میرے گزشتہ دو آرٹیکلز
پر کچھ “محب وطن“ حضرات نے بڑے جارحانہ تبصرے کیے اور مجھے بڑی شرمندگی
محسوس ہوئی کہ میں نے ان تمام “محب وطن“ ، “انسانیت کا درد رکھنے والے“ ۔“
اسلام کے سچے باعمل پیرو کاروں “ کا دل دکھایا میں ان تمام حضرات کی “ عظمت“
کو سلام کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کا “جذبہ حب الوطنی“ قابل رشک ہے
یقیناً آپ جیسے لوگ کسی ملک کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ یقیناً آپ پاکستان کے ہر
مخالف کو ایسے ہی منہ توڑ جواب دینگے اور ایسے ہی کسی بھی پاکستان مخالف
بیان یا خبر کی مذمت کریں گے آمین اللہ آپ کے “جذبہ ایمانی“ کو سلامت رکھے۔
میرے بھائیوں پتہ نہیں اللہ نے میرا حافظہ اتنا اچھا کیوں بنایا ہے کہ جب
بھی کوئی واقعہ ہوتا ہے یا کوئی بات ہوتی ہے تو میرے ذہن میں اس سے ملتے
جلتے واقعات گھومنے لگتے ہیں اب دیکھیں نہ نومبر دوہزار چار میں جناب الطاف
حسین قائد تحریک متحدہ قومی موومنٹ نے بھارت کا دورہ کیا تھا اور اس دورے
میں انہوں نے پاک بھارت دوستی کا پیغام پھیلایا اور وہیں انہوں نے یہ بھی
فرمایا کہ برصغیر کی تقسیم غیر فطری ہے اس کو تقسیم نہیں ہونا چاہئے تھا
اور یہ کہ تقسیم کا فیصلہ غلط ہے اگر تقسیم کے موقع پر میں ہوتا تو اس کے
خلاف ووٹ دیتا۔ یہ محترم قائد تحریک کا بیان ہے میرا نہیں۔ میں منتظر ہوں
کہ آپ تمام حضرات انہی صفحات پر پاکستان کے خلاف بات کرنے والے ایک برطانوی
شہری کی مذمت بالکل انہیں الفاظ اور لب و لہجہ میں کریں گے جو لب و لہجہ آپ
حضرات نے میرے آرٹیکل کے تبصرہ میں اختیار کیا ہے۔چلیں میں تو ایک بے عمل
ہی سہی آپ تو “باعمل“ ہیں دیکھتے ہیں آپ کا جذبہ “حب الوطنی“ کیا کہتا ہے۔
سوات میں ایک مبینہ ویڈیو جس میں ایک لڑکی کو کوڑے مارے جارہے ہیں اس کی
بنیاد پر طالبان کو قابل گردن زدنی قرار دینے والے آپ جیسے تمام “انسانیت“
اور “انسانی حقوق کے عمبرادروں“ سے ایک گزارش اور بھی ہے کہ تئیس مئی کو
کراچی میں جسقم کی ہڑتال جس کی متحدہ نے بھی حمایت کی اس میں متحدہ کے زیر
اثر گارڈن کے علاقے میں روٹ پی ون کی بس کو آگ لگا دی گئی اور اس میں ایک
خاتوں بھی زندہ جل گئیں۔ میں اس بات کا بھی منتظر ہوں کہ آپ جیسے “دکھی
انسانیت کا درد رکھنے والے“ تمام حضرات کراچی میں بھی آپریشن کے لیے آواز
کب اٹھاتے ہیں اور کب اس مظلوم خاتوں کو زندہ جلانے والے ظالم دہشت گردوں
اور ان کے سرپرستوں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہیں۔
یقیناً آپ تمام حضرات کسی قسم کی قوم پرستی نہیں کرتے ہونگے۔ تمام تعصبات
سے پاک ہونگے اور آپ لوگوں کی جو مخالفت ہے وہ یقیناً اسلام کو بدنام کرنے
والے طالبان کے لیے مخصوص ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ کراچی میں ایک مخصوص
قومیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے ہوٹل جن لوگوں نے بند کرائے ہیں اور
پیالہ ہوٹل کے قریب کچرا چننے والے غریب افغان مہاجرین کو گولیاں مارنے
والے، نارتھ ناظم آباد بلاک جے میں ٹھیلے پر مکئی بیچنے والے غریب محنت کش
کو قتل کرنے والے، خوانچہ فروش غریبوں کے ٹھیلے جلانے والے اور پاکستان کے
شہریوں کو اپنی ہی ملک کے ایک حصے میں داخل ہونے سے روکنے والے تمام دہشت
گردوں کی مذمت کریں گے اور ان کے خلاف بھی ایک آپریشن کرنے کی حمایت کریں
گے۔ میں آپ تمام محب وطن عناصر کی ترجمانی کرتے ہوئے حکومت وقت سے یہ
مطالبہ کرتا ہوں کہ جس طرح سوات، مینگورہ اور بونیر وغیرہ میں دہشت گردوں
کے خلاف آپریشن کیا جارہا ہے اسی طرح کراچی میں بھی آمنہ نامی خاتون کو
زندہ جلانے والے اور غریب مزدروں کو قتل کرنے والے، اور ملک کے شہریوں کے
آئینی حقوق سلب کرکے ان کو ایک شہر میں داخل ہونے سے روکنے والے تمام دہشت
گردوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف بھی ایک بھرپور آپریشن کیا جائے اور ان
کے تمام سرپرستوں کو چاہے ان کے پاس کسی اور ملک کی شہریت ہی نہ ہو کیفر
کردار تک پہنچایا جائے۔ کراچی کے محب وطن اور غیور عوام حکومت کے ایسے تمام
اقدامات کی بھر پور حمایت کریں گے۔
آخری بات کہ مذہبی جماعتوں پر تو یہ الزام بڑی آسانی سے لگایا جاتا ہے کہ
وہ خود تو جہاد نہیں کرتے لیکن دوسروں کے بچوں کو جہاد کےنام پر مروا دیتے
ہیں۔ آپ جیسے تمام محب وطن، انصاف پسند، اسلام کا سچا درد رکھنے والے اس کو
منافقت سمجھتے ہونگے۔ میں بھی اس کو منافقت سمجھتا ہوں لیکن بڑی عجیب بات
ہے کہ ایک فرد لندن میں بیٹھ کر کراچی اور سندہ کی حفاظت کی بات کرتا ہے،
لوگوں سے کہتا ہے کہ بڑی سے بڑی قربانی کے لیے تیار رہیں لیکن خود سولہ سال
سے ملک سے باہر بیٹھا ہے۔ اس پر تو کبھی آپ جیسے “محب وطن“، “انصاف پسند“
اور “اسلام کے سچے پیرورکاروں“ کچھ نہیں کہتے۔ پتہ نہیں اس کو منافقت کہا
جائے گا یا کچھ اور ؟؟؟ |