دو افراد کا نہیں، بلکہ تاریخ کی ان ساری قوموں کا آئینہ ہے جو سچائی کو پہچان لینے کے باوجود ابا پرستی، قبیلہ پرستی اور مفاد پرستی کی وجہ سے اس کا انکار کر دیتی ہیں۔ قرآن کریم نے اسی رویے کو ایک مختصر اور فیصلہ کن جملے میں بیان کیا: “انہوں نے حق کو پہچان لیا، مگر ظلم اور تکبر کی وجہ سے انکار کیا۔” *(سورۃ النمل، آیت 14)* آج بھی یہی دو بیماریاں— اندھی روایت پرستی اور گروہی تعصب— سچ کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ قومیں علم کے دروازے پر ٹھوکریں کھا کر گرتی ہیں، مگر اپنی پرانی زنجیروں کو نہیں چھوڑتیں۔ سوال صرف مکہ کے سرداروں کا نہیں— سوال یہ ہے کہ آج ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ سچ کی طرف یا اپنی ضد، رسموں اور تعصبات کی طرف؟
|
|