اِنسانی مخلوق کو دیگر مخلوقاتِ خدا وندی کے مقابلے میں
یہ اِمتیاز حاصل ہے کہ خالقِ انسان نے اِسے نطق کی قوت عطا کی جو دیگر
جاندار مخلوقات کو حاصل نہیں۔ واضح رہے کہ یہ ایک ایسی قوت ہے جس میں صرف
بولنا شامل نہیں، بلکہ بولنے کے ساتھ ساتھ بولنے کی یہ قوت ایک ضابطہ کی
حامل ہو،جو کسی قاعدے کی پابندہو، اِس طرح کہ گفتگو، تقریر نظر نہ آئے،
تقریر ہو تو گفتگو کا گمان نہ ہو، کلام،سرگوشی جیسانہ ہو،سرگوشی کلام کی
مثال نہ لگے، کہاوت کی ادائیگی ہو تو مَثَل سے مختلف ، مَثل ہو تو کہاوت سے
کچھ باریک فرق کے ساتھ الگ اور یہ سب کچھ قطع نظر اس امر کے ہو کہ انسان کس
زبان میں بولتا ہے۔
قوتِ نطق جب شعرکالباس پہنتی ہے تو نطق کی اصل عظمتیں اُجاگر ہونے لگتی
ہیں۔کلامِ موزوں ، باوزن اِظہار خیال یا زبانِ شعر سے خیال کی ترسیل ایک
شاعر و فن کار کا اصل امتحان ہوتے ہیں۔ایک با صلاحیت شاعر اپنی خداداد
صلاحیتوں سے اپنی تخلیقیت کو چار چاند لگا دیتا ہے۔اگر باصلاحیت نہ ہو تو
گھسے پٹے تجربے کرنے لگتاہے جس سے دوسروں کو بھی اوربذاتِ خود اُس فنکار کو
بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، جو اِن بے فیض تجربوں کا خطا کار ہوتا
ہے۔سبزانا، اُجالنا، تلاشنا جیسے تجربوں کا دور ا ب بھی گزررہا ہے اور یہ
سلسلہ نہ جانے کس قدر دراز ہونے والا ہے۔ ہم رائج الفاظ کا تقدس پامال کرنے
سے نہیں چوکتے۔ لیکن زندہ قوموں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ موجود الفاظ ہی کو
استعمال کرتے ہوئے محاوروں کی تخلیق اور پھر اِس کے بعد معانی آفرینی کی
ایک دنیا بساتے ہیں۔ کیوں کہ اِن کے ہاں نظریات کےDevelopmentکا سلسلہ
مستقلاً جاری رہتا ہے۔یہاں ڈکشنری آف امریکی انگریزی کا حوالہ فائدے سے
خالی نہ ہوگا:
''...Why is English and especially American English, so heavily
idiomatic? The most probable reason is that as we develop new concepts,
we need new expressions for them, but instead of creating a brand new
word from the sounds of the language, we use some 'already existent
words', and put them together in a new sense. This, however, appears to
be true of all known languages. There are in fact no known languages
that do not have some idioms..."
یعنی’’…… انگریزی زبان اور خاص طور سے امریکی انگریزی کیوں محاوروں سے لدی
ہوتی ہے؟اِس کا بہت زیادہ ممکنہ سبب یہ ہے کہ ہم نو بہ نو نظریات کو فروغ
دیتے رہتے ہیں،جنہیں ایک اِظہار عطا کرنے کی ہمیں ضرورت درپیش ہوتی ہے،
لیکن کوئی نیا لفظ تخلیق کرنے کے بجائے ہم موجود الفاظ ہی کو استعمال کرتے
ہیں اور ان الفاظ کا ایک مجموعہ بناکر انہیں ایک مفہوم فراہم کرتے ہیں۔یہ
صرف انگریزی ہی کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ کسی بھی معلوم زبان میں ایسا
ہوتا ہے۔دنیا میں کوئی زبان ایسی نہیں جس میں محاوروں کا چلن نہ ہو۔‘‘
(The Dictionary of American English: Preface: vi-vii)
اِن جملہ ہائے معترضہ کے بعدہم پھر اپنے اصل موضوع پر آتے ہیں۔اگرچہ شعر
اپنے دروبست، رکھ رکھاؤ، خیال،اُسلوب، قافیہ،ردیف ، وزن، نغمگی و موسیقیت
کے سبب ویسے بھی حسنِ کلام اور تاثیر کلام کااز خود ضامن بنتا ہے، لیکن اِس
سے بھی آگے کی بات یہ ہے کہ جب شعروں میں محاورے اور روز مرہ کا استعمال ہو
تو پھر شعر کی معنویت غضب ناک بن جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں محاورہ،وہ
کلمہ یا کلام ہے جسے اہلِ زبان نے لغوی معنی کی مناسبت یا غیر مناسبت سے
کسی خاص مفہوم کے لیے مخصوص کر لیا ہو، لیکن بات صرف اِتنی نہیں ہے۔دراصل
کسی زبان کے سینے میں محاورہ دل بن دھڑکتا ہے اور اُس زبان کے زندہ ہونے کا
ثبوت دیتا ہے۔ایک قدیم انگریزی لغت کا یہ بامعنی حوالہ بڑا معنی خیز ہے:
"...But it is by injections of colloquial idiom that the body of English
Language is constantly being rejuvenated...".
یعنی’’……لیکن یہ ٹکسالی بولی اور محاوروں کے انجکشن ہی ہیں جو انگریزی زبان
کے جسم میں جان پھونکتے ہیں……‘‘
(Ball 1958:8)
ایک اور جگہ ہے:
"...Idioms are a vital part of the standard language and as such hardly
be avoided...".
یعنی’’……محاورے کسی معیاری زبان کا نا قابلِ فراموش حصہ ہوتے ہیں، چنانچہ
یہ بڑی مشکل سے نظر انداز کیے جاتے ہیں……‘‘
(Wallace 1982:119)
یہ قول بھی بات کو سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے کہ:
''...Phrasal verbs are essential part of every day communication and the
mastery of them promotes effective language use..."
یعنی محاورے روزمرہ کی ترسیلِ خیالات کا لازمی حصہ ہوتے ہیں اور اِن پر
مہارت زبان کے موثر استعمال کوفروغ دیتی ہے۔
(Collins COBUILD Dictionary of Phrasal Verbs)
زبان کو زندگی بخشنے کے سلسلے میں ایک دوسرا پہلویہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے
کہ قومیں اگر زندہ ہوں تو اِن کی زبانیں بھی اپنی زندگی کا ثبوت پیش کرتی
ہیں اور انفعالیت Passivity اور مغلوبیت کی شکار قوموں کی زبان بولنے اور
برتنے والے ببانگِ دہل اعلان کرتے رہتے ہیں کہ وہ مغلوبیت کی شکار قوموں کی
زبان بولتے ہیں۔اِن کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ یہ اپنی سوچ کے کینواس کو
سکیڑنے میں مصروف رہتے ہیں اور سمجھ یہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی زبان کو
عظمت بخش رہے ہیں۔یہ سب غیر شعوری طور پر ہوتا رہتا ہے۔
اُردوزبان کا حال بھی اِس سے کچھ مختلف نہیں۔اِس کی جو بھی صورتحال ہے
ہمارے باشعور اہلِ قلم سے پوشیدہ نہیں۔اِس کی کسمپرسی کا ثبوت یہ ہے کہ یہ
ایک مغلوب قوم کی زبان ہے اور یورپی اقوام جن میں ہم ،اپنی بات کو مکمل
کرنے کی حدتک یونی پولار سُپر پاور امریکی قوم کوبھی شامل کر سکتے ہیں،آج
اپنی تہذیب اور فلسفے کے ساتھ ذہناًبھی اور عملاً بھی ساری دنیا پر غالب
ہیں۔اِس صورتحال سے اِس حقیقت کا اِستدلال بے محلIrrelevantنہیں ہوگا کہ یا
تو غالب قومیں اپنی زبان کو شعوری یا غیر شعوری طور پر غالب کردیتی ہیں یا
اِن کی زندہ زبانیں ان اقوام کو غلبے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔چاہے جو کچھ
بھی ہوہمارے قلم کاروں کوسوچنا چاہیے کہ ہم زبان کی خدمت کسی ضابطے کے
پابند ہو کر کر رہے ہیں یا کہیں ایسا تونہیں کہ ہماری یہ ’’خدمت‘‘بے رہ روی
کا شکار ہے اور پھر بھی ہمیں یہ دعوی ٔ خام ہے کہ ہم خادمِ زبان ہیں۔
آمدم بر سرِ مطلب ،زبان کے اصل مرکز سے دور رہنے والے اہلِ قلم کا مسئلہ یہ
ہے کہ اِنہیں زیادہ تر اپنے ذاتی مطالعہ اور اپنی محنت کے بل پر زبان کے
مزاج شناس بنتے کی کوشش کرنی پڑتی ہے، اہلِ زبان کی مرتب کردہ فرہنگوں کو
بار بار ریفر کرنا پڑتا ہے جس کے بغیر زبان دانی کے سلسلے میں پیش رفت ممکن
نہں پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ اِ ن کی محنت سو فی صد بارآورثابت ہوجائے۔
لیکن زبان کے مراکز کے پروردہ شاعروں، ادیبوں، قلمکاروں ،فنکاروں کو
یہAdvantageحاصل ہے کہ اُنہیں ٹکسالی بولی کی نسلاًدر نسلٍ قربت حاصل ہوتی
ہے جس کے غماز اُن کے فن پارے ہوتے ہیں۔
اِس تناظر میں یہ کہتے ہوئے ہمیں بڑی خوشی ہوتی ہے کہ دانش کدۂ قمر رئیس کے
فیض یافتہ دہلی کے نامور شاعر جناب عادل رشید ایسے ہی خوش نصیبوں میں شمار
ہوتے ہیں جنہوں نے مذکورہ مکروہات کے درمیان ایک مفید، قابلِ تقلیداور
منفردتجربہ کی بنا ڈالی ہے جو بظاہرنیا نہ ہو نے کے باوجود نیا ہے جسے
انہوں نے محاورہ غزل کا نام دیا ہے۔جب ہم نیانہ ہونے کی بات کہتے ہیں تو
اِس کا مطلب یہ ہے کہ شعراء اپنے شعروں میں برمحل محاوروں کا استعمال کرتے
رہے ہیں۔لیکن ایک مقصد کے تحت پوری کی پوری غزل کو محاروں سے مزین کرنا نہ
صرف موصوف کی فنکارانہ مہارت کی غمازی کرتا ہے بلکہ یہ ایک ایسا تجربہ ہے
جو فی الواقع نیا بھی ہے اور اُن بے سود تجربوں کے مقابلے میں بسا غنیمت
بھی کہ جو بعض ناعاقبت اندیش قلم کار ضابطوں اور قواعد سے بے نیاز ہو کر
انجام دے رہے ہیں۔ قوی اُمید ہے کہ اِن کی یہ کاوشِ احسن اُردو زبان کے حق
میں فال نیک ثابت ہوگی۔لیجیے اُن کی محاورہ غزلوں کے یہ چند نمونے ملاحظہ
فرمائیں اور انہیں اپنی دعاؤں سے نوازیں۔ اِن غزلوں کے ایک ایک شعر کے
محاسن پر گفتگو ممکن ہے لیکن یہ فریضہ ہم اپنے قائین کی صواب دید پر چھوڑنا
چاہتے ہیں:
(۱)
نبھائے ہم نے مراسم یوں بدزبان کے ساتھ ---- کہ جیسے رہتا ہے آئینہ اک چٹان
کے ساتھ
زمیں بھی کرنے لگی اب دعا کسان کے ساتھ --- کہ دریا بہنے لگا خطرے کے نشان
کے ساتھ
ہے تیرے ہاتھ میں اب لاج اُس کی ربِ کریم ---- پرندہ شرط لگا بیٹھا آسمان
کے ساتھ
ہم ایسے لوگ بھلا کیسے نیند بھر سوئیں ---- کہ جاگ اٹھتی ہیں فکریں میاں
اذان کے ساتھ
کہیں یہ بڑھ کے مرا حوصلہ نہ قتل کرے ---- تبھی تو جنگ چھڑی ہے مری تھکان
کے ساتھ
وہ جس کے سامنے دریا نے ناک رگڑی ہے --- ہمارا رشتہ ہے اس اعلیٰ خاندان کے
ساتھ
غریب ہونے سے تہذیب مر نہیں سکتی
وہ چیتھڑوں میں بھی رہتا ہے آن بان کے ساتھ
(۲)
اُسے تو کوئی اقرب کاٹتا ہے ---- کلہاڑا پیڑ کو کب کاٹتا ہے
جدا جو گوشت کو ناخن سے کر دے ----- وہ مسلک ہو کہ مشرب، کاٹتا ہے
بہکنے کا نہیں امکان کوئی ------ عقیدہ سارے کرتب کاٹتا ہے
کہی جاتی نہیں ہیں جو زُباں سے ---- انہیں باتوں کا مطلب کاٹتا ہے
وہ کاٹے گا نہیں ہے خوف اِس کا ---- ستم یہ ہے کہ بے ڈھب کاٹتا ہے
تُو ہوتا ساتھ تو کچھ بات ہوتی ----- اکیلا ہوں تو منصب کاٹتا ہے
جہاں ترجیح دیتے ہیں وفا کو ----- زمانے کو وہ مکتب کاٹتا ہے
یہ مانا سانپ ہے زہرریلا بے حد ---- مگر وہ جب دبے تب کاٹتا ہے
اُسے تم خون بھی اپنا پلا دو ----- ملے موقع تو عقرب کاٹتا ہے
الف، بے، تے سکھائی جس کو عادلؔ
مری باتوں کو وہ اب کاٹتا ہے
(۳)
جہاں کی کوئی دکھتی رگ صحافی ڈھونڈ لیتا ہے ------ سمندر میں اترکر سچے
موتی ڈھونڈ لیتا ہے
وہ جگ بیتی میں اپنی آپ بیتی ڈھونڈ لیتا ہے ---- قلندر ہے، ہجوم غم میں
مستی ڈھونڈ لیتا ہے
دکھائی کچھ نہیں دیتا مگر اﷲ کی قدرت ----- کہ بچہ جسم کی خوشبو سے امی
ڈھونڈ لیتا ہے
چلو ان سردیوں میں یہ ہنر مزدور سے سیکھیں ----- وہ ٹھنڈی راکھ میں کس طرح
گرمی ڈھونڈ لیتا ہے
مخالف ہے مگر میں اُس کے فن کی داد دیتا ہوں وہ اچھی بات میں بھی کچھ برائی
ڈھونڈ لیتا ہے
بڑا مشکل ہے بچنا عیب نظروں سے صحافی کی
ہے اُس میں وصف کہ بھوسے میں سوئی ڈھونڈ لیتا ہے
(۴)
کل جو رائج تھا آج تھوڑی ہے ---- اب وفا کا رواج تھوڑی ہے
زندگی بس تجھی کو روتا رہوں ---- اور کوئی کام کاج تھوڑی ہے
دل اُسے اب بھی باوفا سمجھے ---- وہم کا کچھ علاج تھوڑی ہے
آپ کی ہاں میں ہاں ملا دونگا ---- آپ کے گھر کا راج تھوڑی ہے
ہے ضرورت تجھے دعاؤں کی ---- مئے غموں کا علاج تھوڑی ہے
وہ ہی قادر ہے وہ بچا لے گا ---- اپنے ہاتھوں میں لاج تھوڑی ہے
وہ ہی حاجت روا ہے رازق ہے ---- تیری مٹھی میں ناج تھوڑی ہے
اُس کی یادوں سے پار پڑ جائے ---- ہر مرض کا علاج تھوڑی ہے
داد ہے یہ ہماری غزلوں کی ---- ایک مٹھی اناج تھوڑی ہے
عمر بھی دیکھو حرکتیں دیکھو ----- اُس کو کچھ لوک لاج تھوڑی ہے
پیار کو پیار ہی سمجھ لیگا ----- اتنا اچھا سماج تھوڑی ہے
میں شکایت کسی سے کر بیٹھوں ---- میرا ایسا مزاج تھوڑی ہے
شاعری چھوڑ دینگے اک دن ہم
یہ مرض لاعلاج تھوڑی ہے
(۵)
گر کے اٹھ جو چل نہیں سکتا ---- وہ کبھی بھی سنبھل نہیں سکتا
تیرے سانچے میں دھل نہیں سکتا ---- اس لئے ساتھ چل نہیں سکتا
آپ رشتہ رکھیں ، رکھیں نہ رکھیں ---- میں تو رشتہ بدل نہیں سکتا
وہ بھی بھاگے گا گندگی کی طرف ---- میں بھی فطرت بدل نہیں سکتا
آپ بھاوُک ہیں، آپ پاگل ہیں ---- وہ ہے پتھر پگھل نہیں سکتا
اِس پہ منزل ملے، ملے نہ ملے ---- اب میں رستہ بدل نہیں سکتا
تم نے چالاک کر دیا مجھ کو ---- اب کوئی وار چل نہیں سکتا
اس کہاوت کو اب بدل ڈالو
کھوٹا سکہ تو چل نہیں سکتا
(۶)
خواب آنکھوں میں پالتے رہنا ---- جال دریا میں ڈالتے رہنا
زندگی پر کتاب لکھنی ہے ---- مجھ کو حیرت میں ڈالتے رہنا
اور کئی انکشاف ہونے ہیں ---- تم سمندر کھنگالتے رہنا
خواب رکھ دے گا تیری آنکھوں میں ---- زندگی بھر سنبھالتے رہنا
تیرا دیدار میری منشا ہے ---- عمر بھر مجھ کو ٹالتے رہنا
زندگی آنکھ پھیر سکتی ہے ---- آنکھ میں آنکھ ڈالتے رہنا
تیرے احسان بھول سکتا ہوں ---- آگ میں تیل ڈالتے رہنا
میں بھی تم پر یقین کر لوں گا ---- تم بھی پانی ابالتے رہنا
اک طریقہ ہے کامیابی کا
خود میں کمیاں نکالتے رہنا
خدا کرے کہ اُردو کا یہ وفا شعار شاعراپنی کوششوں میں کامیابی سے ہمکنار
ہو۔آمین۔
|