مالاکنڈ آپریشن متاثرہ بچے کیا سوچتے ہیں؟

 مالاکنڈ ڈویژن میں 26 اپریل سے جاری فوجی آپریشن اب بھی جاری ہے جس سے ایک طرف تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ آج بھی دیر وغیرہ میں محصور ہیں تو دوسری جانب 30 لاکھ سے زائد لوگ نقل مکانی کر کے متاثرین کے لئے قائم کئے گئے حکومتی و غیر حکومتی اداروں کے کیمپوں یا ملک کے دور دراز شہروں میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کی جانب سے مذکورہ نقل مکانی کو دنیا بھر میں اب تک کی سب سے بڑی نقل مکانی قرار دیا جا رہا ہے جس میں اتنی بڑی تعداد اندرون ملک ایک سے دوسری جگہ منتقل ہونے پر مجبور کر دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے قائم کئے گئے امدادی کیمپوں میں فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات ہوں یا دیگر ضروریات زندگی تک رسائی کا مسئلہ مہمان نوازی کی صفت سے جانی جانے والی ایک بہت بڑی تعداد آج دوسروں کے ہاتھوں کی جانب دیکھنے پر مجبور کر دی گئی ہے۔ سوات، دیر، بونیر اور قریبی علاقوں سے نقل مکانی کر کے ملک کے دیگر حصوں کی طرح ایک بہت بڑی تعداد کراچی بھی پہنچی ہے۔ محکمہ صحت سندھ کے ذیلی ادارے ای پی آئی کی جانب سے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف سے کراچی کے دس ٹاﺅنز میں کروائے جانے والے سروے میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کے مطابق کراچی کے دس ٹاﺅنز میں 53 ہزار متاثرہ افراد پہنچے ہیں۔ جب کہ اصل تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے۔

ان لوگوں میں ہر عمر کے افراد موجود ہیں لیکن بڑی اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ جو اپنے گھروں سے باہر نکالے جانے پر نہ صرف شاکی ہیں بلکہ ابھی تک وہ نئے ماحول میں ایڈجسٹ نہیں ہو سکے ہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد سے کراچی جانے کا اتفاق ہوا جہاں ایک دوست کے توسط سے کچھ متاثرین سے ملاقاتیں ہوئیں جن کی تفصیل قارئین کے لئے پیش کی جا رہی ہے۔ مذکورہ دوست کے ہمراہ نجی پرائمری اسکول جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں موجود اسکول ٹیچر نے علیک سلیک کے بعد کہا کہ ان کی کلاس میں مالاکنڈ ڈویژن کے متاثرہ علاقے بونیرسے تعلق رکھنے والے دو چھوٹے بھائی گزشتہ کچھ دنوں سے پڑھنے کے لئے آ رہے ہیں لیکن ان کی ذہنی کیفیت ایک استاد ہونے کے باوجود ان کی سمجھ میں نہیں آپا رہی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ذہن کی سوئی کسی ایک نکتہ پر ٹھہر گئی ہے اور آگے جانے پر تیار نہیں ۔آپ ان بچوں کا بھی انٹرویو کریں تاکہ لوگوں کو پتہ چل سکے کہ متاثرین کس حالت میں زندہ ہیں اور ان کی کیا کیفیات ہیں شاید اسی طرح ان قوتوں کو بھی احساس ہو جو لسانیت اور قومیت کی آڑ میں دکھ اور مشکل کا شکار ان مظلوموں کے ساتھ ہمدردی کے بجائے انہیں کراچی آنے سے روکنا چاہتے ہیں۔ مذکورہ ٹیچر کے کہنے پر بچوں سے ہونے والی ملاقات کی روداد پیش خدمت ہے۔

بونیر کے علاقے جوڑ میں قائم ابدالی پبلک اسکول کی کلاس دوئم اور سوئم کے طالب علم کاشف اور عارف کو دیکھ کر پہلی نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ معصومیت بھرے یہ چہرے دنیا بھر سے شدید شاکی ہیں کہ انہیں کیوں ان کے گھر، اسکول اور گاﺅں سے بے دخل کیا گیا ہے۔ وہ تو بالکل پر امن انداز میں وہاں رہ رہے تھے ان کی وجہ سے کسی کو معمولی نوعیت کی شرارتوں سے زائد کوئی شکایت بھی نہیں تھی۔ لیکن پھر ایسا کیا ہوا ہے کہ انہیں سنبھلنے کی مہلت دئے بغیر یہ کہہ دیا گیا کہ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل جائیں۔ دونوں بھائیوں کے ساتھ موجود ان کے چچا زاد بھائی نے بتایا کہ یہ لوگ آپریشن شروع ہونے کے بعد گاﺅں میں ہی رہ رہے تھے لیکن کارروائی شروع ہونے کے دس دن بعد جب علاقے میں خوراک، ادویات اور دیگر ضروری اشیاء ختم ہو گئیں۔ آپریشن کے دوران مسلسل کرفیو کی وجہ سے گاﺅں میں موجود اپنے گھروں سے دور نکل کر کھیتوں میں جانا بھی ممکن نہیں رہا تو بیرون ملک ملازمت کی خاطر مقیم ان کے چچا نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ بھی یہاں سے چلے جائیں جس پر کاشف کے گھر کے باقی 14 افراد سمیت اپنے چچا زاد بھائی کے ساتھ وہاں سے نکل آیا۔ پہلے ان لوگوں کا ارادہ مردان یا دیگر علاقوں کے کیمپوں میں جانے کا تھا لیکن وہاں سے واپس آنے والے کچھ لوگوں کی جانب سے سہولیات کی عدم فراہمی، گندگی، بیماریوں کی شکایات سن کر وہ خاصے پریشان ہو گئے تھے کہ اب کہاں جائیں۔ اس مشکل کی اطلاع دینے کے لئے جب میرے اور کاشف کے چھوٹے چچا کے بیٹے نے کراچی میں ابو سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ بچوں اور خواتین سمیت تمام گھر والوں کو لے کر فوری طور پر کراچی آجائیں۔ جس پر چچا، کاشف اور عارف سمیت گھر کے بقیہ 14افراد 7 مئی کی صبح بونیر سے کراچی آنے کے لئے روانہ ہوئے۔اس موقع پر ہم نے براہ راست کاشف سے پوچھا کہ وہ گاﺅں میں کیا کرتے تھے اور اب وہاںسے کراچی کیوں آئے ہیں؟

تو تمام تر منافقتوں، ریاکاریوں سمیت دیگر برائیوں سے پاک عمر کے حامل کاشف نے بہت دھیمی سے آواز میں کہا کہ وہ تو اپنے گاﺅں میں بہت خوش تھے۔ روزانہ صبح اٹھ کر اسکول چلے جاتے جہاں وقفے کے دوران وہ اپنے دیگر دوستوں کے ہمراہ اسکول کے گراﺅنڈ میں مختلف کھیل کھیلتے چھٹی ہونے کے بعد گھر واپس آتے کھانا وغیرہ کھا کر کچھ دیر آرام کرتے اور پھر قرآن پڑھنے کے لئے مسجد چلے جاتے جہاں سے دو گھنٹے بعد واپسی ہوتی۔ گھر واپس پہنچنے کے بعد ایک ارد گرد کے ہم عمر بچوں سمیت کھیلنے کے لئے باہر نکل جاتے اس دوران اگر پھلوں کا موسم ہوتا تو ان کے اپنے کھیتوں میں لگے پھل دار درختوں سے پھل توڑ کر کھاتے لیکن ایسا کرتے ہوئے انہیں چھپنا پڑتا تھا کیوں کہ اگر کوئی بڑا پھل توڑتے دیکھ لے تو پھر شامت آجاتی تھی۔ جب اندھیرا ہونے لگتا تو وہ گھر واپس آجاتے ہاتھ منہ دھو کر صبح کلاس میں دیا گیا کام کرتے یاد کرنے کے سبق کو دہراتے اور کھانا کھا کر سو جاتے۔ ہم تو وہاں خوش تھے لیکن پھر اچانک گھر سے باہر نکلنا بند کر دیا گیا جب امی سے باہر جانے کا کہتے تو وہ اوپر سے گزرنے والے جہازوں کو دکھا کر کہتیں کہ ان سے بہت خطرناک گولے نکلتے ہیں جس سے لوگ مر جاتے ہیں
Shahid Abbasi
About the Author: Shahid Abbasi Read More Articles by Shahid Abbasi: 31 Articles with 31905 views I am a journalist , working in urdu news paper as a Health, cuurent affair, political and other related isssues' reporter. I have my own blog on wordp.. View More