اپنے ہی دوستو ں نے مجھے قتل کر دیا یا رو
ں پہ اعتما د میں ما را گیا ہو ں میں
ڈا ئر یکٹریٹ جنرل تعلقا ت عامہ(ڈی جی پی آر) ایک فقیدالمثال اور عظیم
الشان محکمہ جس کی وفا شعاری اور وابستگی کا کیا کہنا ہے وطن عزیز کے تین
اہم ترین ستو نو ں کے ما بین ربط اور تعلق کا واسطہ بنتا ہے یہ پنجا ب گو
رنمنٹ کا ایک آزاد لیکن نیم خو د مختار ادارہ ہے جس کی اہمیت و حثیت کا
اندازہ اس امر سے بخوبی لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ میڈیا کے تو صل سے حکومت
اور عوام میں را بطے کا ایک منظم ،مو ئثراور مر بوط زریعہ ہے ۔ یہ وا حد
محکمہ ہے جو حکومت کی حقیقی پہچان ، شنا خت اور اعلیٰ کا ر کردگی کا مظہر
ہے ۔ تمام سرکا ری نقل و حرکت اور کا ر کردگی رپو رٹس اسی ادارے کے زریعہ
سے منظر عام پر لا ئی جا تی ہیں و زیر اعلیٰ ، وزراء ، مشیران ، ایم این اے
، ایم پی اے حضرات سمیت بیو رو کریسی اور تمام تر سرکاری آفیسران اور عملہ
کی میڈیا کو ریج کی ذمہ دا ری ڈی جی پی آر کے زریعہ سے ہو تی ہے قصہ مختصر
کے عوام اور حکومت کے مابین خو شگوار ، پر امید اور بہترین ما حول پیدا کر
نا ڈی جی پی آر کی اہم ذمہ دا ری میں شامل ہے اگر یہ ادارہ مو جود نہ ہو تو
شاید حکومت کی کا رکردگی اور کا میا بی منظر عام پر آنے سے ہی قا صر رہے ۔
ڈسٹرکٹ اور ڈویثرن میں موجود ڈی جی پی آر آفیسز میں بجٹ نہ ہو نے کے برابر
ہے کسی بھی وی آئی پی شخصیت کی کو ریج کے حوالہ سے نقل و حرکت کے لیے گا ڑی
میسر نہیں ہو تی اکثر و اوقات پیٹرول ختم ہو نے اور گا ڑی کی خرابی کے
مسائل آڑے آجا تے ہیں انفا رمیشن آفیسران کو ادھا ر گا ڑیا ں ما نگ کر
گزارا کر نا پڑتا ہے جو ان کے منصب اور مر تبہ کے شیا ن شان نہیں ہے ری
پئیر نگ کے لیے پیسے موجود نہیں ہو تے اور محکمہ کو سمری کی صورت میں اپنی
گزارشات بھیجی جا تی ہیں جو طویل عرصہ تک عملدرآمد کا انتظار کر تی رہتی
ہیں ۔ محکمہ ڈی جی پی آر سے وا بستہ انفا رمیشن آفیسران کو کنگ میکر کہا جا
ئے تو غلط نہ ہو گا وزراء کی گڈ ویل اور بہتر کا ر کردگی کا جیتا جا گتا
ثبوت یہی محکمہ بنتا ہے ما ضی کے جھر ونکو ں میں جھا نک کر دیکھا جا ئے تو
پتا چلے گا کہ موجود ہ وزیر اعظم اسلامی جمہو ریہ پا کستان میا ں محمد نواز
شریف کا وزیر اعلیٰ سے وزیر اعظم تک کا سفر اسی ادارہ کے مر ہون منت تھا ۔
سرکا ری کا ر کر دگی اور رپو رٹس کی تیا ری میں یہ لو گ اپنا خو ن پسینہ
بہا تے ہیں 37 اضلا ع میں سے 32 اضلا ع میں ڈی جی پی آر کے آفیسز کر ایہ کی
بلڈنگ میں وا قع ہیں جن کی حا لت زار دیکھ کر تر س آتا ہے زلزلہ متا ثرین
اور سیلا ب زدگا ن کی یا د وہا ں جا کر تا زہ ہو جا تی ہے وہ ادارہ جو سرکا
ری مشینری اور وی آئی پی نقل و حرکت کے لیے ہمہ وقت تیا ر رہتا ہے اسے بنیا
دی سہولیا ت سے با لکل محروم رکھا گیا ہے انفا رمیشن آفیسران کے لیے رہا
ئشی کا لو نیو ں کا کوئی منا سب بند و بست نہ ہے ، دو ر دراز سے آئے ہو ئے
عملہ کے افراد کے لیے کھا نے پینے ، رہا ئش اور زرائع آمد و رفت کی بے حد
پر ابلم ہے دنیا بھر میں میڈیا فا سٹ سے فا سٹ تر ہو تا چلا جا رہا ہے لیکن
ہما رے انفا رمیشن آفیسز ابھی تک کچھوے کی چا ل چل رہے ہیں 20 سے 30 سال پر
انا فرنیچر استعمال کیا جا رہا ہے، کمپیو ٹر سسٹم چل چل کر گھس چکے ہیں
لیکن تا حال انہیں اپ گر یٹ نہیں کیا جا سکا ہے مو جو دہ وزیر اعلیٰ جن کے
قصیدے آئے روز ڈی جی پی آر کے زریعہ سے پڑھے جا تے ہیں انقلا بی پر وگرامز
کے دعویدار ہیں لیکن ان کے زیر اثر اس اہم شعبہ کو دا نستہ طو ر پر نظر
انداز کیے جا نے کی کیا وجو ہا ت ہیں؟ انفا رمیشن آفیسران کے ساتھ امتیا زی
سلوک کس با ت کی غما زی کرتا ہے ؟سا بقہ پا نچ سالہ دور میں بھی خا دم اعلیٰ
نے صو با ئی انفا رمشین منسٹری سمیت کئی وزارتیں اپنے پا س رکھیں اور آئندہ
بھی کچھ ایسا ہی دکھائی دیتا ہے جس وجہ سے وہ کچھ وزارتو ں پر اپنی تو جہ
مرکوز کر نے سے قا صر دکھائی دیے ہیں جو ان اداروں کی کا رکردگی کو خاصی حد
تک متا ثر کر تی رہی ہے ۔ کیو نکہ چراغ تلے ہمیشہ اند ھیرا ہی ہو تا ہے ملک
بھر میں طلباء و طا لبا ت کا ووٹ بنک بڑھا نے کے لیے اور انہیں اپنی طرف
مائل کر نے کے لیے لیپ ٹا پ تو تقسیم کر دیے گئے ہیں لیکن ڈی جی پی آر کا
عملہ اس سے مکمل طو ر پر محروم رہا ہے جس کی یہ اشد ضرورت ہے ۔ وزیر اعلیٰ
کی اس شعبہ سے عدم دلچسپی اور انہیں اپنے ذاتی زر خرید غلا م سمجھتے ہو ئے
انکی خدما ت سے فا ئدہ اٹھا تے رہنا سراسر نا انصا فی ہے نگران سیٹ اپ میں
وزیر اعلیٰ کی خدما ت پیش کر نے والے میڈیا مین نجم سیٹھی پر صد افسوس کے
جنہو ں نے ایک متعلقہ فیلڈ سے وا بستگی ہو نے کے با وجود بھی اس شعبہ کو کو
ئی فا ئدہ نہیں پہنچا یا وہ ٹیلی ویثر ن شوز میں بیٹھ کر تنقید کے پہا ڑ تو
ہر ایک پر گرا تے رہے لیکن عملی سطح پر انکی کا رکردگی زیرو بٹا زیرو ہی
رہی محض ذا تی مفا دات اور پر و ٹو کو ل کو انجوا ئے کیا تا ریک اور نا پید
یا دیں چھو ڑ کر واپس گھر کو چلے گئے ۔ شعیب بن عزیز جو سابقہ ڈی جی پی آر
کے قلیدی عہدیدار کی حثیت سے خدما ت پیش کر چکے ہیں اور حالیہ وزیر اعلیٰ
پنجا ب کے ساتھ نمایا ں خدما ت دے رہے ہیں انہیں چا ہیے کہ کم از کم اپنی
اس ادارے سے وابستگی اور گزارے ہو ئے وقت کو یا د رکھتے ہو ئے اپنے رفقا ء
اور ما تحت کا م کر نے والو ں کا بھلا کر جا ئیں اور جنا ب وزیر اعلیٰ جو
مصروفیت میں اپنی مثال آپ ہیں کی تھو ڑی سی تو جہ اس طرف بھی مبذول کروا
دیں ہو سکتا ہے اس محکمہ کا بھی کچھ نہ کچھ سنور جا ئے با قی سب کا تو اﷲ
ہی حافظ ہے ڈی جی پی آر کے ملا زمین سے 24 گھنٹے کی سروسز بھی لی جا تی ہے
ایمرجنسی کال کی صورت میں بیو رو کریٹ اور حکمرانوں کو لبیک کرتے ہیں لیکن
ان کو مسائل کے اس گرداب میں پھنسایا گیا ہے کہ جس میں ان کی صلا حیتیں اور
محنتیں زنگ آلود ہو کر رہ گئی ہیں ۔ بجلی کی لو ڈ شیڈنگ کے اثرات تو بلا
شبہ ہر محکمہ پر ہی منفی اثرانداد ہو رہے ہیں لیکن یہ شعبہ جو ہمہ وقت سرکا
ری مشینری کی ہر زہ سرائی کے لیے چاک و چو بند دکھائی دیتا ہے ،کو نہ تو یو
پی ایس کی سہولت میسر ہے نہ جنریٹر اور گا ڑیو ں میں پیٹرول ڈلو انے کے لیے
بجٹ نہیں ہو تا لیکن ان تمام مسائل ، مصائب اور مشکلا ت سے مبراء ہو کر پھر
بھی یہ لو گ اپنی ذمہ دا ری پو ری ایما ندا ری اور دیا نتداری سے نبھا تے
ہیں اور اہم سے اہم خبر کسی نہ کسی زریعہ اور معاو نت سے عوام النا س تک
پہنچا نے میں لگے رہتے ہیں الیکٹرا نک اور پر نٹ میڈیا سے جو اس ڈیپا رٹمنٹ
کی وا بستگی اور تعلق ہے اسے نبھا نے کے لیے اس کی آواز بھی اقتدار کے
ایوانو ں تک پہنچا نے میں مدد کر یں اپنی اپنی بساط اور حدود کے مطا بق ،کیو
نکہ یہ با ت ہما رے شعبہ کے ہم سے تقاضو ں میں شامل ہے ۔ اور ہما را فرض
بھی۔ لمحہ فکریہ ہے کہ جو لو گ وزیر اعلیٰ اور اسکی ٹیم کی اچھی کا ر کردگی
اور کا مو ں کوعوام کے سامنے پیش کرتے ہیں انکے لیے مو صوف کی ذاتی کا
رکردگی قابل رحم ہے اس با ت سے مثبت پیغام قوم کو بلا مبا لغہ کیسے پہنچایا
جا سکتا ہے ؟ کیو نکہ جن لو گو ں کی کا وشو ں اور محنتو ں سے ان کی کا
رکردگی منظر عام پر آتی ہے ان کے ساتھ انکا رویہ اورنا روا سلوک ایک سوالیہ
نشان بن کر رہ گیا ہے؟
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیا ست جا نیں
میرا پیغام محبت ہے جہا ں تک پہنچے |