دل کی ٹیوننگ

بہت سال پرانی بات ہے، لاہور کے ایک ہوٹل میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں محترم اشفاق احمد (مرحوم) مہمان خصوصی تھے۔ جب اسٹیج پر اشفاق صاحب کو دعوت خطاب دی گئی تو حسب توقع اشفاق صاحب نے چند ہی لمحوں میں اپنی گفتگو کے ذریعے حاضرین کو مبہوت کر دیا۔ انہوں نے ایک واقعہ سنایا جو اب بھی مجھے یاد ہے، وہ کچھ یوں تھا”ہمارے بابا سائیں نور والے فرماتے ہیں کہ اللہ کی آواز سننے کی پریکٹس کرنی چاہئے، جو شخص اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملا لیتا ہے، اسے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں رہتی۔ کسی نے بابا جی سے پوچھا کہ اللہ کی آواز کے ساتھ اپنا دل ملانا بھلا کیسے ممکن ہے تو جواب ملا کہ انار کلی بازار جاؤ، جس وقت وہاں خوب رش ہو اس وقت جیب سے ایک روپے کا بڑا سکا (جسے اس زمانے میں ٹھیپہ کہا جاتا تھا) نکالو اور اسے ہوا میں اچھال کر زمین پر گراؤ۔ جونہی سکہ زمین پر گرے گا، تم دیکھنا کہ اس کی چھن کی آواز سے پاس سے گزرنے والے تمام لوگ متوجہ ہوں گے اور پلٹ کر زمین کی طرف دیکھیں گے۔ کیوں؟ اس لئے کہ ان سب کے دل اس سکے کی چھن کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ ہوئے ہیں۔ لہٰذا اب یہ تمہاری مرضی ہے کہ یا تو تم بھی اپنا دل اس سکے کی آواز کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کر لو یا پھر اپنے خدا کی آواز کے ساتھ ملا لو!!!“

بابا جی کا بیان ختم ہوا تو نوجوانوں کے گروہ نے ان کو گھیر لیا اور سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ کسی نے پوچھا” سر! ہمیں سمجھائیں کہ ہم کیسے اپنا دل خدا کے ساتھ ”ٹیون اپ“ کریں کیونکہ ہمیں یہ کام نہیں آتا؟“ اشفاق صاحب نے اس بات کا بھی بے حد خوبصورت جواب دیا ، فرمانے لگے”یار ایک بات تو بتاؤ…تم سب جوان لوگ ہو…جب تمہیں کوئی لڑکی پسند آ جائے تو تم کیا کرتے ہو؟ کیا اس وقت تم کسی سے پوچھتے ہو کہ تمہیں کیا کرنا چاہئے ؟ نہیں…اس وقت تمہیں سارے آئیڈیاز خود ہی سوجھتے ہیں،…ان سب باتوں کے لئے تمہیں کسی گائڈینس کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ اس میں تمہاری اپنی مرضی شامل ہوتی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب خدا کی بات آتی ہے تو تمہیں وہاں رہنمائی بھی چاہئے، اور تمہیں یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ خدا کے ساتھ اپنے آپ کو” ٹیون اپ “کیسے کرنا ہے؟“

اشفاق صاحب کی ان باتوں سے ایک نتیجہ تو نہایت آسانی کے ساتھ نکالا جا سکتا ہے کہ جس کام میں ہماری مرضی شامل ہو، ہم وہ کام کسی کے کہے سنے اور کسی کی ہدایت یا رہنمائی کے بغیر بھی بہترین طریقے سے کر گزرتے ہیں جبکہ جس کام میں ہمارا دل نہ لگے یا جو کام ہمیں پسند نہ ہو اور اس کام کے بارے میں ہم ”یملے“(جان بوجھ کر بھولے) بن جاتے ہیں۔ خدا سے دل لگانا تو بہت بڑی بات ہے ، بہت چھوٹی سی بات بھی اگر ہمیں نہیں بھاتی اور ہم اس میں کیڑے تلاش کرنے لگ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں تو اپنی ملازمت کے فوائد سے متعلق آپ کو تمام تر معلومات ہوں گی، حتیٰ کہ اگر آپ کو یہ کہا جائے کہ کسی فائدے کے حصول کے لئے فلاں نوٹیفیکیشن درکار ہے جو سن 1935 میں جاری ہوا تھا اور اس کی ایک ہی کاپی بچی ہے جو سول سیکریٹیریٹ کی ”آرکائیوز“ برانچ میں محفوظ ہے تو آپ یقیناً وہاں سے وہ اصل کاپی نکلوا کر اس کی جگہ نقل رکھوا دیں گے۔ لیکن اس کے بر عکس اگر آپ کا افسر آ پ کو یہ کہے کہ فلاں نوٹس آج کے دن فلاں شخص کو اصالتاً وصول کروانا ہے اور اس دن آپ کا گرمی کی وجہ سے باہر نکلنے کو بالکل دل نہ کرے ( جو کہ بالکل جائز بات ہے) تو آپ اپنے افسر کو سب سے پہلے کو کچھ اس قسم کی تاویلیں پیش کریں گے: ”سر! آج جمعہ ہے، وہ بندہ آج نہیں ملے گا…سر! فوٹو کاپی مشین خراب ہے ، نوٹس کی کاپی نہیں ہو سکتی …کاغذ نہیں ہے…کوئی سواری نہیں ہے…بندے کا پتہ نا مکمل ہے …وغیرہ وغیرہ۔“ ہو سکتا ہے کہ آپ کے ان دلائل میں سے کسی ایک کا اثر آپ کے باس پر ہو جائے لیکن اگر کسی بات کا الٹا اثر ہو گیا تو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔

قومی سطح کے معاملات پر بھی ہمارا حال کچھ اسی قسم کا ہے، اگر تو کسی حاکم نے کوئی غیر ملکی دورہ کرنا ہے تب اس کی تیاری دیدنی ہوتی ہے۔ اسی طرح بلٹ پروف گاڑیوں کی اجازت دینے جیسے معاملات بھی منٹوں میں نپٹائے جاتے ہیں، کسی چاہنے والے (والی) کو نوازنا ہو تب بھی حکومتی مشینری ہلا کر رکھ دی جاتی ہے۔ البتہ سوات یا بلوچستان جیسا کوئی غیر اہم مسئلہ ہو ، دس پندرہ لاکھ معصوم بچے، عورتیں، بوڑھے اور جوان گھر سے بے گھر ہو کر ایک ایک روٹی اور ایک قناعت کے لئے مارے مارے پھر رہے ہوں تو اس وقت حکمران محض ایک ارب روپے کے پیکج کا اعلان کر کے یوں مطمئین اور لاتعلق ہو کر بیٹھ جاتے ہیں جیسے کوئی موٹر سائیکل سوار نئی نویلی گاڑی کو سکریچ ڈال کر ایسے لاتعلقی سے گزر جاتا ہے جیسے اسے اس بات سے کوئی سروکار ہی نہ ہو کہ وہ کیا کر گزرا ہے۔ اشفاق صاحب ٹھیک ہی کہا کرتے تھے کہ زیادہ پڑھنے لکھنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیونکہ سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ اسلام آباد میں رہتے ہیں اور آج تک وہاں سے کوئی اچھی خبر نہیں آئی!!!

(This article is permitted by the author to publish here)

Yasir Pirzada
About the Author: Yasir Pirzada Read More Articles by Yasir Pirzada: 30 Articles with 63376 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.