نتیش مودی: اور لے آئیں گے بازار سے جو ٹوٹ گیا

قومی جمہوی محاذمیں ایک اوردراڑ پڑ گئی اور وہ بھی ایسی کہ سربراہ شرد یادو ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ نتیش کمار کے اعلانِ بغاوت پر گو کہ سشما سوراج نے افسوس کا اظہار کیا لیکن مختار عباس نقوی نے کہا اگر یہ اتحاد ایک کے بجائے دس مرتبہ بھی ٹوٹے تب بھی ہم نریندرمودی کو نہیں ہٹائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سی وجہ ہے جس کے سبب نقوی کو اتحاد سے زیادہ مودی کی قیادت عزیز ہے؟ دراصل بی جےپی کو پتہ ہے کہ قومی جمہوری محاذ ہو یا متحدہ ترقی پذیر وفاق ان دونوں کی حیثیت جامِ جم کی نہیں جامِ سفال کی سی ہے ۔ یہ تو صحرا میں نمودار ہونے والے ریت کے ٹیلے ہیں جو اقتدار کی ہوا کے ساتھ بنتے بکھرتے رہتے ہیں ۔سیاسی رشتے داری میں پائیداری نہیں ہوتی۔ ابن الوقتی کی بنیاد پر یہ تعلق کل بنا تھا آج ٹوٹ گیا ۔اقتدار کی جس ہوس نے اسے آج توڑا ہے کل وہی اسے پھر جوڑ دے گا ۔اس لئے کہ سیاست کے اکھاڑے میں نہ تو دوستی ازلی ہوتی ہے اور نہ دشمنی ابدی ۔ جمہوریت کا پہیہ اقتدار کے محور پر گھومتا ہے اور اس کی گردش کبھی اجنبی کو دوست بنا دیتی ہے تو کبھی رفیق کو فریق میں تبدیل کر دیتی ہے۔ ہندوستانی سیاست میں یہ کھیل اتنی مرتبہ دوہرایا جا چکا ہے کہ اس پر اظہارِحیرت اپنے ا ٓپ میں حیرت انگیزہے۔ سیاستداں تو اس فریب خوردگی کا شکار رہتے ہیں کہ آسی ضیائی سے معذرت کے ساتھ ؎
الیکشن میں مجھے اندیشۂ سودوزیاں کیوں ہو
بنے جو شاخ، نازک پر وہ میرا آشیاں کیوں ہو

سیاسی افق پر نتیش کمار کا تشخص ؁۱۹۹۴ میں کی جانے والی بغاوت سے وابستہ ہے۔ اس وقت وہ بہار جنتا دل کے سکریٹری جنرل تھے لیکن لالو پرشاد یادو کاڈنکا ایسے بجتا تھا کہ ان کے سوا بہار کے کسی لیڈر کوئی جانتا نہیں تھا۔ اس وقت جارج فرنانڈیس جیسے قدآور رہنما کادامن پکڑ کر نتیش کمارجنتا دل سےالگ ہوگئے لیکن آگے چل کر نتیش کمار نے اپنے پیرو مرشد جارج فرنانڈیس کے ساتھ وہی سلوک کیا جو فی الحال نریندر مودی اپنے دھرم گرو لال کرشن اڈوانی کے ساتھ کررہے ہیں ۔اس کے علاوہ بھی کئی لحاظ سے نتیش اور نریندر کے اندر مشابہت پائی جاتی ہے۔ جس طرح نتیش کمار نے اپنے پیش رو لالوپرشاد یادو کو کہیں کا نہیں چھوڑا اسی طرح نریندر مودی نے اپنے سابقہ وزیراعلیٰ کیشو بھائی پٹیل کا بیڑہ غرق کر دیا۔ دونوں ترقی کا ڈھول بجاتے ہیں اور دونوں ہی ملک کا وزیر اعظم بننا چاہتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کو اپنی راہ کا کانٹا سمجھتے ہیں ۔ ایسے میں بھلا ایک میان میں دو تلواریں کیسے رہ سکتی تھیں اس لئے ان کو تو الگ ہونا ہی تھا ۔ سو ہوگیا ۔

جنتا دل سے الگ ہونے کے بعد نتیش کمار نے سمتا پارٹی بنا کر بھارتیہ جنتا پارٹی سے رشتہ جوڑ لیا ۔ یہ رشتہ لالو سے دشمنی کی بنیاد پر قائم ہوا تھا اور مودی سے دشمنی کے سبب ٹوٹ گیا لیکن دونوں مواقع پر اقتدار کا حصول پیشِ نظر رہا۔ قومی جمہوری محاذ کے قیام سے دو سال قبل ؁۱۹۹۶ہی میں سمتا اور بی جے پی ایک دوسرے سے منسلک ہوگئے تھے۔ ؁۱۹۹۸ کے اندر اس جب متحدہ جمہوری محاذ باقائدہ عالمِ وجود میں آیا اس وقت اس اتحاد میں ۱۳ جماعتیں شامل تھیں۔ شرد یادو جنہوں نے ابھی استعفیٰ دیا ہے انہیں کو اس وقت این ڈی اے کا صدر بنایا گیا تھا۔ جب بی جے پی کو اقتدار حاصل ہوا تو اس اتحاد میں شامل چھوٹی بڑی جماعتوں کی تعداد بڑھ کر ۲۳ ہوگئی ۔ لیکن بی جے پی کے ہاتھ سے جب اقتدار کی ڈور چھوٹی تو یکے بعد دیگرے ان جماعتوں کو پر لگتے چلے گئے اور اب حال یہ ہے کہ شیوسینا اور اکالی دل کے علاوہ کوئی قابلِ ذکر جماعت اس اتحاد میں شامل نہیں ہے ۔ ان میں سے بھی صرف اکالی دل کو نریندر مودی قابلِ قبول ہے شیوسینا اسے پسند نہیں کرتی۔ باقی گوا ، میگھالیہ، ناگالینڈ اور آندھرا کی چھوٹی موٹی علاقائی جماعتیں ہیں جو قومی سطح پر اپنا کوئی اثرو رسوخ نہیں رکھتیں ۔

ابن الوقتی کی بنیاد پرموقع پرست جماعتوں کی ہمنوائی اور مخالفت کو چند مثالوں کے ذریعہ سمجھا جاسکتا ہے۔ جئے للیتا کی اناڈی ایم ؁۱۹۹۸ میں بی جے پی کے اقتدار میں حصہ دار بنی لیکن جب اس نے دیکھا کہ مرکزی حکومت انہیں بدعنوانی کے الزامات سے بری کروانے میں کامیاب نہیں ہورہی ہے تو اپنی حمایت واپس لے لی۔ ؁۱۹۹۹ میں اسی سبب سے اٹل جی پہلی سرکار گر گئی تھی۔ اس کے بعد ؁۲۰۰۴ میں پھر ایک بار اقتدار کے لالچ میں وہ این ڈی اے میں شامل ہوئیں لیکن انتخاب میں ناکامی کے فوراً بعد اپنا دامن جھاڑ کر الگ ہو گئیں۔ ڈی ایم کے نے انا ڈی ایم کے کےالگ ہوجانے کے بعد این ڈی اے کا دامن تھام لیا اور ؁۲۰۰۲ میں کنارہ کشی اختیار کرلی۔ممتا بنرجی ؁۱۹۹۸ سے لے کر ؁۲۰۰۷ تک اس محاذ میں شامل تھیں گوکہ ایک ریاستی انتخاب کے وقت وہ اپنے میکے کانگریس میں گئی تھیں لیکن پھر اپنے سسرال لوٹ آئیں۔ ؁۲۰۰۹ کی ناکامی کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ اب این ڈی اےکی کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے تو طلاق بائنہ دے کر پھر یوپی اے میں آن بسیں ۔ مایاوتی نے بھی بی جے پی کے ساتھ جوڑ توڑ کا رشتہ قائم کیا۔رام ولاس پاسوان اور اجیت سنگھ نے اتنی مرتبہ چولا بدلا کہ شمارمشکل ہے۔

بیجو جنتادل نے ؁۲۰۰۹میں انتخاب سے قبل بی جے پی کو دھتکار دیا اور اپنے بل بوتے پر کامیابی درج کروا کر بی جے پی کو اپنی حیثیت دکھلا دی۔ نتیش کمار اس وقت یہ جرأ ت نہ کرسکے لیکن اب نریندر مودی کا بہانہ بنا کر اپنے آپ کو سیکولرزم کا علمبردار ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ نتیش اس خوش گمانی کا شکار ہیں کہ مودی کی مخالفت کے سبب مسلمان ان کے اسی طرح گرویدہ ہو جائیں گے جیسے کہ لالو پرشاد یادو پر اڈوانی کی رتھ یاترا روکنے پر فدا ہوگئے تھے۔ لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ لالو کے یہاں فسطائیت کے حوالے سے گوں ناگوں وجوہات کی بناء پر مستقل مزاجی پائی جاتی ہے۔ اس کے برعکس نتیش کمارگجرات فسادکے دوران این ڈی اے کے وزیر ریلوے تھے۔ اس وقت نہ صرف نتیش کمار نے استعفیٰ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ نریندر مودی کو بچانے کی خاطر ریلوے جانچ کا آغاز مؤخر کردیا۔ وہ بہار میں مودی کو آنے سے ضرورروکتے رہے مگر دیگر ریاستوں میں اس کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر گھومتے رہے بلکہ آرایس ایس سربراہ کی اپنے سرکاری مکان میں ضیافت کی ۔ان تمام حرکات کے باوجود اگر مسلم رائے دہندگان انہیں بی جے پی کا دشمن مان لیتے ہیں تو ان سے بڑا احمق کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ نتیش کمار کی چکنی چپڑی باتیں تو بقول شاعر اندیشوں کو جنم دیتی ہیں ؎
مرے دل میں ہزاروں طرح کے اٹھتے ہیں اندیشے
عدو کو چھوڑ کر تم آج مجھ پر مہرباں کیوں ہو

اس میں شک نہیں کہ مدرسوں اور اردوکے حوالے سے نتیش کمار نے لالو سے زیادہ کام کیا کہ لیکن دہشت گردی کے جھوٹے مقدمات میں پھنسنے والے نوجوانوں کے بارے میں وہ خاموش تماشائی بنے رہے۔ قتیل صدیقی کی زیرحراست ہلاکت پر ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ فصیح محمودکو خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے سعودی عرب سے اغواء کرکے اپنی غیرقانونی حراست میں رکھااور بنگلورو دھماکے میں بلاوجہ ملوث کرلیا۔ اس دوران فصیح کے والدین اور اہلیہ در بدر ٹھوکریں کھاتے رہے لیکن نتیش کمار کی زبان سے ہمدردی کے دو بول نہیں پھوٹے۔ فوربس گنج میں بی جے پی ایم ایل سی کے خلاف احتجاج کرنے والے مسلمانوں پر گولیاں برسائی گئیں ۔ جس میں۶ افراد ہلاک ہوئے پولس کی بہیمیت کا نظارہ مقامی ٹی وی چینل سے ہوتا ہوا ساری دنیا تک جا پہنچا لیکن وزیراعلیٰ اپنی آنکھیں موندے رہے۔ بہار کا مسلمان یہ سوال کرسکتا ہے کہ کیا سیکولرزم کا دفاع اورفسطائیت کے خلاف جنگ صرف نریندر مودی کو وزیراعظم بننے سے روکنا اور خودکو اس عہدے پر براجمان کرنے کے خواب دیکھنے تک محدود ہے۔

ہندوستانی سیاست کوہر کوئی اپنے زاویے سے دیکھنے کو کوشش کرتا ہے اور یہ ایک ایسا بونڈر ہے کہ ہرزاویے سے مختلف نظر آتا ہے۔ مثلاً مسلمانوں کو نہ بی جے پی اچھی لگتی ہے اور نہ بی جے پی کا نریندر مودی کو وزیراعظم بنانے کی کوشش کرنا اچھا لگتا ہے حالانکہ جہاں تک بی جے پی کا تعلق ہے اس کاہر رہنما موقع پڑنے پر گجرات جیسا فساد کرواسکتا ہے ۔ بی جے پی ہی کیوں کانگریس نے اس سے بڑا فساد آسام میں برپا کیا یا کم از کم اقتدار میں کے باوجود اسے روکنے میں ناکام رہی۔ بوڈولینڈ میں ہونے والے مظالم سے کانگریس نے اول تو چشم پوشی کی اور بعد میں اسکی پردہ پوشی بھی کی۔دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ نہ سہی تو سکھوں کے ساتھ گجرات والا سلوک کیا اسی لئے اکالی دل کو نریندر مودی سے زیادہ خطرناک سردار منموہن سنگھ نظر آتے ہیں۔ ہندوستانی سیاست پر تو فی الحال عزیز بگھروی مرحوم کا یہ شعر صادق آتا ہے
فریاد لے کے جائیں بھی جائیں تو کس کے پاس
ہیں بے ضمیر مسندِ انصاف پر تمام

بی جے پی کو اس بات کا علم تھا کہ نریندر مودی کو وزیراعظم کا امیدوار بنانے کی قیمت جنتادل (یو) کی جدائی کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی اور دیگر علاقائی جماعتوں کوالیکشن سے قبل ساتھ لینا مشکل ہوجائیگالیکن اسے یہ بھی پتہ ہے کہ الیکشن میں مودی کی مخالفت کرکے مسلمانوں کا ووٹ بٹورنے والی جماعتوں سے انتخاب کے بعدچند وزارتوں کے عوض حمایت حاصل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ بی جے پی جانتی ہے کہ گجرات کے باہر نریندر مودی کے اثرات بے حد محدود ہیں ۔کرناٹک کے انتخابات نے حال ہی میں اس حقیقت کو اجاگر کیا ہے لیکن اس کی مجبوری یہ ہے کہ اس کے اندر شدید قحط الرجال ہے۔ آریس ایس کامنظورِنظر صدر نتن گڈکری بدعنوانی کے الزام میں رسوا ہو کر ہٹایا جاچکا ہے۔ اس کے بعد راجناتھ سنگھ،سشما سوراج اورارون جیٹلی ان تینوں میں سے کوئی کسی اور کو اپنے سے بہتر تسلیم نہیں کرتا۔ اب لے دے کے اڈوانی جی بچتے ہیں۔

کانگریس کا امیدواراگراس بار منموہن سنگھ ہوتے تب تو اڈوانی جی کوپے درپے دو ناکامیوں کے بعد پھر سے آزمایا جاسکتا تھالیکن راہل کو نائب صدر بنا کر کانگریس نے بلاواسطہ اپنا امیدوار بنادیا ہے ۔اب بھلا راہل گاندھی ابھرتی ہوئی قیادت کے سامنے اڈوانی جی کی ڈھلتی عمرکا کیاموازنہ ؟ اس لئے تمام ترخامیوں اور کمزوریوں کے باوجود بی جے پی کو نریندر مودی کی پناہ میں آنےپر مجبور ہونا پڑا ۔ نریندر مودی اپنی فقرہ بازی کیلئے معروف ہے لیکن نتیش کمار کی علٰحیدگی پر اس نے پراسرار خاموشی اختیار کررکھی ہے۔شاید یہ صورتحال اس کی توقع کے خلاف ہے اس لئے اسے کوئی جواب نہیں سوجھ رہا۔ اور اگر وہ شکوہ شکایت کرنا بھی چاہے تو کس سے کرے اس لئے کہ ؎
شکوۂ ایام کیسا ،آندھیوں سے کیا گلہ
ریت کی بنیاد پر تعمیر گھرکس نے کیا

کانگریس کے نقطۂ نظر سے نریندر مودی کا کمان سنبھالنا اس کیلئے خاصہ مفید رہا اس لئے کہ اب بدعنوانی کا مسئلہ پسِ پردہ چلا جائیگا ۔ انتخابات سیکولرزم بمقابلہ فسطائیت کی لڑے جائیں گے۔اس سے کانگریس کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مسلمانوں پر کئے جانے والے سارے مظالم پر پردہ پڑ جائیگا۔ مسلمان نریندر مودی کو وزیراعظم بننے سے روکنے کی خاطر جہاں جہاں بھی ممکن ہوگا کانگریسی امیدوار کو کامیاب کریں گے نیز جہاں کہیں کسی اور کی جھولی میں اپنا ووٹ ڈالیں گے وہ انتخاب کے بعد کانگریس یا بی جے پی سے جاملے گا گویا مسلمانوں کا ووٹ بلواسطہ یا بلاواسطہ بڑی حدتک کانگریس یا خدانخواستہ بی جے پی کی کشکول میں چلا جائیگا۔

نتیش کمارکے الگ ہوتے ہی تیسرا محاذپھر سےزندہ ہو گیا ہے۔ لیکن اس بار ایسا نہیں ہے کہ سارے سارے غیر کانگریسی و غیر بھاجپائی جماعتیں ایک ساتھ ہو سکیں گی اس لئے کہ اس تیسرے محاذ میں بھی ایک سے زیادہ متحارب دعویدار ہیں۔مثلاًتمل ناڈو میں ڈی ایم کے اور انا ڈی ایم کے،کرناٹک میں دیوے گوڑا اور یدورپاّ،اترپردیش میں ملائم اور مایاوتی، بہار میں لالو اور نتیش، بنگال میں ترنمل اور کمیونسٹ۔اس لئے یا تو ایک چوتھا محاذ وجود میں آجائیگایا ان میں سے کچھ لوگ کانگریس کے ساتھ الحاق کرلیں گے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ چند جماعتیں بی جے پی کے ساتھ خفیہ یا اعلانیہ سانٹھ گانٹھ کرلیں لیکن اس میں شک نہیں کہ نریندر مودی کے آگے آنے سےاور نتیش کمارکے اس کے خلاف میدان میں اترنے سے الیکشن کا بازار خاصہ گرم ہو گیا ہے۔

نریندر مودی گجرات سے نکل کر قومی اکھاڑے میں چھلانگ تو لگا دی ہے لیکن علاقائی اور قومی سطح کی سیاست میں ایک بنیادی فرق ہے۔گجرات کے اندر اس کا براہِ راست مقابلہ کانگریس کے ساتھ ہوا کرتا تھا اور کامیابی و ناکامی کا دارومدار اپنی جماعت پر ہوتا تھا۔ کسی اور کی مدد یا غیروں کو راضی کرکے اپنے ساتھ رکھنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی اس لئے وہ اس کا تجربہ نہیں رکھتا۔قومی سطح پر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بی جے پی آئندہ پچاس سال میں بھی اپنے بل بوتے پر اکثریت ٖحاصل نہ کرسکے گی اور اگر اسے درمیان میں اقتدار نصیب ہو بھی جائے تو دیگر جماعتوں کی بیساکھی پر ہوگا۔ یہی مجبوری مودی کے دھرم گرو اڈوانی کو لے ڈوبی اورفی الحال مودی کے پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہے ۔

آج جس طرح اڈوانی سوچتے ہیں کہ کاش میں بابری مسجد کو شہید کرنے کے بجائے جنتاپارٹی کی طرز پر سیاست کررہا ہوتا تو کانگریس کا متبادل بن کر ملک کا وزیراعظم بن جاتااسی طرح کل مودی سوچے گا کہ کاش میں سابرمتی ایکسپریس کے بہانے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ کو رنگے بغیر ترقی و خوشحالی کی سیاست کرتااور جیسا کہ اس کا دعویٰ ہے ۔ دس سالوں تک گجرات جیسی ریاست کو فرقہ وارانہ فساد سے پاک رکھتا جو حقیقت ہے تو بڑے آرام سے وزارتِ عظمیٰ کا دعویدار بن جاتا۔لیکن بابری کا کلنک اڈوانی کو لے ڈوبا اورگجرات کے فسادات کا لہو مودی کی آستین سے پکار پکار کر کہہ رہاہے ؎۔
اسی لہو میں تمھارا سفینہ ڈوبے گا
یہ قتل عام نہیں، تم نے خودکشی کی ہے

ہندوستان کی سیاست میں مشیت ایزدی نہایت دلچسپ انداز میں کارفرما نظرآتی ہے۔ مختلف نظریات کے حامل رہنما پنڈت جواہرلال نہرو اور اندرا گاندھی کی مثال لیں یا اٹل بہاری واجپائی اور لال کرشن اڈوانی کی کو سامنے رکھیں اسی طرح وی پی سنگھ اور جارج فرناڈیس کو دیکھیں ہر جگہ ایک خاص مشابہت دکھلائی دیتی ہے۔ نہرو ،واجپائی اور سنگھ نے میانہ روی اختیار کی اور اپنے اصول ونظریات سے کبھی انحراف نہیں کیا۔ تینوں اقتدار سے سرفرازبھی ہوئے اور احترام کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچے۔ اس کے برعکس اندرا،اڈوانی اور فرنانڈیس نے اپنے نظریات کو بالائے طاق رکھ کر انتہا پسندی کی راہ اختیار کی۔اندراجی نے غریبی ہٹاؤ کا نعرہ لگانے کے بعدایمرجنسی نافذ کردی، اڈوانی جی نے رام رتھ یاترا نکالنے کے بعد قائداعظم کی تعریف کردی اور فرنانڈیس نے اول تو دوہری رکنیت کی بنیاد پر جنتا پارٹی کی حکومت گرائی اور پھر بی جے پی سے مصالحت کرلی۔ اقتدارحاصل کرنے کے اس جنون نے ان تینوں کورسواکن انجام سے دوچار کیا۔نریندرمودی اورنتیش کماراسی تباہ کن راہ پر گامزن ہیں اور ان پربھی ایک نہ ایک دن ڈاکٹر انور سدید کا یہ شعر صادق آکر رہے گا ؎
جو کل تک اڑ رہا تھا آسمانوں کی بلندی پر
زمیں پر چل رہا ہے آج وہ آہستہ آہستہ
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449183 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.