دنیا بدل رہی ہے

امریکہ اب وہ امریکہ نہیں رہا، جوبذات خود دنیا کی تاریک غاروں میں مخالفین کا متلاشی تھا، اب اسے تلاش کرنا پڑتاہے ، ملک ، ادارے اورلوگ جب ڈوبنے لگتے ہیں ،تو ان کے فون مصنوعی مصروف یا بند ملتے ہیں ، افغان طالبان اور القاعدہ نے عراق میں جنگی محاذوں پر اس عفریت کو چکنا چور کردیا، تو کوئی مانے یانہ مانے شام ولبنان کے حوالے سے طہران نے اپنے آپ کو عالم مشرق کا جنیوا ثابت کرکے اور برطانیہ کا یہ بیان کہ شامی مسئلے کے حل کی چا بی روس کے پاس ہے نے سرد جنگ کے بعدامریکن نیو ورلڈ آرڈر کو خاک میں ملا دیاہے ، افغان عراق جنگ نے امریکہ کو کھوکھلا کردیاہے ،1929ء کے عالمی اقتصادی بحران کی طرح2008ء میں جو بحران مغربی ممالک میں آیاتھا، امریکی اس کو 2008سے بہت پہلے بھانپ چکے تھے ، اسی لئے انہوں نے امریکہ کاگوربا چوف بننے کے لئے ایک گورے اور عیسائی النسل صدر کے بجائے کالے اور مسلم نسل کے صدر کا انتخاب کیا، بیل آوٹ پروگرام نے وہاں کے بینکوں کو کچھ سہارا دیا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکہ شدید ترین اقتصادی بحران اور مالیاتی قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دباہواہے ، انہوں نے اسی لئے نئی جنگوں میں کو دنے سے گریز کیا، افغان وعراق کے بعد ان کو شام میں خون کی ہولی،انسانی حقوق کی پامالی کے علاوہ مڈل ایسٹ کے شامی زون کا رشین فیڈریشن بلاک میں جانے کا بخوبی اندازہ ہے ، اس کے باوجود وہ وہاں کوئی مرکزی کردار ادا کرنے کے بجائے ،روسی موقف کو اپنانے پر آمادہ نظر آرہے ہیں ، بلکہ الجزیرہ اور الشرق الاوسط کے بقول امریکہ ویورپی یونین نے رشین فیڈریشن کے ساتھ دنیا کے کچھ ممالک میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے بھاؤ تاؤ کر لیاہے ، ان میں سرِفہرست شام ہے، شام کامسئلہ اگرکسی تبدیلی کا اشارہ ہے ،تویہ عالمی سطح پریک محوری سپرپاؤرکی جگہ لینے کے لئے متعدد الطاقات نظام کی آمد کا بھی واضح اشارہ ہے ،شام کے بعد لبنان اور سوویت یونین دور کے ممالک کی طرف بھی پوٹن کی قیادت میں روس پیش قدمی کرنے والاہے ، ایران ، انڈیااور چین بھی ان کے حامی ہیں ، اور اگر چین وروس کسی اتحاد پر آمادہ ہوجاتے ہیں ، تو دنیا کے کئی ممالک سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا بوریا بسترگول ہوجائے گا ، مشرق اقصی بالخصوص جاپان وشمالی وجنوبی کوریا کا کیا بنے گا، مشرق اوسط بالخصوص خلیج کے ممالک کیا راستہ اختیار کریں گے ،یا کس راہ پر مجبور ہوں گے، اس کے متعلق شاید اب حتمی بات کہنا قبل از وقت ہوگا، اتنا ضرور ہے کہ ان دونوں منطقوں میں جغرافیائی تشکیل جدید کا اندیشہ ہے ، کیونکہ امریکہ کے بااختیار اداروں نے فیصلہ کیاہے کہ عالمی معاملات میں زیادہ کردار کے بجائے اندرونی اصلاحات پر توجہ دی جائے ،تاکہ اگر امریکہ عالمی نمبرون طاقت نہ رہے، تو نہ رہے ، لیکن شریک سپر پاور کے طور پرضرور قائم رہے ، ادھر چین بھی کئی ٹریلین ڈالر کیش کا مالک ہے ، یورپ وامریکہ کے علاوہ دنیا کے تمام براعظموں میں مارکیٹ پر چھایا ہواہے ، مقابلے میں صرف امریکہ ہی نہ ہی یورپین بھی یورو کی انحطاط کی وجہ سے خود انحطاط اور زبوں حالی کا شکار ہے ، انہوں نے چین سے امداد کے لئے درخواستوں پر درخواستیں دے رکھی ہیں ، فرانس ، برطانیہ اور جرمنی جویورو زون کے اہم کھلاڑی ہیں وہ احتیاط کی طرف گامزن ہیں ، نیٹو کے کمزور ہونے کا یقینی خطرہ ہے، سرمایہ دارانہ نظام بھی ڈوب رہاہے، یہی جہادیوں اور القاعدہ کی اسڑاٹیجی تھی ، اﷲ جانتاہے لیکن سوویت یونین کے بعد وہ اسکو گرانے میں کامیاب نظر آرہے ہیں ۔

ایسے میں اگر امہ او ربالخصوص پاکستان نے بدلتے حالات کا صحیح ادراک نہیں کیا، توعالم اسلام کے کچھ ممالک جن میں سرِدست پاکستان ہے خاکم بدہن ناکام ریاستوں میں شامل ہوجائینگے ، بین الاقوامی بڑی استعماری قوتیں یہاں نئے بٹوارے پر تلی نظر آرہی ہیں ، خلیج اور ایران بھی مدمقابل ہیں ، افغانستان مجروح ہے ، بنگلہ دیش سب کے سامنے ہے ،انڈیا دشمن ہے ، اب اڑوس پڑوس کی اس نا گفتہ بہ صورت حال میں ہمارا کیا بنے گا، ایک ایٹمی ذمہ دار طاقت کے طور پر ہم اپنے آپ اور اپنے جوار کے ممالک ،عالم عربی ،عالم اسلام بلکہ عالم انسانیت کے لئے کیا کرسکتے ہیں ، یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں ، کیاہمارے سیاسی لیڈران ،سیاسی جماعتیں ،عسکری قیادت ، اسٹبلشمنٹ ،علماء، دانشور، میڈیا اینکرڑز اور ملک کے نامور ھیروز، اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرکے امہ یا کم سے کم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو بچا سکینگے ؟؟
خدارا!! کچھ کریں۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 879642 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More