کابل سے انخلا

افلاطون نے کہا تھا کہcapitalism روئے ارض کا غیر منصفانہ نظام ہے اور دنیا کے تمام گھمبیر ترین مسائل سرمایاداریت کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔افلاطون نے ہی کہا تھا کہ یہی طبقاتی نظام ہی اصل برائی کی جڑ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ انسانیت سوز نظام ہے۔کیپیٹلزم کے سرپنچ کائنات کی ساری دولت جو تیل و گیس کی شکل میں ہو یا سونے کے روپ میں کو ہڑپ کرنے کی خاطر لاکھوں انسانوں کو جنگوں کا ایندھن بنانے سے گریز نہیں کرتے۔ امریکہ اسرائیل اور اتحادی یورپی ملک سرمایاداریت کے بہی خواہ ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے خدائی وسائل اور خطیر معدنیات ائل اینڈ گیس کو ہڑپ کرنے مڈل ایسٹ میں اسرائیلی حکمرانی کے خواب کو پورا کرنے کی ہوس میں 10 سال پہلے دہشت گردی کے خود ساختہ الزام کی طومار کا سہارا لیکر خطہ افغان پر قبضہ کرلیا تو دوسری طرف یہود یت کی خوشنودی کے لئے عراق کو تہس نہس کردیا۔ امریکہ نے مشرق وسطی میں اسرائیل کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے کہ وہ عربوں اور فلسطینیوں کے ساتھ جو چاہیں سفاکانہ اور وحشیانہ سلوک کرتے رہیں۔ اوبامہ نے ایک طرف افغانستان سے2014 تک امریکی فورسز کے انخلا کی نوید سنا رکھی ہے تو دوسری طرف امریکی منتری نے حال ہی میں دورہ اسرائیل میں یہودیوں پر گلہائے عقیدت و محبت نچھاور کرتے ہوئے عزم کیا کہ اسرائیل اور امریکہ کا دائمی تعلق تا ابد جاری رہے گا۔ امریکہ کے ایڈم برائن اپنے مقالے> اسرائیل امریکہ کے مشترکہ مفادات< میں رقمطراز ہے کہ تل ابیب کی زمین پر قدم رکھتے ہی اوبامہ نے اسرائیل کی سلامتی امریکہ کے سونپ دی ۔ انخلا کی اصل حقیقت سمجھنے کے لئے محولہ بالہ متن پر سرسری نگاہ ڈالنا ضروری تھا۔ عالمی میڈیا میں یہ خبریں تواتر کے ساتھ چھپ رہی ہیں کہ نظر اتا ہے7 اکتوبر2001 میں شروع ہونے والی افغان جنگ کا خاتمہ ہونے جارہا ہے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کی روشنی میں ایک نقطہ نوشتہ دیوار ہے کہ انخلا افغان تنازعے کا حل ایجاد نہیں کرسکتا۔ انخلائی شوشے پر فش فش ٹائیں ٹائیں کرنے والے دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں کو شائد یہ پتہ نہیں کہ افغان جنگ انخلا کے بعد نئے دور میں داخل ہورہی ہے۔ پاکستان میں نئی حکومت معرض وجود میں اچکی ہے۔ نواز برادران اور طالبان کے درمیان خصوصی تعلق کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔یہ بھی سچ ہے طالبان نئی سرکار اور ن لیگ کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔2001 میں امریکی حملے کے بعد طالبان پلاننگ کے تحت تتربتر ہوگئے مگر اب وہ زیادہ مظبوط توانا اورنئی حربی حکمت عملی سے لیس ہوچکے ہیں۔ طالبان کا سیاسی روپ سامنے اچکا ہے۔ طالبان کے سیاسی ونگ کا قطر میں باقاعدہ دفتر قائم ہوچکا ہے جہاں کرزئی سرکار کے سیاسی مشیروں کے ساتھ روابط اور بات چیت کا عمل شروع ہے۔ قطر میں طالبان کے مذاکرات کاروں اور امریکی سفارت کاروں کے خفیہ ڈائیلاگ کا سربستہ راز ہر کسی پر منکشف ہو چکا۔طالبان کا ایک اور سنجیدہ اور مظبوط رویہ سامنے اچکا ہے کہ وہ مذاکرات کی میز پر کبھی بھی اپنے روائتی موقف سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں جو کسی فریق کو DEMORALIZE کرنے کی امریکی پالیسی کا اہم جزو ہے ۔امریکہ یہی پالیسی یاسر عرفات پر لاگو کرچکا ہے۔امریکی بازیگر مذاکرات کے نام پر اتنی کنفیوژن پیدا کردیتے ہیں کہ اصل ایشو سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ یاسر عرفات کے ساتھ یہی پالیسی نتھی کی گئی تھی کہ وہ دنیا سے جا چکے مگر مسئلہ فلسطین اج تک سلگ رہا ہے۔ شاعر نے خوب کہا تھا نہ خدا ملا اور نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ ٹیگور نے کہا تھا دنیا کی ساری فوجی طاقتیں مل کر بھی ارض وطن کی ازادی کی تڑپ کو ختم نہیں کرسکتیں۔ طالبان امریکی دوام میں پھنسنے والے نہیں۔ جوں جوں انخلا کی تاریخ نزدیک تر ہوتی جارہی ہے تو افغانستان میں قابض افواج پر طالبان کے حملوں کی شدت و تعداد روز افزوں ہے۔ انخلا کی خبروں پر یار لوگوں کو شادیانے بجانے سے پرہیز کرنا ہوگا۔ امریکی معاصر اخبار کی خبر مطابق امریکہ کابل میںاپنی63 ہزار فوج کو 75 ٪کم کررہا ہے۔طالبان نے ناٹو کے جنگی دھنون کو ایسی زک پہنچائی ہے کہ پینٹاگون کو نیو افغان پالیسی کا انتظام کرنا پڑا۔ امریکی فوجیوں کو میدان جنگ میں بھیجنے کی بجائے افغان ارمی کو اگے کیا جائے گا۔ افغان ریگولر ارمی وجود میں اچکی ہے جسکی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔یہ پلاننگ امریکیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کو کم کرنے کی اکسیر دوا ہے۔ راقم الحروف کے عقل کے صفحہ قرطاس پر جو نتیجہ نازل ہواکہ امریکہ کی25 فیصد فورس افغانستان میں موجود رہے گی اور افغان ریگولر فورسز کا ساتھ دیں گی۔ امریکہ اپنا قبضہ ختم نہیں کررہا۔افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف ڈرون حملوں کا سلسلہ تواتر کے ساتھ جاری رہے گا۔امریکہ خطہ افغان کی سرزمین سے سٹریٹیجک تسلط ختم کرنے کا تصور تک نہیں کرسکتا۔پاکستان کو انخلا کے بعد مشکلات پیش اسکتی ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد طالبان کو امریکی فوج پر کھل کر حملہ کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔افغان طالبان کو فاٹا کے راستے قبائلی سہولیات اسلحہ خوراک کی رسد مہیا کریں گے۔رد عمل میں اوبامہ ن لیگ کے ساتھ کیا طرز عمل روا رکھے گا اسکی پیشین گوئی کرنا محال تو ہے مگر عالمی قاتلوں سے خیر کی توقع کرنا دیوانے کی بڑ اور رنگین خواب دیکھنے کے مترادف ہوگا۔ ارباب اختیار کو زہن نشین کرلینا ہوگا کہ خدشات اور خطرات ہمارے ساتھ ساتھ ہونگے۔نواز شریف کے متعلق یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ وہ تخت کابل پرطالبان کو بٹھادیں گے تاہم کوئی پاکستانی شہری یہ نہیں چاہتا کہ کابل کی جنگ خانہ جنگی میں بدل جائے اور ناٹو کے انخلا کے بعد کابل میں جہادی گروہ ایک دوسرے کا خون بہائیں ۔پاکستان کابل میں کمزور حکومت نہیں چاہتا جو نہ تو باغیوں کی سرکوبی کرسکے اور نہ خود سنبھل سکے۔ اسلام اباد کابل میں ہر ا س حکومت کو برداشت کر سکتا ہے جو پاکستان کے لئے خطرہ نہ بنے۔ ورنہ پاکستانیوں کو ملا عمر دور کے انصاف امن و امان کا مثالی دور نہیں بھولا۔ طالبان دور میں پاکستان کی قبائلی سرحدیں خطرات سے محفوظ ہوگئیں۔ہر دور میں پاکستان کی طرف سے کوشش کی گئی ہے کہ ہمسائے ملک میں امن و امان کا دور دورہ ہو۔خطہ افغان میں خانہ جنگی شروع نہ ہو۔پاکستان قطر میں طالبان کے سفارتی دفتر اور دونوں فریقوں کرزئی اور طالبان کے مذاکرات کا حامی ہے۔پاکستانی ایجنسی isiحکومتی نمائندگان اور افغان طالبان کے ساتھ اج بھی برادرانہ روابط قائم ہیں۔ افغان طالبان کے مفسرین تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور خود کش حملوں کو ناجائز قرار دیکر پاکستان کے ساتھ حق دوستی ادا کررہے ہیں۔ ایک اور مثالی کردار داد تحسین کا حق دار ہے جس نے افغانستان میں تحریک طالبان کے اڈوں کو بموں سے اڑانے کا فتوی جاری کردیا ہے۔امریکہ افغان طالبان اور پاکستان کے روابط پرتشویش میں ڈوبا ہوا ہے حالانکہ امریکہ افغان قیادت طالبان اورکرزئی حکومت کے مذاکرات کو براہ راست ڈیل کررہا ہے۔پاکستان میں دہشت گردی کے نام پر ہونیوالی قتل و غارت کو روکنے ، کابل میں خانہ جنگی کی سلگتی ہوئی چنگاریوں کو بجھانے اور فاٹا میں ڈرون حملوں کی بندش کی خاطر نواز حکومت کو سپرپاور کے سامنے ڈٹ جانا چاہیے۔ اگر افغانستان میں ملاعمر کے قلیل جانثار سرفروش دور حاظرہ کی امیر ترین یورپی ریاستوں nitto کی مشترکہ ہیبت ناک فوجی قوت کو لوہے کے چنے چبوا سکتی ہے تو پھر کیوں ایٹمی طاقت رکھنے والی اسلامی ریاست کے حکمران عسکری زعما اور جرنیل ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کی خاطر ملا عمر کی پیروی کی رھبری کرنے سے قاصر ہیں۔
 
Rauf Amir
About the Author: Rauf Amir Read More Articles by Rauf Amir: 34 Articles with 27817 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.