سرکاری ادارے حکومتی اخلاق کے ترجمان ہوتے ہیں۔ جہاں پر
حکمران غیرت مند، جمہوری اور مہذب ہوتے ہیں وہاں کے حکومتی کارندے اپنے آپ
کو عوام کا خادم تصور کرتے ہیں۔ وہاں کے سرکاری عمائدین کو یہ یقین ہوتا ہے
کہ ملت کی خدمت میں ہی عظمت ہے، لیکن جہاں پر حکمرانوں کی لگام استعمار کے
ہاتھوں میں ہو وہاں بدحالی ختم نہیں ہوسکتی اور وہاں کے سرکاری ادارے اپنی
قوم کا احترام نہیں کیا کرتے۔ آج سے صرف 34 سال پہلے ہمارے ہمسائے ملک
ایران کی حکومتی لگام امریکہ اور یورپ کے ہاتھ میں تھی۔ ایرانی حکومت داخلی
استعمار کا کردار ادا کر رہی تھی۔ چنانچہ ایران مسلسل تیل بیچ رہا تھا اور
زرہ پوش گاڑیاں، ٹرک، اینٹی ایئر کرافٹ توپیں اور بھاری اسلحہ خرید رہا تھا،
یہاں تک کہ 1976ء سے 1977ء کے دوران امریکہ سے اسلحے کی خریداری کا بل چار
ارب ڈالر سے بڑھ کر بارہ ارب سے بھی زیادہ ہوگیا تھا، ملک میں ہر روز نت
نئے جشن اور میلے منعقد کئے جاتے تھے، مثلاً 26 اکتوبر کو شاہ کی سالگرہ،
26 جنوری کو سفید انقلاب کی سالگرہ ، 6 دسمبر کو آزادی خواتین کی سالگرہ۔
اس کے علاوہ جشن تاجپوشی، شہنشاہیت کا 25 سو سالہ جشن وغیرہ وغیرہ۔۔۔ صرف
شہنشاہیت کے 25 سو سالہ جشن کے اخراجات کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اسے
دنیا کی عظیم ترین نمائش کہا گیا تھا۔ امریکی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے
لئے ضروری تھا کہ فوج اور خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات میں لمحہ بہ لمحہ
اضافہ ہوتا چلا جائے۔ ایجنسیوں اور فوج کے کارندے اپنے وسیع اختیارات کے
باعث کسی کو سر اٹھانے کی مہلت نہیں دیتے تھے، جو کوئی بھی شاہ پر یا شاہ
کی پالیسیوں پر تنقید کرتا تھا، اسے ملک دشمن، غدار اور خائن قرار دے دیا
جاتا تھا۔ چنانچہ جیلیں قیدیوں سے چھلک رہی تھیں، ٹارچر سیل خون اور ہڈیوں
سے لتھڑ گئے تھے، جوانوں کی ایک بڑی تعداد خفیہ ایجنسیوں نے اغواء کر رکھی
تھی۔
1978ء تک ملکی معیشت کا یہ حال ہوگیا تھا کہ شاہ اور اس کی بیوروکریسی
پرائیویٹ بنکوں کے 50 فی صد حصص کی مالک تھی، ایران کی غیر ملکی تجارت صرف
60 افراد کے ہاتھ میں آگئی تھی، کمپنیوں کے زیادہ تر شئیرز صرف 50 خاندانوں
کے پاس تھے، ہرروز شاہی خاندان کے افراد، شاہی محل کے ملازمین اور کارندوں
کے لئے جنیوا میں سویس بینک کے اکاونٹ نمبر 214895-20 میں پہلوی فاونڈیشن
کے اکاونٹ میں کئی ملین ڈالر ڈالے جاتے تھے۔ دن بدن ایرانی یونیورسٹیاں بے
روزگاروں کو جنم دے رہی تھیں، ملک کے طول و عرض میں غیر ملکی سرمایہ کاری
خصوصاً امریکی سرمایہ کاری کا جال بچھا ہوا تھا جبکہ ایرانی نوجوان اپنے ہی
ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں ٹھوکریں کھاتے پھر رہے تھے۔
ایران کی یہ نام نہاد ترقی اس حد تک پہنچ گئی تھی کہ ایران جو کبھی گہیوں
برآمد کرتا تھا، اس نے گہیوں بھی درآمد کرنی شروع کر دی تھی۔۔۔ اور ۔۔۔پھر
وہ دن بھی آپہنچا کہ ایران کے جوان استعماری حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے
اور جب جوان اٹھ کھڑے ہوئے تو پھر وہ دن بھی آیا کہ جب ایران پر مسلط
استعمار حرفِ غلط کی طرح مٹ گیا اور بدحال ایران ایک خوشحال اور غیرت مند
اسلامی جمہوریہ میں تبدیل ہوگیا۔ کسی بھی ملت کی طاقت اس کے جوانوں میں
ہوتی ہے، اگر کسی ملت کے جوانوں کو کچل دیا جائے تو وہ پوری ملت کچلی جاتی
ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک کے وہ نیک، متقی اور صالح جوان جو گھروں
سے علمِ دین حاصل کرنے اور معاشرے کو اخلاقِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سے آراستہ کرنے نکلے تھے، انہیں مُصلح کے بجائے دہشت گرد بنا دیا گیا، ان
سے خودکش دھماکے کروائے گئے اور ان کے ہاتھوں بےگناہ انسانوں کا قتلِ عام
کروایا گیا اور انہیں طالبان اور القاعدہ کے نام سے مشہور کروایا گیا۔ اسی
طرح بعض جوانوں کو شیعہ و سنی، پنجابی و بلوچ اور مقامی و مہاجر کے نام پر
یا تو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور یا پھر زندانوں کے اندھیروں میں
دھکیل دیا جاتا ہے۔
اس طرح وہ جوان جنہوں نے اس ملک کی تقدیر سنوارنی تھی اور حقیقی معنوں میں
اسلام اور پاکستان کی خدمت کرنی تھی اور جہالت، تعصب نیز کفر و شرک کے خلاف
جہاد کا پرچم بلند کرنا تھا انہیں غنڈوں، قاتلوں، دہشت گردوں اور وحشیوں
میں تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ شواہد اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں کہ ہمارے
جوانوں کو راہِ راست سے اتارنے کے لئے ہمارے سرکاری ادارے منصوبہ بندی کرتے
ہیں، پھر یہ جوان ابو غریب اور گوانتا موبے جیسی بدترین جیلوں میں خوفناک
تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور بعض کے گرم لہو کو پاکستان، افغانستان اور
ہندوستان کی جیلوں میں دیمک چاٹ جاتی ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو درک کرنا چاہیے
کہ یہی جوان ملت اسلامیہ کی طاقت تھے اور یہی جوان اس ملت کی آبرو تھے۔
ہمارے کرپٹ حکمرانوں نے عالمی غنڈوں کے ساتھ ملکر ملت اسلامیہ کے ان جوانوں
کو آگ اور خون کے دریا میں دھکیلا ہوا ہے۔
آج ہر روز اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے ان جوانوں کو استعمال
کیا جاتا ہے۔ کبھی ایک مسلمان جوان دوسرے کا کلیجہ چبا رہا ہوتا ہے، کبھی
ایک مسلمان نوجوان دوسرے مسلمان نوجوان کے ہاتھ پاوں باندھ کر اسے جانوروں
کی طرح ذبح کر رہا ہوتا ہے اور کبھی ایک ملک کے مسلمان جوان دوسرے اسلامی
ملک میں بدامنی اور قتل و غارت پھیلانے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ
دو وجوہات کی بناء پر کیا جا رہا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ گذشتہ کئی سالوں
سے استعماری طاقتیں مسلم دنیا کے معدنی وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی
ہیں۔ استعمار کو مسلمان جوانوں سے شدید خطرہ لاحق ہے، اسلام دشمن قوتیں
بخوبی یہ جانتی ہیں کہ جس روز مسلمان جوان اپنی جغرافیائی اور نظریاتی
سرحدوں کی حفاظت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے وہ مسلمانوں پر استعمار کے تسلط کا
آخری دن ہوگا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ بیرونی استعمار کی مانند ہمارے ملک کا اندرونی استعماری
طبقہ جو حکمرانوں کی شکل میں ہمارے ملک کو لوٹ لوٹ کر کھا رہا ہے، وہ بھی
نہیں چاہتا کہ ہماری ملت کے جوان اپنے ملک سے محبت کریں اور اپنے ملک کی
خدمت کریں۔ اس طبقے کی بھی پوری کوشش یہ ہے کہ لوڈشیڈنگ مہنگائی، لوٹ مار،
رشوت، سفارش اور کرپشن کو اتنا عام کیا جائے کہ لوگ پاکستان سے نفرت کریں،
جوان پاکستان چھوڑ کر بھاگ جائیں اور جو ایک مرتبہ ملک سے چلا جائے وہ واپس
لوٹنے کی سوچے بھی نہیں۔
چنانچہ ہمارے حکمران چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں وہ اپنے حکومتی اداروں کے
ذریعے ملک میں خوف و ہراس پھیلانے کی نئی نئی ترکیبیں استعمال کرتے رہتے
ہیں۔ ایک طرف تو مہنگائی، لوڈشیڈنگ، بے روزگاری اور لاقانونیت کا طوفان ہے
اور دوسری طرف کبھی نہتے مسافروں کو گاڑیوں سے اتار کر موت کے گھاٹ اتارا
جاتا ہے، کبھی فوجی جوانوں کے گلے کاٹے جاتے ہیں، کبھی سکول جانے والی
بچیوں کی بس کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور کبھی قائداعظم کی
ریذیڈنسی کی اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی ہے۔ اگر ہم ان ساری کارروائیوں کا
بغور جائزہ لیں تو ان کا نتیجہ صرف اور صرف یہی ہے کہ پاکستانی قوم کو اتنا
مجبور کیا جائے کہ لوگ خود پاکستان سے نفرت کرنے لگیں اور جوان یا تو مارے
جائیں یا جیلوں میں محبوس ہوجائیں یا دہشت گرد بن جائیں اور یا پھر پاکستان
ترک کرنے پر مجبور ہوجائیں۔ یہ سب کچھ حکومتی یعنی داخلی استعمار کی ایماء
پر ہو رہا ہے۔
ظاہر ہے جس ملک کے جوان اور طالب علم یا تو بے روزگار رہیں یا پھر دہشت گرد
بن جائیں اور یا تو مارے جائیں اور یا پھر اپنے ملک سے بھاگنے پر مجبور
ہوجائیں وہ ملک کیسے خوشحال ہوسکتا ہے۔
اس ملک کو زرداریوں، نوابوں اور شریفوں کے قبضے میں رکھنے کے لئے ضروری ہے
کہ اس کے جوانوں کو تختہ مشق بنایا جائے۔ ملک کے اندر داخلی استعمار نے
لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور ملک سے باہر جانے والے پاکستانیوں کو
پاکستانیوں سے متنفر کرنے کے لئے ایمبیسیوں میں جان بوجھ کر نکھٹو اور
پھوہڑ افراد کو بھرتی کیا گیا ہے۔ خصوصاً تہران میں قائم پاکستان ایمبیسی
کا آنکھوں دیکھا حال چند روز پہلے ہم لکھ چکے ہیں۔ ہمارے ہاں کے داخلی
استعمار کی یہ کوشش ہے کہ لوگ ایمبیسیوں اور نادرا کے دفتروں میں ہی اتنے
دھکے کھائیں کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی کی فکر ہی ان کے دماغوں سے نکل
جائے۔
پاکستانی ملت کو پاکستان سے متنفر کرنے کے لئے ہمارے ہاں کا داخلی استعمار،
بیرونی استعمار کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ یہ دونوں کا مشترکہ ایجنڈا
ہے کہ لوگ پاکستان سے نفرت کریں، تاکہ پاکستان اسی طرح استعمار کے ہاتھوں
میں کھلونا بنا رہے۔ آپ خود سوچیں کہ اگر خود ہمارے سرکاری ادارے نہ چاہیں
تو دہشت گردوں کی کیا مجال ہے کہ وہ ملک کے اندر ایک انچ بھی حرکت کرسکیں
اور اسی طرح اگر ہمارے حکمران نہ چاہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ آج کے دور
میں بھی ایمبیسیوں میں ان پڑھ اور ناہل اسٹاف رکھا جائے۔ ہمارے حکمران اپنے
بیرونی آقاوں کے حکم پر خود ہی دہشت گردی کے کیمپ قائم کرتے ہیں اور پھر
خود ہی دہشت گردوں سے مذاکرات کے ڈرامے رچاتے ہیں۔
اس وقت پاکستان کی مشکلات کا واحد اور عملی حل یہی ہے کہ پاکستانی نوجوانوں
کو فرقہ واریت، برادری، نام نہاد سیاسی و لسانی پارٹیوں اور علاقائیت کے
چنگل سے نکال کر متحد کیا جائے، انہیں استعمار کے خلاف حقیقی شعور دیا جائے
اور انہیں پاکستان سے استعمار کے خاتمے اور اخراج کے لئے علمی و سیاسی طور
پر متحرک کیا جائے۔ استعمار ہمیں قدم قدم پر ذلیل کر رہا ہے، یہ اب ہماری
ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو استعمار شناس بنائیں اور انہیں
استعمار کی چالوں سے آگاہ کریں۔ ایک خوشحال، باوقار اور مستقل پاکستان
بیدار مغز جوانوں کے ہاتھوں سے ہی قائم ہوسکتا ہے۔ |