ووٹ اپنی شرائط پر دیں

ہندوستانی مسلمانوں کی خاصی بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ وہ ’’بادشاہ گر‘‘ ہیں۔ دیکھا جائے تو بظاہر یہ بات غلط نہیں ہے لیکن گہرائی سے اس دعوے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بادشاہ گری والی بات خوش فہمی زیادہ ہے حقیقت کم ہے! اگر مان لیا جائے کہ بادشاہ گری کسی حدتک حقیقت ہے تو بھی اس سے ہم کو فائدے برائے نام ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو سچر کمیٹی کی رپورٹ ہمارے حق میں اتنی بھیانک نہ ہوتی! کیرالا میں مسلم لیگ کیرالا کے مسلمانوں کے لئے مفید ثٓبت ہوئی ہے۔ حیدرآباد میں ایم آئی ایم نے بے شک اپنی سیاسی طاقت کا کسی حدتک فائدہ اٹھایا ہے لیکن باقی ملک میں ہم نے جس کوووٹ دیا اس نے ہمارے لئے کچھ کرنا تو دور کی بات ہے الٹا ہمارے گلے کاٹے، آزادی کے فوراً بعد تو کانگریس کے مسلم قائدین (مولانا آزاد، رفیع احمد قدوائی، ڈاکٹر ذاکر حسین ، حافظ محمد ابراہیم وغیرہ نے ہم کو یہی سبق دیا تھا کہ ’’کچھ نہ مانگو‘‘ مانگنے کا تم حق نہیں ہے سنگھ پریوار نے تو سالوں بعد ہم کو ملک کے دوسرے درجہ کا شہری بنانا چاہا لیکن کانگریس کے مسلمان قائدین نے ہم کو عملاً دوسرے درجہ کا شہری بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔

جمہوری نظام میں اقتدار کی خواہش رکھنے والی جماعتوں سے اپنے مطالبات اور حقوق کو تسلیم کروانا ہی نہیں حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے ان کو روبہ عمل لانا عوام کا بلالحاظ مذہب عوام کا حق ہے اور ہم اپنے مطالبات اخباری بیانات میں تو پیش کرسکتے ہیں لیکن ہمارے مطالبات کو کسی سیاسی جماعت کے انتخابی منشور کا حصہ بنواسکے آج تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں ان میں یہی ہوتا آیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے مسلمانوں کے لئے کچھ مراعات، سہولتوں اور رعایتوں کا اعلان از خود کردیا تو کردیا ورنہ مسلمانوں نے دباؤ ڈال کر اپنے مطالبات اپنی مرضی کے مطابق کسی سیاسی جماعت کے منشور میں شامل کروائے ہوں اس کی مثال ملنا نا ممکن ہے۔ بی جے پی نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے اور یکساں سیول نافذ کرنے کو علی الاعلان اپنے انتخابی منشور میں شامل کیا۔ سیکولر جماعتوں نے اپنے انتخابی منشور واضح الفاظ میں اس کی مخالفت نہیں کی گھماپھرا کر مخالفت کی ہوتو اور بات ہے۔ پارٹیوں میں شامل مسلمان قائدین مسلمانوں کے بارے میں اپنی زبان کھولتے ہوئے ڈرتے ہیں تو پھر کسی پارٹی کے منشور میں مسلمانوں کے مطالبات حقوق اور مراعات کا ذکر کیسے آئے؟ ہمارا تو حال یہ ہے کہ انتخابی جلسوں میں امیدواروں نے انتخابی وعدوں کے خوشنما باغ دکھائے اور ہم نے سمجھ لیا کہ یہ وعدے پورے کرنے یا روبہ عمل لانے کے لئے کئے جارہے ہیں لیکن مایوسی ہی ہمارا مقدر ٹھیری۔ ہمارے ہی ساتھ نہیں ملک بھر کے عوام کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔ لیکن ہمارے مسائل ہماری ضروریات مختلف ہیں ہم ٹھہرے پسماندہ، تعلیم وتجارت کے میدان میں کمزور، مفلسی، افلاس اور بے روزگاری کے علاوہ مسلم کش فسادات، دہشت گردی کا الزام ہماری ملی شناخت اور فرقہ پرست انتظامیہ اور پولیس ہم پر مہربان! اس لئے جب الیکشن کا موسم آتا ہے تو ہم وعدوں کے سبز باغ اور خوش فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یہ سب اس لئے ہے کہ ہمارا نہ کوئی قائد ہے نہ ہی کوئی تنظیم کیونکہ آزادی کے بعد ’’قوم پرست مسلمان قائدین نے ہم کو سمجھا یا کہ مسلمانوں کے لئے علاحدہ سیاسی جماعت اور کسی قسم کی علاحدگی ممنوع ہے ۔ سخت نقصان دہ ہے وہ تو مولوی اسمٰعیل مرحوم کی ہمت تھی کہ (کیرالا کی حدتک سہی) مسلم لیگ کو قائم رکھا۔ آج بھی یہی صورتِ حال ہے۔ حیدرآباد میں مجلس اور آسام میں مولانا اجمل کا محاذ مسلمانوں کی سیاسی قوت کے مظہر ہیں ورنہ کل ہند سطح پر مسلمانوں کی نہ کوئی جماعت ہے نہ قیادت صرف مسلم پرسنل لابورڈ ملک بھر کے مسلمانوں کو ایک لڑی میں پروے رکھنے والی کمزور سی ڈوری ہے۔

ان حالات میں سوال اٹھتا ہے کہ ملک بھر کے مسلمانوں کی ضرورت کے مطابق فہرست مطالبات کیسے اور کس طرح تیار ہوگی؟ یہ بے شک بہت اہم سوا ل ہے۔ اس سوال کا جواب یا اس مسئلہ کا حل ہم کو ہی تلاش کرنا ہے یہ مسئلہ ہم کو ہی حل کرنا ہے کئی ایسے مکتب فکر بھی ہیں جو مسلم پرسنل لا بورڈ میں ہی اس قسم کے سیاسی مسائل کے حل کیلئے ایک علاحدہ شعبہ یا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ایک سیاسی بازو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس قسم کی کوئی صورت نکل سکتی ہے تو یہ ہمارے حق میں بہتر ہی ہوگا۔ بھلے ہی مسلم پرسنل لاء بورڈ کا سیاسی شعبہ یا بازو خود کو انتخابی سیاست سے الگ تھلک رکھے لیکن یہ انتخابی مراحل کے لئے رہنما خطوط طئے کرکے انہیں سیاسی پارٹیوں کے آگے پیش کرنے کے لئے مسلمانوں کے مطالبات تیار کرکے انہیں جاری کرسکتا ہے اور حسب ضرورت سودے بازی بھی کرسکتا ہے۔ راقم الحروف کو اس امر کا پورا پورا احساس ہے کہ یہ بڑا مشکل کام ہے کیونکہ ہماری قوم صر ف اس ایک نکتہ پر متفق ہے کہ ’’ہم ہر گز متحد نہیں ہوں گے‘‘ اب نہ ہم میں پوری ملت کو اپنا ہم نوا بنانے کی اہلیت رکھنے والا نہ کوئی مولانا محمد علی جوہر ہے اور نہ کوئی محمد عی جناح ہے لیکن مایوسی کفر ہے اس قسم کی باتوں کو ناممکن قرار دے کر بیٹھ رہنے سے تو مسئلہ حل ہونے سے رہا۔ وہی اقوام زندہ رہتی جو راہ کو پرخار دیکھ کر بھی اس پر چلنے کا حوصلہ رکھتی ہوں ورنہ بقول شاعر
’’تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘

ہمارا سارا مسئلہ کسی سیاسی جماعت کے انتخابی منشور میں اپنے مطالبات، مفادات کی حفاظت وتکمیل اور مراعات طلب کرنے کی حدتک محدود نہیں ہے۔

انتخابات کا پہلا مرحلہ تمام سیاسی جماعتوں کے لئے تمام یا منتخبہ حلقوں کے لئے امیدواروں کا انتخاب ہوتا ہے اور مسلمانوں پر پہلا وار اسی مرحلہ میں ہوتا ہے کہ مسلمان امیدواروں کو ان کی آبادی کے تناسب سے بہت ہی کم ٹکٹ دئیے جاتے ہیں ۔ پارلیمان، ریاستی اسمبلیوں، کونسل اور راجیہ سبھا ہی نہیں بلکہ بلدیاتی انتخابات میں بھی تقریباً ساری ہی پارٹیاں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے بھی بہت کم ٹکٹ دیتی ہیں۔ کسی بھی پارٹی کی جانب سے اس کے امیدواروں کے انتخابات کے بعد مسلمانوں کو کم سے کم ٹکٹ دینے پر ہم بڑا واویلا مچاتے ہیں لیکن اس ’’بعد ازمرگ‘‘ واویلا کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے! تمام پارٹیوں پر واضح کرنا چاہئے پارلیمان یا اسمبلی کے لئے کسی ریاست سے کم از کم کتنے مسلم امیدوار کھڑے کئے جائیں گے؟ اس طرح یہ کسی پارٹی کا پہلا امتحان قرار دیا جاسکتاہے۔

کوئی پارٹی اگر مسلمانوں کو کم ٹکٹ دے تو مان لیں کہ پارٹی کو مسلمانوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

صرف ٹکٹ دینا ہی کافی نہیں ہے۔ مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والے اصحاب ہماری اس بات کی تصدیق کریں کہ عام طور پر پارٹیوں کے بڑے اور عام کارکن پارٹی کے مسلمان امیدواروں کی کامیابی سے کم دلچسپی رکھتے ہیں لیکن اب بعض صوبوں میں رجحان بدل رہے ہیں مایاوتی، ملائم سنگھ اور ممتابنرجی نے مسلمانوں کو خاصی تعداد میں ٹکٹ دئیے بھی ہیں۔ کرناٹک کے حالیہ انتخابات میں مسلمان ارکان اسمبلی کی تعداد افسوس ناک حدتک تک کم ہے۔ آندھراپردیش میں مسلم آبادی (9)فیصد سے زیادہ ہے لیکن کسی پارٹی نے شائد ہی کبھی دس یا پندرہ مسلمانوں کو ٹکٹ دئیے ہوں۔

مسلمانوں کے اہم مسائل میں کل ہند نوعیت کے کچھ ہیں مثلاً مسلمانوں کو دہشت گردی میں ملوث کرنا اور مختلف ریاستوں میں مختلف ہیں کچھ مسائل تو سالہا سال سے حل طلب ہیں کیونکہ ہر انتخاب سے پہلے ہم وعدوں سے خوش ہولیتے ہیں تو دوسری طرف ہم وعدہ یا مطالبہ پورا نہ ہونے پر الگے انتخابات تک ہم اپیلیں کرنے گزارشات پیش کرنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں پارٹیاں ہمارے مطالبات یا وعدوں کی تکمیل اس وجہ سے نہیں کرتی ہیں کہ نہ ہمارا مطالبہ اجتماعی ہوتا ہے نہ ہمارا دباؤ اجتماعی ہوتا ہے۔ اب یہ دیکھ لیں کہ دہشت گردی کے الزاما میں بے قصور افراد کی بغیر مقدمہ چلائے مختصر یا طویل مدت کے لئے قید رکھے جانے کا مسئلہ کئی ریاستوں میں ہے صرف اکھلیش کے پیچھے پڑے ہیں جبکہ بہار، دہلی، گجرات، راجستھان، مہاراشٹرا اور آندھراپردیش میں بھی مسلمان جیلوں میں ہیں۔ ان صوبوں کے وزرائے اعلیٰ پر بھی ایسا ہی دباؤ ڈالنا چاہئے جو ہم یو پی کے وزیر اعلیٰ پر ڈال رہے ہیں یو پی میں اس دباؤ ڈالے جانے میں کانگریس، بی جے پی اور بی ایس پی کے علاوہ زرخرید میڈیا کا بھی ہاتھ ہے۔ اکھلیش کے انتخابی منشور میں اس سلسلے میں وعدہ تھا لیکن ایسا کوئی وعدہ کسی اور ریاست میں شائد ہو ہو!

ہم کو کسی بھی پارٹی کو اپنا ووٹ اپنی شرائط پر دینا چاہئے نہ کہ پارٹی کے وعدوں پر! (جو ہم آج تک کرتے آرہے ہیں)۔ اسی طرح ایک مسئلہ بعض ریاستوں میں ہوسکتا ہے کہ گجرات، راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا میں بی جے پی اور کانگریس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ اکثر کانگریس سے ناراض ووٹر بی جے پی اور اس کے حلیفوں کو آزمانے کے لئے انہیں اپنا ووٹ دے دیتا ہے۔ کانگریس بے شک بی جے پی سے کسی قدر بہتر ہے لیکن ووٹ کی مستحق نہیں ہے ایسی صورت میں کوئی اجتماعی فیصلہ ہی بہتر نتائج برآمد کرسکتا ہے اپنی شرط پر ووٹ دینا ہی وقت کا تقاضہ ہے۔

Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 167751 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.